اب ہم پھر اپنے موضوع پر پلٹ کر واپس آتے ہیں-
مذہب شیعہ کی اساس غدیر خم کا واقعہ ہے اور مولانا نعمانی نے اسے افسانہ قرار دیا ہے یہ افسانہ ہے ہی اس لئے کہ اگر اسے درست تسلیم کر لیا جائے تو پھر اس عقیدے کے جو خطرناک نتائج نکلیں گے وہ بڑے بھیانک ہوں گے- نعمانی صاحب نے بجا طور پر کہا ہے کہ اگر غدیر خم کو حقیقت مان لیا جائے تو پھر “اس کے لازمی نتیجہ کے طور پر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم اپنی امت کی تعلیم و تربیت اور کردار سازی میں… ناکام رہے……اسی طرح اس عقیدہ کا نتیجہ یہ بھی ہوگا کہ سارا دین ناقابل اعتماد ہو جائے گا کیونکہ وہ….صحابہ کے واسطے سے امت کو ملا ہے” اور صحابہ شیعہ عقائد کی رو سے ‘ناخدا ترس اور نفس پرست، انسان تھے- غدیر خم کے افسانے سے نعمانی صاحب تیسرا نتیجہ یہ اخذ کیا ہے کہ پھر قرآن بھی ناقابل اعتبار ٹھہرے گا اس لئے کہ موجودہ قرآن کی ترتیب و اشاعت کا کام خلفائے ثلاثہ ہی کے زمانے میں ہوا تھا “خمینی صاحب کے عقیدے کے مطابق یہی تینوں حضرات رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کے قائم کئے ہوئے نظام کو نیست و نابود کرنے کے اصلی ذمے دار اور (معاذاللہ) اکابر مجرمین ہیں” پھر اس کے بعد مولانا نعمانی نے مسئلۂ تحریف کا قدرے تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے اور نوری طبرسی کی “فصل الخطاب فی اثبات تحریف کتاب رب الارباب، کا خاص طور پر ذکر کیا ہے “اس کتاب کے مصنف علامہ نوری طبرسی نے اپنے شیعی نقطۂ نظر کے مطابق اس دعوے کے ثبوت میں دلائل کے انبار لگا دیئے ہیں کہ موجودہ قرآن میں تحریف ہوئی ہے” خمینی کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ تحریف کے قائل نہیں ہیں لیکن مولانا نعمانی کی نگہ باریک بیں نے نوری طبرسی اور خمینی کا تعلق بھی ڈھونڈ نکالا ہے- الحکومۃ الاسلامیہ میں خمینی نے نوری کا ذکر ایک جگہ بڑے احترام کے ساتھ کیا ہے- خمینی کی یہ عقیدت اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ وہ تحریف کے قائل تھے لیکن تقیہ بازی کا مظاہرہ کر رہے تھے-
الحکومۃ الاسلامیہ میں خمینی اپنے آپ کو سنبھال لے گئے ہیں لیکن کشف الاسرار میں انہوں نے بنا کسی لاگ لپٹ کے خلفائے ثلاثہ کے بارے میں اپنے بغض کا اظہار کر دیا ہے- اس کتاب میں خمینی نے رواداری کا چولا اتار کر تبرائی شیعہ کا بھیس دھارڑ کر لیا ہے اور یہی ان کا اصلی روپ ہے- کتاب نایاب ہے لیکن سید سلیمان ندوی کے صاحبزادے ڈاکٹر سید سلمان ندوی نے کشف الاسرار کی فوٹو کاپی مولانا نعمانی کو بھیج دی جس کی وجہ سے مولانا نعمانی نے خمینی کا اصلی روپ قارئین کے سامنے پیش کر دیا- اس کتاب میں خمینی نے خلفائے ثلاثہ اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف جم کر اپنے دل کے پھپھولے پھوڑے ہیں-
مولانا نعمانی نے کسی گوشے کو تشنہ نہیں چھوڑا ہے- خمینی کی فقاہت، متعہ، شیعیت کی ابتداء، عقائد، فرقے اور امامت کی حقیقت کو بھی موضوع بحث بنایا ہے- امام غائب کی طلسماتی شخصیت پر جو دبیز پردے پڑے ہوئے ہیں مولانا نے ان کی بھی نقاب کشائی کی ہے-
خلاصہ یہ کہ مولانا نعمانی کی “ایرانی انقلاب امام خمینی اور شیعیت” اس لائق ہے کہ اسے نصاب میں داخل کیا جائے تاکہ ہمارے طلباء اس انقلاب کی بنیادوں سے واقف ہو سکیں- اس کتاب کی نشر و اشاعت منظم انداز میں ہونی چاہئے اور خاص طور پر ان لوگوں کو جو خود کو “اسلام پسند” کہتے ہیں ان تک اس کتاب کو پہنچانا چاہئے تاکہ وہ سراب کے پیچھے نہ دوڑیں اور حقیقت اور فریب میں فرق کر سکیں-
ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ اس کتاب کی دوسری جلد شائع کی جائے اور یہ بتایا جائے کہ ایران کے انقلاب نے کس طرح سے عالم اسلامی کے چین و سکون کو تہ و بالا کیا ہے- عرب بہاریہ بھی اسی انقلاب کا شاخسانہ تھا اور اب دل تھام کر سنیں غزہ میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے اس میں بھی اس انقلاب کا ہاتھ تلاش کریں- ہر سال رمضان کے آخری جمعہ کو عالمی یوم قدس کے طور پر منایا جاتا ہے یہ سلسلہ خمینی نے شروع کیا تھا- عراق اور شام اہل سنت کیلئے سلاٹر ہاؤس بنا دیا گیا لیکن اہل سنت اب بھی اس انقلاب کی اسلامیت پر سر دھنتے ہیں- ایران عراق جنگ کے دوران مولانا نعمانی نے یہ کتاب لکھی تھی- مولانا نے لکھا ہے کہ “اقوام متحدہ، ناوابستہ ممالک کی تنظیم اور تمام مسلم ممالک اور مسلمان حکومتوں نے بار بار یہ ہلاکت خیز جنگ ختم کرانے کی کوشش کی لیکن خمینی صاحب اور ان کی حکومت نے ان تمام کوششوں کو ٹھکرایا اور صرف خمینی صاحب کی ضد کی وجہ سے یہ ہلاکت خیز جنگ جاری ہے اور صاف نظر آ رہا ہے کہ عراق کے بعد ان کا نشانہ حرمین شریفین اور دوسرے ممالک عربیہ ہیں” کتنی سچی بات کہی تھی مولانا نعمانی نے- آج بحرین، یمن، لبنان، شام اور عراق میں اہل سنت کی نسل کشی جاری ہے- جنرل قاسم سلیمانی نے کہا تھا کہ اس وقت پانچ عرب دارالحکومتوں پر فارس کا کنٹرول ہے- فہل من مدکر-
ختم شد
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں