تمثیل اور تطابق/ڈاکٹر مجاہد مرزا

ایک آئی ٹی کمپنی کی جعلی ڈگریوں کے اجراء سے وابستگی، درست یا نادرست، آشکار کیا ہوئی کہ سب کسی کے دکھ پر رونے کا بہانہ کرکے اپنے اپنے دکھ رونے لگے۔ مثال کے طور پر اگر مجھے یہ یاد آ گیا کہ اس ملک میں کیا کیا بکھیڑے نہیں کھڑے ہوئے پر نتیجہ صفر رہا تو دوسرے کسی کو پاکستانیوں کے غیر ملکی بینکوں میں رکھے ہوئے اربوں ڈالر یاد آنے لگے کہ اس حرام کی کمائی کو واپس لا کر حلال کے کاموں میں کیوں نہیں لگایاجاتا۔

علماء کہتے ہیں کہ سود کا پیسہ اگر اپنی آمدن سے منہا کرنا ہو تو اسے “بیت الخلاء” کی تعمیر جیسے کاموں کے علاوہ کسی اور کام میں لگانا جائز نہیں۔ چنانچہ یہ پوچھنا پڑے گا کہ جب رشوت دینا اور لینا دونوں حرام ہیں تو رشوت، بے ایمانی، دھونس، دھاندلی، بدعنوانی کے ذریعے اکٹھی کی گئی یہ رقوم، کوئی مائی کا لال واپس لے بھی آیا تو ان کا کس کام میں لگانا جائز ہوگا؟ کیا یہ رقوم ملک کے خزانے میں ڈالنے سے یوں تو نہیں ہوگا جیسے پیشاب کے ایک قطرے سے پورے حوض کا پانی ناپاک ہو جاتا ہے، اس طرح سارا خزانہ ہی پلید ہو جائے۔

کسی اورکو یہ یاد آ گیا کہ شریف برادران اور زرداری نے بھی دولت بے ایمانی سے بنائی ہے، شاید یہ کہنا مقصد ہو اگر شعیب احمد شیخ نے اپنے کسی خاص دھندے سے اربوں روپے بنا لیے ہیں تو کیا ہوا،

ہر ایک کے اپنے احساس کی بات ہے۔ کوئی ضمیر کو مقدم سمجھتا ہے کوئی زنجیر کو مجبوری۔ کسی کو سارے جل کے گندا ہونے کی پریشانی ہے تو کسی کو “جرنلسٹ سے سٰیٹھ” بن جانے والوں سے جلاپا۔ یہ سب پریشانیاں بجا ہیں۔ بیشک سرمایہ ملک سے باہر نہیں جانا چاہیے لیکن کیا “کیپیٹل فلائٹ” صرف ہمارے ملک کا مسئلہ ہے؟ نہیں! ہر غیر مستحکم ملک سے رقوم اینٹھی بھی جاتی ہیں اور ان کو ایسے ملکوں میں منتقل بھی کیا جاتا ہے، جہاں تحفظ حاصل ہو سکے۔ کیا “غیر قانونی” یا قانون سے بچ بچا کر کیے جانے والے دھندے پاکستان یا پاکستان جیسے ملکوں تک ہی محدود ہیں۔ نہیں! سب سے زیادہ قانونی لوٹ مار اگر ہوتی ہے تو وہ سرمایہ داری نظام کے سرخیل ملک ریاستہائے متحدہ امریکہ میں ہوتی ہے۔

جہاں خوشحالی عام ہو یا جہاں خوشحال ہونے کا کم ازکم گمان ہی زیادہ ہو وہاں بڑے پیمانے کی بددیانتیاں ہوتی کم دکھائی دیتی ہیں لیکن وہ ہوتی ضرور ہیں۔ بڑے بڑے چین سٹورز سے لے کر ملک کے اعلٰی ترین عہدے دار قانون سے بچ بچا کر نامعقول طریقوں سے دولت اکٹھی کرتے ہیں۔ ماسوائے یورا گوئے کے ایک سابق صدر کے یا ایران میں علامتی صدر کے دنیا کا ایسا کونسا ملک ہوگا جہاں بااختیار حکمران، چاہے وہ پارلیمانی نظام کا وزیراعظم ہو یا صدارتی نظام کا صدر کسی طرح بھی کم مالی حیثیت کا حامل ہوتا ہو۔ دنیا میں سیاسی و معاشی نظام ہے ہی ایسا جس میں دولت کو انسان سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔

جن ملکوں میں بظاہر سب اچھا نظر آتا ہے وہاں پہلی بات تو یہ کہ سب اچھا نہیں ہے البتہ بہت کچھ اچھا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ وہاں جو بہت کچھ اچھا ہوا ہے وہ گلے شکوے، طعن و تشنیع سے اچھا نہیں ہوا بلکہ اس کے لیے ایک طویل عرصہ تک جدوجہد کی گئی ہے۔ ان ملکوں میں بھی لوٹ مار مچی رہی تھی۔ ان ملکوں میں بھی انصاف صرف باحیثیت لوگوں کو ملا کرتا تھا۔ ان ملکوں میں بھی امتیاز برتا جاتا تھا۔ مگر آہستہ آہستہ مہذب معاشرہ یعنی سول سوسائٹی پروان چڑھی تھی جس نے اپنے لیے یعنی معاشرے کے لیے، معاشرے کے ہر فرد کے لیے جس حد تک ہو سکتا تھا حقوق اور سہولتیں حاصل کیں۔

مغرب میں بھی ایسے لوگوں کے لیے جنہوں نے غلط دھندوں اور زیادتیاں کرکے دولت کمائی تھی۔ وہاں ایسے لوگوں کے لیے “لٹیرے نواب” کی اصطلاح مروّج رہی تھی۔ مگر آج انہیں”لٹیرے نوابین” کی آل اولاد ہسپتال اور یونیورسٹیاں بنا کر لوگوں کو علاج اور تعلیم کی معیاری سہولتیں بھی فراہم کر رہی ہے، کما بھی رہی ہے اور حکومتی ایوانوں میں بھی موجود ہے۔ درحقیقت تعلیم اور علاج دو ایسے میدان ہیں جہاں معیار سے کھلواڑ کرنا سوچ اور بدن کو مجروح و ہلاک کیے جانے کا موجب بنتا ہے۔

یہ درست ہے کہ جب مغرب میں حالات ناموافق ہوا کرتے تھے تب ذرائع ابلاغ عامہ اتنے مستعد اور فعّال نہیں ہوتے تھے جتنے آج ہیں۔ ان کے ہاں ہوئے غلط اعمال نہ تو جلد آشکار ہو سکے تھے اور نہ ہی ان کی بدنامی اتنی عام ہوئی تھی تاہم فورڈ نے یہ کہنے کی جرات ضرور کی تھی کہ مجھ سے پہلے ایک ملین ڈالر کا حساب مت مانگو کہ کیسے کمایا مگر اس کے بعد پائی پائی کا حساب دوں گا۔ آج معاملہ الٹ ہے کہ بدنامی جس تیزی سے پھیلتی ہے اس کی صفائی بھی اسی شدومد سے پیش کی جاتی ہے اور ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے کہ ایسا کچھ ہوا ہی نہیں، ہماری پائی پائی دیانتداری سے کمائی ہوئی ہے۔

اپنی اپنی سوچ ہے۔ میرا چھوٹا بھائی کسٹم کے معاملات کا معروف وکیل ہے۔ بہت نیکو کار ہے۔ ٹکا رشوت نہیں دیتا۔ میرٹ پر مقدمے جیتتا ہے۔ فیس بھی بھاری لیتا ہے۔ نماز روزے کا پابند ہے۔ ایک روز میں نے اسےکہا کہ تمہاری تو پوری کمائی جائز نہیں۔ تلملا گیا، ناگواری سے پوچھا، کیسے بھائی جان؟ میں نے کہا تم جن لوگوں کے مقدمے لڑتے ہو، ان کے معاملات میں جھول ہی ہوتے ہونگے جو معاملہ مقدمے تک جاتا ہے۔ بولا ہاں اکثر ایسا ہوتا ہے۔ یعنی ان کی ناجائز آمدنی کو تم جائز ثابت کرکے اپنی فیس لیتے ہو، میں نے کہا۔ مگر میں تو اپنے کام کا معاوضہ لیتا ہوں، اسکا جواب تھا۔ عرف عام میں ظاہر ہے اس کی آمدنی کو ناجائز نہیں سمجھا جاتا مگر میری سوچ اس طرح کی ہے کہ کسی کے غلط کام میں آپ چاہے کسی بھی طرح شریک یا معاون کیوں نہ ہوتے ہوں، اس کے اعمال میں آپ شامل ہوجاتے ہیں۔

میری یہ تمثیل بہت سے لوگوں کو ناقص بھی لگی ہوگی اور اس کا اصل معاملے سے تطابق (منطبق) بھی نہیں ہوتا لگ رہا ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آپ کہتے رہیں کہ آپ کی کمائی جائز ہے کیونکہ آپ تو اپنے کام کا معاوضہ لیتے ہیں۔ البتہ اگر اس کا معیار اور سچائی ویسی ہی ہوئی جیسے دوسرے میڈیا کی ہے تو یہ لنگڑائے گا یا ٹائیں ٹائیں فش ہو جائے گا۔ اللہ اللہ، خیرصلّا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply