پنجاب کے دانشوروں سے شکوہ

لڑکپن میں جب “فارم ب” کی ضرورت پڑی تب نادرا سے واسطہ پڑا یونین کونسل میں تاریخ پیدائش کا اندراج نہ ہونے کے سبب خوب کھجل خرابہ ہوا کچہریوں سے اشٹام پیپر پر بیان حلفی لکھوانے کے بعد اندراج والا معاملہ طے ہوا اور فارم جمع کروا دیا ۔ جب مقررہ تاریخ کو “فارم ب” لینے گیا تو معلوم پڑا کہ سکول سرٹیفکیٹ پر والد صاحب کا نام مراد خان جبکہ والد صاحب کے شناختی کارڈ پر ملک مراد خان لکھا ہوا ہے جسکے سبب نادرا والوں نے اعتراض لگا کر بھیج دیا ہے ۔ چھوٹے بہن بھائیوں کے سکول ریکارڈ اور برتھ سرٹیفکیٹ پر بھی ایسا ہی لکھا ہوا تھا جیسا میرے سکول کے ریکارڈ میں تھا اسلیے پہلے والد صاحب کے شناختی کارڈ پر نام تبدیل کروایا اور نئے نام سے انکا شناختی کارڈ بنوایا تب جاکر میرا “فارم ب” بنا ۔ یہ خواری صرف میرے حصہ میں نہیں آئی بلکہ میرے گائوں کے سینکڑوں لوگ اسکا شکار ہوئے شناختی کارڈ کا جدید کمپیوٹرائزڈ نظام آنے کی وجہ سے کم پڑھے لکھے اور نچلے طبقے کے لوگوں کو سب سے زیادہ دشواری ہوئی ۔ کسی کے بچوں کی تاریخ پیدائش کا اندراج نہیں تھا تو کسی بیچارے کا نکاح نامہ تک سرکار کے گھر جمع نہیں ہوا تھا میں نے کتنے ہی لوگوں کو ان معاملات کی وجہ سے پریشانی کا شکار دیکھا ۔ ایک عورت نے پہلے شوہر سے علیحدگی کے بعد دوسری شادی کی مگر شناختی کارڈ پر پہلے شوہر کا نام درج رہا کئی سال بعد جب انکی بیٹی کو سکول میں داخل کروایا گیا اور کوائف میں والدین کے شناختی کارڈ جمع کروائے گئے تو سکول کے کسی کلرک کی نشاندہی پر انہوں نے نادرا آفس سے رجوع کیا ۔ نادرا والوں نے نکاح نامہ مانگا تو معلوم ہوا کہ کہ یونین کونسل میں انکا نکاح ہی رجسٹر نہیں اسکے بعد اس سب کچھ کے لیے انہیں جتنی تکلیف اٹھانا پڑی اس کا اور ایسے درجنوں واقعات کا میں عینی شاہد ہوں ۔ ایسے لوگ جن کا رات کا چولہا دن میں کمائے گئے چند روپوں سے جلتا تھا انکو بھی ہفتہ ہفتہ بھر اس کام کے لیے نادرا آفس یونین کونسل کچہریوں اور ہسپتال کے چکر لگاتے دیکھا ۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ کسی نے نکاح نامہ یونین کونسل میں جمع نہ کرانے پر نکاح خواں کو کوسا تو کوئی بچوں کا اندراج نہ کرنے پر یونین کونسل کے چپراسی کو برا بھلا کہتا تھا کچھ ایسے بھی تھے جو اس کو اپنی سستی یا لاپرواہی مانتے تھے ۔ مگر کوئی بھی ایسا حقیقت پسند قوم پرست دانشور نہیں تھا جو ان کو سمجھاتا کہ یہ سب اس مہاجر جرنیل اور اسکی اسٹیبلشمنٹ کی کارستانی ہے کہ پہلے انکے دو تہائی اکثریت والے پنجابی وزیراعظم کو دھکے مار کر ملک بدر کیا، اور اب انہیں اپنے باپ دادا کی سرزمین جس پر وہ ہزاروں برس سے آباد ہیں اپنی جائز شناخت اور بچوں کے کوائف کے لیے کبھی ایک در پر اور کبھی دوسرے پر ذلیل کیا جارہا ہے ۔ یہ تو صرف شناختی کارڈ اور نکاح نامے کے اندراج کی کہانی ہے اسکے علاوہ بھی ہر شعبہ میں عام آدمی کو ایسے یا اس سے بھی زیادہ برے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن مجھے پنجاب کے لوگوں سے ہمیشہ یہ شکوہ رہے گا کہ یہ اپنے ساتھ ہونے والے ایسے واقعات کا الزام کسی اور صوبے پر نہیں لگاتے اور نہ ہی انکے دانشور ایسے واقعات کو الفاظ کے موتیوں سے آراستہ کرکے مزید پرسوز بناتے ہیں ۔ نا ہی اپنی محرومیوں کا سبب کسی مخصوص علاقہ یا کسی استعمار کو ٹھہراتے ہیں بلکہ ان احساس کمتری کا شکار لوگوں کو ہر بات میں اپنی ہی کوئی نا کوئی کوتاہی نظر آجاتی ہے اور وہ اس کی درستی اور اپنے آپ کو اس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں ۔
ایک قوم پرست دانشور کی تحریر نظر سے گزری جس میں انہوں نے اپنی قوم کو شناختی کارڈز کے حصول میں درپیش مسائل کا انتہائی پرسوز انداز میں نقشہ کھینچا تھا تو مجھے بھی یہ واقعات یاد آگئے اسلیے لکھ دیے ۔

Facebook Comments

ظہیر تریڑ
میانوالی کا رہائشی دبئی میں رہائش پذیر اردو کا طالبِ علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”پنجاب کے دانشوروں سے شکوہ

  1. بہت اچھی کاوش ہے ۔ واقعی اس معاملہ میں پنجاب کے باسی قابل فخر ہی گردانے جاتے ہیں ۔

Leave a Reply