خواجہ سراؤں کے ”مذہبی عقائد“ کے بارے پوچھا جاتا ہے کہ وہ کس مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں، برصغیر پاک و ہند کے خواجہ سرا حضرت مولا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کی تقلید کرتے ہیں، روحانی سلسلہ عالیہ میں زیادہ تر خواجہ سرا ”قادریہ قلندریہ“ میں اور کچھ خواجہ سرا ”چشتیہ صابریہ“ میں بھی مرید الاناب ہوتے ہیں، خواجہ سراؤں میں یہ گفت و شنید عام ہے کہ جو خواجہ سرا ہندو ہو سکھ ہو یا پھر مسلم، حضرت مولا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کی تقلید نہیں کرتا، وہ صحیح معنوں میں خواجہ سرا نہیں، واللہ اعلم!
جن خواجہ سراؤں کے اپنے ڈیرے ہوتے ہیں، ان کے گھر میں ”غازی عباس کا عَلم“ ضرور لگا ہوتا ہے، جیسے ہمارے ہاں میرپور میں ”مائی مختاراں“ کے ڈیرے پر سب سے بڑا علم لگا ہوا ہے، جسے پورے شہر سے دیکھا جا سکتا ہے، یہاں تک کہ 13 رجب المرجب ہو یا پھر 21 رمضان المبارک ہو، حضرت مولا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کے نذر و نیاز بھی کرتے ہیں، جس میں پورا میرپور شہر شرکت کرتا ہے۔
حضرت مولا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کی واحد ذات وہ ہے، جن کے بارے میرے آقا روحی فداہ، جانم فداہ، حضور اقدس و اکمل، اکرم و اجمل، اطیب و اطہر، طہ، یٰسین، مزمل، مدثر، محمد مصطفیٰ، احمد مجتبیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے تصدیق مہر ثبت کی:
”جس، جس کا میں مولا، اس، اس کا علی مولا“
اور یہ بات بھی یاد رہے کہ حضور اقدس و اکمل ﷺ نے ہی حضرت مولا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کو خواجہ سراؤں کا ”امیر اعلیٰ“ مقرر کیا تھا، اور تاریخ کی کتب میں ایسے واقعات درج ہیں، جو آپ کے ”امیر اعلیٰ“ ہونے پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں، حضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے دور میں جب خواجہ سراؤں کی وراثت کا مسئلہ زیر بحث آیا تو معاویہ بن سفیان نے حضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے پوچھا، جس کا جواب آپ مولا علی علیہ السلام نے خط لکھ کر دیا، جس کا ذکر ”البدایہ و النہایہ“ میں درج ہے، یہاں تک کہ خواجہ سراؤں کی وراثت سے متعلق ”سنن کبری البیہقی“ میں روایات کے روای حضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم ہے!
خواجہ سراؤں کے فقہ پر میری ”فیضی ماں آف ٹوبہ“ رقمطراز ہیں کہ زیادہ تر خواجہ سراؤں کا عقیدہ ”فقہ جعفریہ“ ہے، محرم کے شروع ہوتے ہی نیاز پکائی جاتی ہے، نیاز میں اعلیٰ قسم کے پکوان پکائے جاتے ہیں، سبیلیں لگائی جاتی ہیں، دودھ بانٹا جاتا ہے، پانی کا کم استعمال، گھروں میں اندھیرے، امام بارگاہ میں مجالس میں شرکت، ننگے پاؤں ہو جانا، کالا لباس زیب تن کرنا، یعنی بہت کچھ، جو محرم کی نسبت سے ہوتا ہے۔
خواجہ سرا جب بھی ناچنے یا مانگنے کے لیے جا ئیں تو کچھ روپے الگ نکال کر ایک غلے میں ڈال دیتے ہیں، یکم محرم سے ایک دو دن پہلے وہ غلا توڑا جاتا ہے اور ان پیسوں سے نیاز پکائی جاتی ہے اور تمام قریبی خواجہ سراؤں کو اس نیاز پر مدعو کیا جاتا ہے، ایک بات اور کہ اس نیاز پر جو پکوان بنائے جاتے ہیں وہ بہتر سے بہترین ہوتے ہیں۔
خواجہ سراؤں کو جو قبولیت اس ” فقہ جعفریہ“ میں حاصل ہوئی وہ کسی دوسرے چاہے وہ سُنی ہو یا وہابی، بریلوی ہو یا دیوبندی میں نہیں ہوئی، ملک پاکستان و ریاست آزاد جموں و کشمیر میں ہر مکاتب فکر کے مساجد و مدارس موجود ہیں، لیکن کسی بھی مساجد و مدارس میں آپ کو خواجہ سراؤں کی آمد و رفت دیکھنے کو نہیں ملے گی، سوائے ” فقہ جعفریہ“ کی امام بارگاہ میں یوم عاشور کے موقع پر آپ کو کثرت میں خواجہ سراؤں کے گروہ دیکھنے کو ملیں گے۔
آج سے دس برس قبل میں یوم عاشور کے دن فیصل آباد سے میرپور آ رہی تھی کہ اچانک راستے میں خواجہ سراؤں کی پانچ سات گاڑیاں قطار در قطار سیالکوٹ جا رہیں تھیں، میرے ساتھ بیٹھے لوگ انہیں دیکھ کر یہ کہنے لگے:
یہ ہیں وہ بکاؤ کھسرے، جنہیں کوئی ڈھنگ کا کام کاج تو آتا نہیں اور محرم الحرام کے آتے ساتھ ہی یہ لوگ شیعوں سے سودے بازی کر لیتے ہیں کہ ہم سینہ کوبی بھی کریں گے، زنجیر زنی بھی کریں گے، برچھیاں بھی ماریں گے یہاں تک کہ آگ کے انگاروں پر بھی چلے گے، بتاؤ کتنے پیسے دو گے؟
خیر جس کا جتنا ظرف ہوا، اس نے اپنے اس ظرف کے مطابق خواجہ سراؤں کے بارے اپنی رائے قائم کی، ضرورت ہے اس امر کی کہ ہم اپنے ظرف کو وسیع کریں تاکہ خدا کی اس مخلوق کی محبت و الفت دل میں موجزن ہو سکے، آخر میں ”ضیاء اللہ ضیاء“ جو ڈیرہ اسماعیل خان کے شاعر اور گلوکار ہے، اس کی ایک نظم جو 2020 میں لکھی گئی، اسے میں ”سول ڈی کمپوزنگ“ کے عنوان سے قلمبند کر رہی ہوں!
”سول ڈی کمپوزنگ“
ایک خواجہ سرا کی موت ہوئی!
روح لینے فلک سے آئے مَلَک!
کچھ زنانہ تھے، کچھ تھے مردانہ!
ایک ٹولی کہے، ہمارا ہے!
دوسری تھی بضِد، ہماری ہے!
لاش کیڑوں کی، روح متنازع !
اس تنازع کے خاتمے کے لیے!
پھر صحیفہء عرش لایا گیا!
وائے حیرت خدائے کُل کے یہاں!
کچھ مخنَّث کے بارے حکم نہ تھا!
روح چھوڑے فرشتے لوٹ گئے!
جسم کے ساتھ رُوح گلنے لگی!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں