ارشد رضوی: ’’کچھ بے ترتیب کہانیاں‘‘ (تحریر: فیصل عظیم)

ارشد رضوی چونکانے والے نثّار ہیں۔ وہ دیکھے بھالے راستے سے کنّی کترا کر نئی پگڈنڈیاں ڈھونڈنے کے عادی ہیں۔ یعنی اگر کسی سیدھے راستے پر کچھ اور نہ ہوسکے تو الٹے پیر چلنا شروع کردیں گے جو انھیں دوسروں سے الگ دکھائے۔ یہ کوئی بچوں کا کھیل نہیں، اس کے لیے جو تخلیقی وفور چاہیے وہ ان کے ہاں ہر قدم پر نظر آتا ہے۔ تو کیوں نہ میں بھی کتاب کو الٹا پڑھنا شروع کروں۔ آپ ذرا کتاب کا پس ورق دیکھیے۔ یہاں ان کی تصویر ان کے پسِ خیال محرّک کا خلاصہ ہے۔ آدھا منہ چھپا کر اپنی بھرپور مسکراہٹ یا ہنسی پہ ہتھیلی کی چلمن ڈال کر وہ آپ کو یوں دیکھتے ہیں جیسے کچھ چھپا کر بیٹھے ہوں اور دیکھ رہے ہوں کہ کوئی ان کی شرارت کو پکڑتا ہے یا محض بھٹکتا رہ جاتا ہے۔ یہ تصویر ان کی تحریروں کی تصویری عکاسی ہے یا شاید ان کی تحریریں اس تصویر کی تحریری شکل ہیں، گرہِ نیم باز کی طرح۔ جس سے لگتا ہے وہ دنیا کا مذاق اڑا رہے ہیں، اسے بےوقوف بنا رہے ہیں (صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں)۔
خود نوشت کی طرح ان کے افسانوں میں بھی وہی قلمکار نظر آتا ہے جسے آپ صاف پہچان سکتے ہیں۔ ان کے افسانوں کا وہی اسلوب ہے جو ان کی افسانوی خودنوشت کا ہے۔ کتاب کے عنوان ’’کچھ بے ترتیب کہانیاں‘‘ میں تشکیک اور لایعنیت کا جو شعوری احساس ہے، ان کے افسانے بھی اسی تشکیک اور لایعنیت کے یقین سے پُر ہیں۔ وہ زندگی کی تھکاوٹ اور خالی پن کے شدید احساس کو رقم کرتے ہیں۔ کسی بڑے ادیب (نام بھول رہا ہوں) نے لکھا تھا کہ زندگی کے الجھاؤ کو رقم کرنے کے لیے خود تحریر کا الجھا ہونا ضروری نہیں۔ میں اگر ارشد رضوی کی تحریروں میں مجموعی طور پر زندگی کے تھکا دینے والے خالی پن کو دیکھتا ہوں تو یہ تحریر کا بوجھل پن نہیں ہے بلکہ صرف زندگی کی کشمکش اور بوجھل پن کی کیفیت کا بیان ہے جو جذبے اور احساس پر طاری ہوتا ہے اور جسے احاطۂ تحریر میں بڑی مہارت سے لایا گیا ہے۔ یعنی گنجلک زندگی کو لکھتے ہوئے تحریر کو گنجلک نہیں ہونے دیا گیا ہے جس کے لیے بہت چوکنّا رہنا لازمی ہے۔ ان کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہر اس چیز سے بے زار ہیں کہ جو ہے اور جیسی ہے، وہ اس سے آگے نکلنا چاہتے ہیں کسی اور دنیا کی طرف۔ وہ بے چین ہیں اور یہ بے چینی اس دور کے تحت الشعور میں بیٹھ چکی ہے۔
ارشد رضوی کے افسانے لاشعور میں جھانکتے افسانے ہیں جہاں خیال، احساس، اشیا، موسم، غرض ہر چیز کی تجسیم ایک جاندار کردار کی طرح ہوتی ہے۔ ان کے ہاں منظر، خواب، آواز، خوشبو، رنگ، اشیا، سب ایک دوسرے سے جگہ بدلتے رہتے ہیں۔ ڈر اور اداسی، خواب اور خیال میں ان کا پیچھا کرتے ہیں اور اذیت کا وہی احساس ملتا ہے جو ان کی خودنوشت میں جابجا موجود ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے وہ اذیت کو لکھتے ہیں اور اذیّت میں لکھتے ہیں۔
وہ دنیا کی بدصورتی کی تصویریں بناتے ہیں اور ہر منظر کو قاری کے آگے ایک چیلنج کی طرح رکھ دیتے ہیں۔ یہ افسانے ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا پڑتے ہیں تاکہ ان کے رموز کھولے جاسکیں جیسے انتظار حسین کے افسانے ٹھہر ٹھہر کے پڑھنا پڑتے ہیں اور آپ کسی جگہ سے رواروی میں نہیں گزر سکتے۔
اگر میں نے یہ بات پچھلے مضمون میں لکھی ہو تو دہرانے پہ معذرت مگر ان کی کہانیاں دوسروں سے یوں مختلف ہوتی ہیں جیسے جدید دور کی چیزیں۔ پہلے چیزیں بنائی جاتی تھیں مگر اب جوڑی جاتی ہیں، یہاں تک کہ عمارات اور پلوں کے بھی بڑے بڑے حصّے الگ سے بنا کر جوڑ دیے جاتے ہیں۔ جیسے مشہورِ زمانہIkea کا سامان بنے بنائے ٹکڑوں کی صورت میں آتا ہے اور آپ ان کو جوڑ کر اپنی مطلوبہ چیز تیار کرلیتے ہیں۔ اسی طرح وہ کہانی کے بہت سارے اجزا بنا کر ضرورت کے تحت انھیں جوڑتے چلے جاتے ہیں۔ منظر نہیں بناتے بلکہ اس کی جزئیات بناتے ہیں اور انھیں جوڑ کر منظر یا اس کا collage بنا لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بڑی آسانی سے تمام حسوں کو ضرورت کے تحت ایک دوسرے کی جگہ رکھ دیتے ہیں۔
ارشد صاحب کے ہاں یکسانیت سے بے زاری کا احساس بار بار آتا ہے اور انسان کے اکیلے پن کا ابدی احساس اور شہری زندگی کی وحشت ملتی ہے۔ ’’سورج اور وہ‘‘ میں ایک جگہ یہ الفاظ دیکھیے ’’یا تم یکسانیت کا شکار ہو بساند میں بسے ہوئے تم سب‘‘۔ یہ اتفاقی سطر نہیں ہے بلکہ جہاں یہ الفاظ نہیں ہیں وہاں بھی یہی سنائی دیتے ہیں۔ وہ اس دنیا کی تلاش میں ہیں جہاں اذیت نہ ہو، سکون ہو۔ اس کی تصویر ’’ایک مسمار ہوتے گھر کی خواب آلود کہانی‘‘ میں دیکھیے جس میں بچوں کے ٹڈوں کے ساتھ کھیل کا المیہ یوں بیان کیا گیا ہے، ’’آزاد ٹڈی دل نہ جانے کس سمت نکل گئے تھے، لیکن ہمارے دھاگوں سے بندھے ٹڈی دل (ٹڈیاں) رات بھر تڑپتے رہے تھے‘‘۔ انھیں نفسیات اور حسّیات پر بڑا عبور ہے۔ ان کے افسانوں میں جنسی علامتیں اندر اور باہر دونوں وحشتوں کی ترجمانی کرتی ہیں اور ان میں وہ پیچیدہ نفسی الجھنوں کو رقم کرتے ہیں۔ اس کوشش میں وہ لاشعور کے اندر کے مناظر دکھاتے ہوئے incest جیسے محرمات کو بھی موضوع بنانے سے نہیں چوکتے۔ عورت ان کے ہاں زندگی، اظہار، خواہش اور پیرایۂ اظہار کا استعارہ ہے جیسے افسانہ ’’جادو گھر‘‘ میں۔
ارشد رضوی زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات اور لمحوں کو پوری کہانی پر پھیلا دینے کا فن جانتے ہیں۔ ان کے افسانے اکثر نظموں کی طرح کہانی کے بجائے تاثر اور کیفیت پر مبنی ہوتے ہیں۔ ان کا اپنا ایک اسلوب ہے جو بحث طلب ہوسکتا ہے کہ افسانے میں مخصوص اسلوب تنوّع کی راہ میں رکاوٹ بھی ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ اوپر لکھا ہے کہ ان کے ہاں اکثر بظاہر کہانی نہیں ہوتی، مگر ایک اندرونی کہانی بہرحال ہوتی ہے، تو یہ وہ چیز ہے جس کی وجہ سے افسانوں میں مخصوص اسلوب کھلَتا نہیں ہے بلکہ ان کی خصوصیت بن کر سامنے آتا ہے۔ البتہ اس مجموعے میں آدھی کتاب کے بعد کے افسانے آپ کو کہانی پر مبنی ملیں گے۔ ان کے ہاں عموماً کرداروں کے نام نہیں ہوتے، علامتیں ہوتی ہیں سوائے افسانہ ’’جادو گھر‘‘ کے جس میں ایک نام حبیب خان موجود ہے۔
ارشد رضوی ترقی پسند ہیں مگر ان کے ہاں آپ کو ترقی پسندی کے ساتھ مابعدجدید اور لغویت (absurdity) کی ملی جلی شکلیں بھی نظر آئیں گی۔ ’’سدھارتھ‘‘ اور ’’سورج اور وہ‘‘ خاص ترقی پسند افسانے ہیں۔ ’’شہر آشوب‘‘ کا یہ ٹکڑا بھی دیکھیے ’’اخباروں میں خون میں لتھڑی لاشیں، نیم عریاں رقص کرتی لڑکی کے ساتھ چھپی تھیں‘‘۔ یا ایک اور افسانے میں لکھتے ہیں ’’مذہب اور سماج نے مجھے خاموش اور ڈرپوک بنا دیا ہے‘‘۔ وہ زبان کے استعمال میں پرہیز سے کام نہیں لیتے یا شاید دانستہ زندگی کا ننگا پن رقم کرتے ہیں۔ اگر آپ کو ان کی تحریر کے پس منظر میں کارفرما جذبے کی جھلک دیکھنی ہے تو ’’تاریک گلیوں میں گزرا ہوا ایک دن‘‘ کا یہ ٹکڑا دیکھ لیجیے اور اس کے ساتھ مجھے اجازت دیجیے۔ ’’اس بڑے شہر میں جہاں شور اور ہجوم ہی ہے، مجھے ایسی گلیوں کی تلاش رہتی ہے جو اچانک کسی مسیحا کی طرح آجاتی ہیں، یہ عام طور پر تاریک ہوتی ہیں۔ خاموش ہوتی ہیں، ہاں! ان میں سیلن ہوتی ہے‘‘۔ اگر اسے پڑھ کر آپ کا دھیان لاشعور کی طرف جائے تو شاید غلط نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply