آج کل بچوں میں موبائل پر گیمز کھیلنے کے رجحان میں شدید اضافہ ہوا ہے۔ وہ میدان میں کھیلنے کی بجائے ہر وقت موبائلوں پر مصروف دکھائی دیتے ہیں،اور والدین اس معاملے میں خاصے پریشان ہیں ۔ ا آپ جانتے ہیں کہ ویڈیو گیمز کھیلنے سے بچوں کی ذہنی صحت کیسے متاثر ہو رہی ہے اور والدین کو ان کی لت سے چھٹکارا پانے کے لیے کیا کرنے کی ضرورت ہے؟
نیوز پورٹل ’اے بی پی ‘ پر شائع رپورٹ کے مطابق اس کی وجہ سے سر درد، بے چینی اور بھاری پن محسوس ہوتا ہے۔ اسی کی وجہ سے ان کا پڑھائی میں بھی دل نہیں لگتا کیونکہ ان کے ذہن پر ویڈیو گیمز حاوی رہتے ہیں۔
گیجٹس کا استعمال یا مسلسل ویڈیو گیمز کھیلنے سے بچوں کے ذہن پر بہت زیادہ دباؤ پڑتا ہے۔ اس کی وجہ سے سر میں درد اور بھاری پن رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ والدین، گھر والوں یا دوستوں سے بات کرتے ہوئے چڑچڑا پن محسوس کرنے لگتے ہیں۔ کھیل کی وجہ سے ان کا دماغ کھیل کے علاوہ کسی اور چیز پر مرکوز نہیں رہتا۔
رات گئے تک آن لائن گیمز کھیلنے والے بچوں کی آنکھوں پر برا اثر پڑتا ہے۔ آنکھوں میں خشکی اور درد کے مسائل ، سر درد بھی شروع ہو جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے نیند نہیں آتی اور صبح اٹھنے میں دشواری ہوتی ہے۔ بچوں کا روزمرہ کا معمول درہم برہم ہو جاتا ہے اور وہ کوئی بھی کام دل سے نہیں کر پاتے۔
ویڈیو گیمز کی لت کی وجہ سے بچے خود کو تنہا محسوس کرنے لگتے ہیں کیونکہ ان کا زیادہ تر وقت دوستوں یا خاندان کے ساتھ نہیں بلکہ ویڈیو گیمز میں گزرتا ہے۔ اس کی وجہ سے ان پر اداسی حاوی ہو جاتی ہے اور وہ خود کو سب سے الگ سمجھتے ہوئے جذباتی طور پر کمزور ہو جاتے ہیں۔ اپنے جذبات کسی کے ساتھ شیئر نہیں کرتے۔
جب بچوں کا ذہن ویڈیو گیمز میں مصروف ہوتا ہے تو وہ سب سے الگ خود کو ایک کمرے تک محدود کرنا پسند کرتے ہیں۔ کھانا بھی اکیلے کھاتے ہیں نہ کہ والدین یا خاندان کے ساتھ۔ یہی نہیں وہ دوستوں کے ساتھ کھیلنے بھی نہیں جاتے۔ جس کی وجہ سے ان کی جسمانی، ذہنی اور سماجی نشوونما نہیں ہوتی۔ ویڈیو گیمز میں مصروف رہنے سے وہ سب سے کٹ جاتے ہیں اور بعد میں تنہائی ان کو اپنی لپیٹ میں لینے لگتی ہے۔
والدین کو چاہیے کہ خود فون کا استعمال کم کریں اور بچوں کو یہ احساس کرائیں کہ فون صرف مکسی ،چولہا یا کار کی طرح ہے جس کا استعمال ضرورت کے وقت ہی کیا جاتا ہے ہر وقت نہیں۔
والدین فون پر ویڈیو گیمز کھیلنے سے روکنے کی بجائے بچوں کی توجہ فون کی جگہ دوسری چیزوں پر بڑھا دیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں