آج ایک بزرگ دوست سے کہا کہ
“مطلقاً یہ دعویٰ کرنا کہ برصغیر کے علما میں شیعیت کا اثر تھا شاید کلی طور پر صحیح نہ ہو ،اس لئے کہ رد روافض میں برصغیر کے علما نے بھی اپنے حصّے کا چراغ جلایا ہے۔ شیخ احمد سرہندی المعروف بہ مجدد الف ثانی تو اپنے مکاتیب میں روافض کے خلاف شمشیر براں نظر آتے ہیں، شاہ عبدالعزیز نے تحفۂ اثنا عشریہ لکھا تو لکھنؤ سے لے کر تہران تک زلزلہ آ گیا ۔اسی ‘جرم، میں شاہ صاحب کی بینائی بھی چھین لی گئی۔ مرزا مظہر جان جاناں کو روافض نے شہید کر دیا ۔یہ اس دور کے علما کے بارے میں لکھا ہے جب روافض کیلئے ہمدردی پائی جاتی تھی ۔اب تو ہر مسلک میں یہ بیداری نظر آتی ہے”۔
یہ نام وہ تھے جن کا ذکر سرسری طور پر کیا گیا ۔اب جی چاہتا ہے کہ اپنی محبوب کتابوں میں سے ایک کا ذکر آپ لوگوں سے بھی کروں۔ محمد منظور نعمانی ہمارے ان بزرگوں میں سے ہیں جن سے مجھے للہ فی اللہ محبت ہے۔ ممکن ہے کہ کسی کو یہ یاد آ جائے کہ نعمانی صاحب ان بزرگوں میں سے ہیں جنہوں نے حسین احمد مدنی کی امیج بلڈنگ کی تھی۔ مدنی صاحب نے شہاب ثاقب میں محمد بن عبدالوہاب کے بارے میں زینی دحلان کے خیالات کو دہرا دیا تھا لیکن کوئی بات نہیں۔ محفوظ الرحمان فیضی نے اس کا جائزہ لے لیا ہے اس لئے اس چیپٹر کو یہیں کلوز کرتے ہیں۔
آزادی کے بعد ہمارے جن بزرگوں نے ہندوستانی مسلمانوں کی اشک سوئی کی ان میں نعمانی صاحب سرفہرست ہیں و۔ہ چاہتے تو اپنے سابقہ دوست سید مودودی کی طرح پاکستان چلے جاتے لیکن مولانا نے یہیں رکنا پسند کیا، اور اس ہنگامۂ دار و گیر میں جب ٹرینوں میں مسلمانوں کیلئے بوگی الگ سے لگائی جاتی تھی اس دور میں نعمانی صاحب جیسے منحنی آدمی نے جس جرات کا مظاہرہ کیا، وہ انہیں کا خاصہ ہے۔ مولانا نے عملی طور پر جس ہمت کا مظاہرہ کیا وہ تو ہے ہی لیکن قلمی طور پر بھی انہوں نے مسلمانوں کے شعور کی تربیت میں کوئی کوتاہی کبھی نہیں کی۔ الفرقان اب شائع ہوتا ہے یا نہیں مجھے معلوم نہیں لیکن کسی زمانے میں الفرقان کے نمبر بڑی اہمیت رکھتے تھے۔ نقوش کے نمبروں کی بڑی شہرت ہے لیکن مولانا نے مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ پر جو نمبر نکالے تھے ہماری مِلی تاریخ میں ان کی بھی بڑی اہمیت ہے ،پھر مثبت انداز میں انہوں نے دین کی جو خدمت کی وہ بھی قابل قدر ہے۔
اسلام کیا ہے؟ دین و شریعت، قرآن آپ سے کیا کہتا ہے اور معارف الحدیث جیسی کتابیں مولانا کا صدقۂ جاریہ ہیں۔ عتیق الرحمٰن سنبھلی مولانا ہی کے صاحبزادے تھے جنہوں نے واقعۂ کربلا اور اس کا تاریخی پس منظر جیسی شاندار کتاب لکھی۔ حفیظ نعمانی کو اُردو صحافت کبھی فراموش نہیں کر سکتی یہ بھی مولانا ہی کے صاحبزادے تھے۔
مولانا کا مزاج ہٹو بچو والا نہیں تھا ۔وہ تشہیر سے کوسوں دور تھے۔ پروپیگنڈے والا مزاج ہوتا تو بہتیرے قد آور ان کے سامنے احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتے ۔وہ خاموشی سے کام کرنے کے عادی تھے، میاں طفیل اس وقت لونڈے تھے اور سوٹڈ بوٹڈ تھے جب انہوں نے جماعت اسلامی کی پہلی میٹنگ میں شرکت کی تھی، اسی میٹنگ میں مولانا نعمانی بھی شریک تھے، میٹنگ کا خاتمہ مولانا کی دعاؤں پر ہوا تھا لیکن میاں طفیل کو یہ بات اچھی نہیں لگی تھی۔ مولانا نعمانی سیدھے سادے بزرگ تھے انہیں مولانا مودودی کی تڑک بھڑک کیا سمجھ میں آتی، اس لئے انہوں نے اپنا راستہ الگ کر لیا۔ مولانا وہ واحد عالم ہیں جنہوں نے سید مودودی کا کوئی اثر قبول نہیں کیا۔ بعد میں مولانا نے سید بادشاہ سے اپنی رفاقت کی سرگزشت پر بھی لکھا جس کی ٹیس تحریکی آج بھی محسوس کرتے ہیں۔ اسی لئے ڈیمیج کنٹرول کیلئے عامر عثمانی کو لایا گیا۔ کیا قسمت پائی تھی عامر عثمانی نے۔ لیجنڈ تھے اور اسلوب ایسا تھا کہ صاحب طرز بھی ،عامر عثمانی کے اسلوب کو رشک سے دیکھتے تھے لیکن ہماری تاریخ کے اتنے بڑے لیجنڈ کو جماعت اسلامی نے مہتر بنا کر رکھ دیا تھا۔ عامر عثمانی کا بس یہی کام رہ گیا تھا کہ وہ سید بادشاہ کا کچرا صاف کریں، عامر عثمانی سید بادشاہ کی کتابوں سے مقام صحابہ کو بلند کرنے کیلئے اقتباسات ڈھونڈتے تھے اور تفہیم القرآن کا دفاع کرتے تھے کچھ وقت مل گیا تو شواہد تقدس کا جائزہ لینے بیٹھ جاتے تھے۔
ایران میں ‘اسلامی انقلاب، آیا تو ساری دنیا کے تحریکی مارے خوشی کے اچھل پڑے ،انہیں ایسا لگا کہ جیسے ان کے خوابوں کی تعبیر خمینی نے پیش کر دی ہے۔ سید مودودی نے فوراً سے پیشتر خمینی کو اپنی حمایت پیش کر دی اور پھر دنیا بھر کے تحریکی دھڑا دھڑ ایران پہنچنے لگے۔ اسعد گیلانی نام کا ایک سید زادہ جب ایران پہنچا تو اسے ایسا لگا کہ جیسے خلافت راشدہ کا دور واپس آ گیا ہو۔ سید زادے کا خیال ہے کہ تیس سال (خلفائے راشدین کی مجموعی مدت) کے بعد صدیوں کا سناٹا خمینی نے توڑا ہے۔ سعید احمد اکبرآبادی جیسا ذی علم انسان بھی ایرانی انقلاب کے حق میں ‘برہان، میں لکھنے لگا لیکن دفعتاً اسّی سالہ ایک بزرگ کے قلم نے انگڑائی لی اور ایرانی انقلاب کے تار و پود ایسے بکھیرے کہ سعید احمد اکبرآبادی نے کھل کر کہا کہ آج تک برہان میں اسلامی انقلاب پر جو کچھ لکھا ہے اس سے رجوع کرتا ہوں۔ آپ جانتے ہیں کہ یہ اسّی سالہ بزرگ کون تھے جی ہاں ہمارے ممدوح حضرت مولانا منظور نعمانی رحمہ اللہ۔
زباں پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا
کہ مرے نطق نے بوسے مری زباں کیلئے
ایرانی انقلاب کے بعد ‘لٹریچر، کا ایک سیلاب سا آ گیا شاید ہی کوئی جگہ بچی ہو جہاں یہ لٹریچر پہنچا نہ ہو، دیہاتوں تک میں یہ لٹریچر بڑی فراوانی سے پہنچے ان لٹریچر میں روح اللہ خمینی کی ‘امامت، اور ایرانی انقلاب کی ‘خالص اسلامیت، پر زور دیا جاتا تھا۔ اسلامی وحدت اور شیعہ سنی اتحاد کا نعرہ اتنی قوت سے لگایا جاتا تھا کہ اچھے بھلے لوگ جھانسے میں آ جاتے تھے اور ایران کی حکومت کو ‘حقیقی اسلامی حکومت، سمجھنے لگتے تھے وہ لوگ جو خود کو ‘اسلام پسند، کہتے ہیں ان کی نظر میں تو روح اللہ خمینی کسی ‘امیرالمومنین، سے کم نہیں تھے۔
ایک ایسے دور میں جب سب کی مت ماری ہوئی تھی اور اچھے بھلے لوگ ایرانی پروپیگنڈے کے شکار ہو چکے تھے ایسے دور میں محمد منظور نعمانی نے اس انقلاب کو سمجھنے کیلئے شیعی امہات الکتب کا مطالعہ شروع کیا ،تو انہیں حیرت کا جھٹکا لگا۔ نعمانی صاحب نے بڑی ایمانداری سے اعتراف کیا ہے کہ میں ‘عالم دین، تھا اس لئے اس غلط فہمی میں مبتلا تھا کہ شیعہ مذہب کا مجھے ٹھیک ٹھاک علم ہے لیکن شیعی امہات الکتب اور خمینی کی کتابوں کے مطالعے کے بعد مولانا کو اندازہ ہوا کہ وہ شیعہ مذہب کے چوتھائی حصے سے بھی واقف نہیں تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مولانا نے یہ مطالعہ اس وقت کیا جب ان کی عمر اسّی سال سے بھی زیادہ ہو چکی تھی لیکن اس کے باوجود انہوں نے ضروری سمجھا کہ ‘ایرانی انقلاب اور اس کے قائد خمینی صاحب اور ان کی اتحاد اسلامی کی دعوت کی حقیقت سے ان اہل سنت کو واقف و باخبر کرنے کی جو کوشش کی جا سکتی ہو، کی جائے جو ناواقفیت کی وجہ سے اس انقلاب کو اسلامی انقلاب اور خمینی صاحب کو اس دور کا امام المسلمین اور امت مسلمہ کا نجات دہندہ سمجھ رہے ہیں ۔
مولانا نعمانی سمجھ چکے تھے کہ ایران کا یہ انقلاب ایک سراب ہے، ایک فریب ہے اس لئے اس کا پردہ چاک کرنے کیلئے انہوں نے ‘ایرانی انقلاب امام خمینی اور شیعیت، نامی کتاب لکھی۔ یہ کتاب 1984 میں لکھی گئی تھی لیکن آج بھی اس کی اہمیت کم نہیں ہوئی ہے اس لئے کہ آج بھی بہت سے ایسے لوگ ہیں جو فریب خوردہ ہیں ایسے لوگوں کے بارے میں ہم آخر میں لکھیں گے۔

ابتداء میں ہم نے مجدد الف ثانی کے مکاتیب اور شاہ عبدالعزیز کی تحفۂ اثنا عشریہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ برصغیر میں رد شیعہ کا سلسلہ جاری تھا۔ راشد حسن سلفی کا کہنا ہے کہ مجدد الف ثانی نے تو مکاتیب کے علاوہ رد روافض کے نام سے ایک رسالہ بھی لکھا تھا جسے بعد میں شاہ ولی اللہ نے عربی کا جامہ پہنایا، مولانا نعمانی کا کہنا ہے کہ شاہ صاحب نے یہ ترجمہ اپنے استاذ شیخ ابو طاہر کردی کی فرمائش پر لکھا تھا۔ مولانا نعمانی نے اس موضوع پر شاہ جی کی بھی دو کتابوں____ ازالۃ الخفا اور قرۃ العینین کا ذکر کیا ہے (اول الذکر کا عربی ترجمہ تقی الدین ندوی نے اور ثانی الذکر کا ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری نے کیا ہے) عامر سلفی نے قاضی ثناءاللہ کی پانی پتی کا نام بھی پیش کیا ہے جنہوں نے السیف المسلول یا شمشیر برہنہ کے نام سے لکھا۔ لکھنؤ کے فاروقی علما عبدالشکور فاروقی اور عبدالعلیم فاروقی نے تو رد روافض میں جو کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں اس کی تفصیل کیلئے تو الگ سے ایک مقالہ لکھنا پڑے گا۔ مولانا نعمانی نے مولانا قاضی احتشام الدین مرادآبادی کی کتاب ‘نصیحۃ الشیعہ، کا ذکر بھی خاص طور پر کیا ہے۔ یہ قاضی صاحب عامر سلفی کی اطلاع کے مطابق ہمارے میاں صاحب سید نذیر حسین محدث دہلوی کے شاگرد تھے۔ ان تمام کتابوں کا ذکر کرنے کے بعد مولانا نعمانی نے لکھا ہے کہ ان حضرات کو شیعہ مکتب فکر کی اساسی کتابیں نہیں مل سکی تھیں اور اس کی وجہ مولانا نعمانی نے تقیہ والی پالیسی بتلائی ہے۔
جاری ہے
نوٹ: یہ مضمون آزادی ء اظہارِ رائے کے تحت شائع کیا جارہا ہے۔ تحریر میں بیان کردہ خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، مکالمہ ویب کا ان سے اتفاق ضروری نہیں اور نہ ہی یہ خیالات ادارے کی پالیسی کا اظہار ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں