مولانا نعمانی نے سب سے پہلے ایرانی انقلاب کی واقعی نوعیت بتلا کر یہ واضح کیا ہے کہ اس انقلاب کی بنیاد شیعوں کے اساسی عقیدہ امامت پر رکھی گئی ہے اس کے بعد مولانا نے عقیدۂ امامت کا تعارف پیش کیا ہے پھر اس کے بعد خمینی کی کتابوں کا جائزہ لے کر یہ ثابت کیا ہے کہ خمینی نے بھی اپنی کتابوں میں شیعی عقائد ہی کی ترجمانی کی ہے- شیعی ائمہ کے بارے میں خمینی کی بھی وہی سوچ ہے کہ جو عام شیعوں کی ہے یہی کہ کائنات کے ذرے ذرے پر ان ائمہ کی تکوینی حکومت ہے اور ان کا مقام انبیاء و ملائکہ سے بھی بالاتر ہے۔ ائمہ معصوم ہیں اور ان سے کوئی غفلت کبھی سرزد نہیں ہو سکتی- مولانا نعمانی نے خاص طور پر خمینی کی کتاب ‘الحکومۃ الاسلامیہ، کا ذکر کیا ہے اس لئے کہ یہی کتاب ایرانی انقلاب کی بنیاد ہے اس کتاب میں خمینی کے حوالے سے مولانا نعمانی نے لکھا ہے کہ صرف شیعہ فقیہ و مجتہد ہی اس لائق ہے کہ وہ عالم اسلامی پر حکومت کر سکتا ہے اس ضمن میں مولانا نے ولایت فقیہ کے عزائم پر بھی کھل کر گفتگو کی ہے۔ خمینی کے نزدیک ‘فقہاء یعنی شیعہ مجتہدین کا حق بلکہ ان کی ذمے داری اور ان کا فرض ہے کہ وہ امام آخرالزماں (امام غائب) کے نائب اور قائم مقام کی حیثیت سے حکومت کا نظام اپنے ہاتھ میں لینے کی جدوجہد کریں۔ خمینی کے ان فرمودات کی روشنی میں اندازہ کریں کہ بحرین، عراق، شام، لبنان اور لیبیا میں جو آگ لگی ہوئی ہے وہ خمینی ہی کی لگائی ہوئی ہے اور خمینی کی کیا یہی تو شیعہ عقائد ہی کی بنیاد ہیں۔
یہ جو آج کہا جا رہا ہے کہ حسین سب کے ہیں تو بلاشبہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سب کے ہیں لیکن کیا اس آفاقیت کے چوکھٹے میں دوسروں کو بھی کبھی فٹ کیا گیا ہے ہم موازنہ نہیں کر رہے ہیں بلکہ ان کی جو نسل پرستی ہے اسے آشکارا کر رہے ہیں۔ کیا ان آفاقی ذہنوں کے منہ سے کبھی آپ نے سنا کہ اللہ سب کیلئے ہے اور سب کا مالک ہے، رب العالمین کی ربوبیت پر انہوں نے کبھی گفتگو کی؟ رسول اللہﷺ فداہ ابی و امی کے بارے میں کبھی کہا کہ آپ سب کیلئے ہیں اور آپ کی تعلیمات کا دائرہ کسی خاص علاقے تک محدود نہیں ہے لیکن انہیں شیعہ حضرات کو جب ہم اسلام کو بدوی رسومات کا مجموعہ اور عربی ثقافت کا پرتو کہتے ہوئے سنتے ہیں تو ہمیں ان کے عزائم کے بارے میں کوئی شک نہیں رہ جاتا- آپ بلاشبہ خود کو حسینی کہلوایئں لیکن کبھی پھوٹے منہ خود کو محمدی بھی کہہ دیا کریں-
حضرات شیخین، اکابر صحابہ، سیدنا عثمان اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہما کے بارے میں شیعوں کی جو سوچ ہے مولانا نعمانی نے خمینی کی کتاب ‘کشف الاسرار، کے حوالے سے بنا کسی رعایت مروت کے اسے بھی بتلایا ہے۔الحکومۃ الاسلامیہ کا موضوع ایسا ہے کہ شیخین کے بنا خمینی کی گفتگو مکمل نہیں ہو سکتی تھی لیکن بقول نعمانی صاحب ‘خمینی صاحب صرف شیعہ عالم و مجتہد یا شیعہ مصنف ہی نہیں ہیں بلکہ وہ ہمارے اس دور کی ایک سیاسی شخصیت (ڈپلومیٹ) اور ایک انقلابی دعوت و تحریک کے قائد بھی ہیں اور اس انقلابی تحریک میں ان کی اصل طاقت اگرچہ شیعہ ہیں لیکن غیر شیعہ مسلمانوں کو بھی ممکن حد تک اس میں استعمال کرنا ان کی سیاسی ضرورت ہے اس لئے الحکومۃ الاسلامیہ میں انہوں نے اس سلسلہ میں یہ رویہ اختیار کیا ہے کہ وہ اپنے ذاتی عقیدہ و ایمان کے تقاضے سے اور شیعی دنیا کو مطمئن رکھنے کیلئے بھی غدیر خم کے واقعہ کا اور رسول اللہ ﷺ کی طرف سے اپنے بعد کیلئے وصی اور خلیفہ و جانشین اور امت کیلئے ولی الامر کی حیثیت سے حضرت علی مرتضیٰ کی نامزدگی کا ذکر کرتے ہیں لیکن اس کے لازمی اور منطقی نتیجہ کے طور پر شیخین اور عام صحابہ کرام پر اللہ و رسول سے غداری اور کفر و ارتداد کی جو فرد جرم عائد ہوتی ہے وہ سیاسی مصلحت سے صراحت کے ساتھ اس کے ذکر سے اپنے قلم کو روک لیتے ہیں۔۔ اس معاملہ میں انہوں نے اتنی احتیاط ضروری سمجھی ہے کہ پوری کتاب “الحکومۃ الاسلامیہ” میں شیخین (حضرت ابوبکر اور حضرت عمر) کا کہیں نام تک نہیں آنے دیا ہے۔
تبصرہ کرنے سے پہلے مولانا نعمانی کا ایک اقتباس اور دیکھ لیں-
‘الحکومۃ الاسلامیہ میں۔۔۔خمینی صاحب نے اسلامی حکومت کے سلسلہ میں عہد نبوی کے بعد حضرت علی مرتضیٰ ہی کے عہد حکومت کا ذکر کیا ہے اور شیخین اور حضرت عثمان کے ذکر سے ہر جگہ دانستہ پرہیز کیا ہے۔۔یہ رویہ انہوں نے اس لئے اختیار کیا کہ اگر وہ خلفائے ثلاثہ کی حکومت کو بھی “اسلامی حکومت” قرار دے کر یہاں ذکر کرتے جیسا کہ تاریخی تسلسل کا تقاضا تھا تو شیعہ نوجوان جو اِن کی اصل طاقت ہیں ان کو “ولایت فقیہ” کے منصب کیلئے نااہل قرار دے کر ان کے خلاف بغاوت کر دیتے۔اور اگر خمینی صاحب اپنے عقیدہ و مسلک کے مطابق ان کے بارے میں صفائی سے اظہارِ رائے کرتے تو جو غیر شیعہ طبقے اسلامی انقلاب کے نعرہ کی کشش یا اپنی سادہ لوحی سے ان کے آلۂ کار بنے ہوئے ہیں ان کی ہمدردی اور ان کا تعاون ان کو حاصل نہ ہو سکتا۔
یہ ہوتی ہے مومن کی فراست جس کا مظاہرہ مولانا نعمانی نے کیا ۔اب وہ لوگ اپنی فراست کا جائزہ لے لیں جو خود کو ‘اسلام پسند کہتے نہیں تھکتے۔ یہ لوگ اوّل روز سے اپنی سادہ لوحی کو اپنی فراست سمجھ رہے ہیں اور آج تک انہوں نے اپنے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں پیدا کی اور نہ ہی یہ کریں گے اب ذرا دل تھام کر تین سید زادوں کا جائزہ لے لیں اور بتائیں کہ ان کے اور خمینی کے افکار میں کیا فرق ہے؟ پہلے سید مودودی ہیں جنہوں نے خلافت و ملوکیت لکھی۔ خمینی اور سید مودودی میں فرق بس اتنا ہے کہ اول الذکر شیخین کا ذکر گول کر جاتے ہیں جبکہ سید مودودی شیخین کا ذکر کرتے ہیں لیکن سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ تک آتے آتے خمینی کے ساتھ ہو لیتے ہیں یہی حال سید قطب کا ہے۔ العدالۃ الاجتماعیہ میں انہوں نے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ساتھ وہ ناانصافی کی کہ یوسف قرضاوی جیسا اخوانی بھی برداشت نہیں کر سکا۔ قرضاوی نے اسلام اور سیکولرزم میں سید قطب کے اس طرز عمل کا شکوہ کیا ہے۔ تیسرے سید ابوالحسن علی ندوی ہیں۔ ندوی ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمین میں خلافت راشدہ کے بعد فساد کی جڑ ملوکیت کو قرار دیتے ہیں لیکن المرتضی میں انہوں نے کھلم کھلا سیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے تعلق سے بے سر و پا روایات کا ذکر کیا ہے اور سیدنا عثمان و سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کے حوالے سے یہ سید زادہ بھی مودودی و قطب کا ہم زباں ہے۔ سید ابوالحسن علی ندوی کے طرز عمل پر مدرسہ مظہرالعلوم بنارس کے شیخ الحدیث مولانا زین العابدین المعروفی الاعظمی نے نقد کیا ہے لیکن بھولے سے بھی اس کا ذکر نہیں کیا جاتا۔
جاری ہے
نوٹ: یہ مضمون آزادی ء اظہارِ رائے کے تحت شائع کیا جارہا ہے۔ تحریر میں بیان کردہ خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، مکالمہ ویب کا ان سے اتفاق ضروری نہیں اور نہ ہی یہ خیالات ادارے کی پالیسی کا اظہار ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں