اس قسط میں ہم ذرا موضوع سے ہٹ کر گفتگو کریں گے لیکن یہ گفتگو بھی موضوع سے متعلق ہی ہے-
جماعت اسلامی پاکستان کے ایک امیر ہوا کرتے تھے- نام نامی اسم گرامی قاضی حسین احمد تھا، ہماری نظر میں وہ رجل رشید تھے- برصغیر کی جماعت اسلامی نے سید مودودی کو ایک بت بنا دیا ہے حالانکہ سید مودودی خود بت شکن تھے- جماعت اسلامی نے سید مودودی کو معصوم بھی بنا دیا ہے اور ‘بغض مودودی، کے نام سے ایک نفسیاتی ترکیب ایجاد کر دی ہے- اس زرہ پوش سید مودودی سے کوئی اختلاف کی جرآت نہیں کر سکتا اس لئے کہ ان کا فرمایا ہوا مستند ہو چکا ہے جبکہ خود سید مودودی کا حال یہ تھا کہ وہ ہر کس و ناکس کو پہلے اختلاف کے خراد پر چڑھاتے تھے پھر کوئی بات کرتے تھے- ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں- وہ صحابۂ کرام تک کو لقمہ دے دیتے ہیں ایسے حبس زدہ ماحول میں جب قاضی حسین احمد جماعت اسلامی کے امیر بنے تو 1997 میں انہوں نے شوری کا اجلاس بلا کر ایک ایجنڈا پیش کیا- یہ ایجنڈا گرچہ یک نکاتی تھا لیکن بڑا ایجنڈا تھا- قاضی صاحب نے کہا کہ دیکھو بھئی! یہ جو سید مودودی کی چند عبارتیں ہیں جن پر علماء کو اعتراض ہے یہ سید مودودی کی عبارتیں ہیں نا! کوئی اللہ اور اس کے رسول کا ارشاد تو نہیں ہے اگر علماء کی اتنی غیر معمولی تعداد کہہ رہی ہے کہ یہ موقف غلط ہے تو بھئی ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ نہیں یہ صحیح ہے- کوئی ایک عالم تو نہیں کہہ رہا ہے نا! بریلوی بھی کہہ رہے ہیں، دیوبندی بھی کہہ رہے ہیں اور اہل حدیث بھی کہہ رہے ہیں، سب کہہ رہے ہیں اور سب یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں سید مودودی کے کل کام پر اعتراض نہیں ہے یہ چند عبارتیں ہیں اور ایک وہ کتاب ہے خلافت و ملوکیت- اس پر اعتراض ہے باقی ان کا جتنا بھی سرمایۂ علم ہے اس پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے- ہم اس کی قدر کرتے ہیں- قاضی حسین احمد نے کہا کہ یہ جو عبارتیں ہیں ان کے نتیجے میں ہم پوری امت مسلمہ سے کٹ کر رہ گئے ہیں اور ہم بھی ایک فرقہ بن کر رہ گئے ہیں حالانکہ ہم تو فقہ حنفی پر عمل کرتے ہیں لیکن فقہ حنفی کے دونوں بڑے مسالک (بریلوی اور دیوبندی) ہمیں قبول نہیں کرتے- نتیجہ یہ ہے کہ ہم پوری امت سے کٹے ہوئے ہیں حتی کہ عرب دنیا میں بھی ہم اچھوت بنے ہوئے ہیں اور وہ مولانا کو پسند نہیں کرتے تو اب ہمیں امت مسلمہ کا باقاعدہ حصہ بننا ہے یا اسی طرح سے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنانی ہے- اگر امت مسلمہ کا حصہ بننا ہے تو پھر یہ متنازع عبارتیں حذف کرنی ہوں گی اور خلافت و ملوکیت کو مزید جماعت اسلامی کا مکتبہ شائع نہیں کرے گا- قابل اعتراض عبارتیں مثلاً تفہیم القرآن سے تو وہاں سے وہ عبارتیں ہٹا دی جایئں تو کسی کو ہم پر اعتراض ہی نہیں رہے گا اور سب لوگ ہمیں قبول بھی کر لیں گے اور ہم آسانی سے آگے کام کر سکیں گے پھر باہم کوئی عناد بھی نہیں رہے گا- دوسرے داڑھی کا مسئلہ تو سید مودودی کا یہ قول بدنام زمانہ ہے کہ “اسلام میں داڑھی ہے داڑھی میں اسلام نہیں،، جبکہ برصغیر میں مسنون داڑھی رکھنے کا رواج ہے، تو اس معاملے میں بھی ہم اکثریت کا حصہ کیوں نہ بنیں اور کیوں ہم اقلیت کا حصہ بنے ہوئے ہیں- شوری کا یہ اجلاس کئی روز تک چلا- خوب بحث و مباحثہ ہوا اس کے بعد ‘اتفاق رائے، سے فیصلہ ہوا کہ تمام قابل اعتراض مواد اور متنازع عبارتوں کو سید مودودی کی کتابوں سے حذف کر دیا جائے گا اور جماعت اسلامی کا مکتبہ خلافت و ملوکیت کو مزید شائع نہیں کرے گا- داڑھی کے مسئلے میں البتہ یہ چھوٹ دے دی گئی کہ جس کو جیسا سمجھ میں آئے رکھے لیکن جن لوگوں کو قاضی صاحب کے دلائل سمجھ میں آ گئے انہوں نے اپنی داڑھیاں مسنون کر لیں اب جماعت اسلامی پاکستان میں دو طرح کے لوگ ہیں ایک وہ جن کی داڑھیاں مسنون ہیں اور ایک وہ جن کی داڑھیاں چھوٹی ہیں- بڑی داڑھی والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے قاضی صاحب کے اس موقف کو تسلیم کر لیا تھا کہ ہمیں اکثریت کا حصہ بننا ہے اقلیت کا نہیں- یہ کارنامہ انجام دینے کے بعد قاضی صاحب پاکستان کی دینی تنظیموں سے رابطہ کیا اور ان سے کہا کہ بھئی ہمیں ایک وحدت بنانی چاہیے- مجلس عمل قاضی صاحب کی پہلی وحدت تھی جس کے پلیٹ فارم سے بہت سارے مشترکہ پروگرام ہوئے- اس طرح قاضی صاحب نے مسلکی وحدت پیدا کرنے میں بھی کامیابی حاصل کر لی- دو تین سال کے بعد قاضی صاحب نے ایم ایم اے بنا دی- اس سیاسی وحدت پر سید منور حسن کی قیادت میں ان جماعتیوں نے شب خون مارا جو قاضی صاحب کے خلاف تھے- قاضی صاحب تھک چکے تھے اس لئے انہیں کنارے لگایا گیا اور پھر سید منور حسن امیر بنے- امیر بنتے ہی انہوں نے مجلس عمل اور ایم ایم اے دونوں کو توڑ دیا اس کے بعد جماعت اسلامی کا جو حشر ہوا اس کی تفصیل بہت ہوش ربا ہے- سید منور حسن نے جذبات میں آ کر جو غلطی کی اس خمیازہ صرف سید منور حسن ہی نے بھگتا- آئی ایس پی آر کے ایک پریس ریلیز پر پوری جماعت اسلامی سید منور حسن کے خلاف ہو گئی اور ان کا پتہ کاٹ کر سراج الحق کو آگے لایا گیا- سید منور حسن واحد امیر ہیں جنہیں دوسری ٹرم کا موقعہ نہیں ملا- ان کی موت بھی اسی صدمے سے ہوئی- رازداران درون میخانہ کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی کے اندر قاضی حسین احمد کو ‘دیوبندیوں کا ایجنٹ، کہا جاتا ہے اور دلیل کے طور پر وہ قاضی صاحب کا نام پیش کرتے ہیں کہ ان کا نام مولانا حسین احمد مدنی کے نام پر رکھا گیا- سکہ بند جماعتیوں کو دکھ ہے کہ قاضی صاحب نے جماعت کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ایک وہ جو فکر مودودی کے ساتھ ہے اور ایک وہ جو فکر مودودی کے خلاف ہے-
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں