مابعد جدیدیت از ڈاکٹر ناصر عباس نئیر/منصور ساحل

مابعد جدیدیت کیا ہے ؟ کیا مابعد جدیدیت ثقافتی صورتحال ہے ؟ کیا مابعد جدیدیت متنوع ، متضاد تصورات کا مجموعہ ہے؟ کیا مابعد جدیدیت نظریات کی کہکشاں ہے؟ یا ما بعد جدیدیت کسی نظریے کا نام ہے ؟ ایسے بہت سے سوالات کے جوابات کے لیے ناصر عباس نئیر کی مرتب کردہ کتاب “مابعد جدیدیت” نظریاتی مباحث ” کا مطالعہ از حد ضروری ہے ۔چوں کہ مابعد جدیدیت ادب ،فنون ، سوشیالوجی ، سیاست ، فن تعمیرات ، موسیقی ، اور ان جیسے متنوع شعبہ جات سے بحث کرتی ہے اس لیے اس بابت واضح نظریے کا قیام ممکن نہیں ۔لیکن یہ کتاب مابعد جدیدیت کے نظریاتی مباحث اور متعلقہ تنقیدی ڈسکورس کی تفہیم میں ہماری مدد کرتی ہے

مقدمے سمیت یہ کتاب اٹھارہ مضامین پر مشتمل ہے ۔ مقدمے میں ناصر عباس نئیر نے مابعد جدیدیت کے انتہائی اہم نکات، مضمرات ،پس منظر، اور متعلقات کو آسان اور سہیل انداز میں بیان کیے ہیں ، اس کے علاؤہ ناصر عباس نئیر نے مابعد جدیدیت کے بنیاد گزاروں (مشل فوکو، دریدا ، لیوتار ، ) کے نظریات و خیالات پر بھی بحث کی ہے

پہلا مضمون بعنوان” مابعد جدیدیت از وزیر آغا ” ہے اس میں آغا صاحب مابعد جدیدیت کے پس منظر ( ہیونزم ، جدیدیت ، سپر مین ، ساختیات) کو واضح کرتے ہوئے رد تشکیل (De construction )کو مابعد جدیدیت کا پہلا حملہ قرار دیتے ہیں ۔ آغا صاحب سمجھتے ہیں کہ مابعد جدیدیت والوں کے لیے یہ دنیا اب مکمل مرتب نہیں رہی بلکہ ایک ٹوٹے ہوئے شیشے کی طرح نظر آرہی تھی جس کی کرچیاں سطح پر بکھری ہوئی ہیں اسی لیے کلیت ، مرکز اور حوالوں کے خلاف مابعد جدیدیت کی جنگ نے نراجیت کو جنم دیا۔ اسی طرح وزیر اغا کا دوسرا مضمون بھی جدیدیت اور مابعد جدیدیت” کے مباحث پر مشتمل ہے اس مضمون میں وزیرا اغا نے ما بعد جدیدیت یاسیت کی فضا سے نکل کر نئے سماجی اور ثقافتی ڈسکورس میں شمولیت کا اعلان, مابعد جدیدیت کے زیر اثر تخلیق کار اپنی مکمل ذہنی آزادی کو روا رکھتے ہوئے کسی طے شدہ فکری نہج کو قبولیت سے انکار ، ما بعد جدیدیت کا بیچ اقتصادی سماجی سیاسی ثقافتی اور ادب ارٹ کے حوالے سے مارکس کے خیالات سے ملتا ہے، عربی اور فارسی کے ساتھ ہندوستانی روایات کے اثرات کی قبولیت، استعاروں اور پیکروں کے ذریعے فطرت سے ایک ناگزیر تعلق ،قرار دیتے ہیں اسی طرح وزیر آغا نے مابعدجدیدیت کی واضح خصوصیات کا ذکر کرتے ہیں جن میں ذہنی نئی آزادی کی بحالی، غیر مشروط وابستگی ، تکثیریت، کسی خاص نقطے پر مرتکز نہیں، فکری دائرے کی لامحدودیت، انجذاب کا دوسرا نام ، ایک متن پر دوسرے متن کی تخلیق ، معنی کی مرکزیت سے انحراف شامل ہیں ۔

دوسرا مضمون بعنوان مابعد جدیدیت عالمی تناظر میں” از گوپی چند نارنگ” ہے مقدمے کے بعد نارنگ صاحب کا مضمون مابعد جدیدیت کی توضیح و تشریح کے حوالے سے اہم ہے اس میں نارنگ صاحب نے مابعد جدیدیت اور پس ساختیات میں فرق واضح کرنے کی کوشش ہے ” پس ساختیات تھیوری ہے جو فلسفیانہ قضایا سے بحث کرتی ہے بلکہ مابعد جدیدیت تھیوری سے زیادہ صورتحال ہے یعنی جدید معاشرے میں تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی حالت ، نئے معاشرے کا مزاج ، مسائل ذہنی رویے یا معاشرتی و ثقافتی فضا یا کلچر کی تبدیلی جو کرائسس کا درجہ رکھتی ہے ۔ نارنگ صاحب مابعد جدیدیت کو دوسری جنگ عظیم کے بعد جو نئی ذہنی فضا و فکر کا اظہار لاکان، التھیو سے ، فوکو، بارتھ ، دریدا، گواتری اور لیوتار جیسے مفکرین کے ہاں ہوا اس کو مابعد جدیدیت سے منسوب کرتے ہیں ۔ اس کے علاؤہ نارنگ صاحب نے مابعد جدیدیت کی وضاحت انتہائی آسان اور سہیل نکات ( 1۔ ترقیاتی ذہن : علم کا نیا دور، 2۔ علم بطور پیداواری طاقت 3۔ روشن خیالی پرجیکٹ: خواب اور شکست خواب، 4۔ مہا بیانیہ کی گمشدگی اور اجتماعی لاشعور ، 5۔ تخلیقیت کا جشن جاریہ ، تکثیریت ، بے مرکزیت ، بو قلمونی، مقامیت ، رنگارنگی) کے ذریعے سے کی ہے اس مضمون کے بعد نارنگ صاحب کا دوسرا مضمون بھی کتاب کا حصہ ہے اس میں انہوں نے پہلے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا موجودہ دور ما بعد جدیدیت کا دور ہے کہ نہیں؟ اس سوال کی تفصیل میں نارنگ صاحب نے کچھ نکات سامنے رکھے ہیں جن میں ما بعد جدیدیت رد عمل نہیں بلکہ کشادہ ذہنی رویہ ہے، ما بعد جدیدیت کی وحدانی تعریف ناممکن بت ہزار شیوہ، فلسفے کی دو بڑی روایتیں اور نیا ریڈیکل نقطہ نظر، جدیدیت کی چار شقیں اور ان کا رد ،شامل ہیں

ان مضامین کے علاؤہ پروفیسر وہاب اشرفی کا مضمون مابعد جدیدیت بنیادی مباحث “( اس مضمون میں اشرفی صاحب مابعد جدیدیت کے نکات معروضی سچائی پر شک، تجرید کی رد مقامیت کا پرچار، سچائیاں ایک نہیں ہیں ، چھوٹے بیانیوں اور قصہ گوئی میں نئی دلچسپی ، پر بحث کرتے ہیں ) ، رؤف نیازی کا مضمون ” مابعد جدیدیت اور مماثل اصطلاحات” (اس مضمون میں نیازی صاحب نے احب حسن کی کتاب The culture of Postmodernism ” کا حوالہ دیتے ہوئے جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے درمیان بے شمار افتراقات کی نشان دہی کی ہے اس کے علاؤہ پوسٹ ماڈرنٹی ، پوسٹ فورڈازم ، پوسٹ کولونیل ازم، پوسٹ اسٹرکچرل ازم جیسی مماثل اصطلاحات کی وضاحت و تشریح بھی کی ہے ۔ناصر عباس نئیر کا مضمون ما بعد جدیدیت کیا ہے ؟(میں ناصر صاحب نے ما بعد جدیدیت کو بیک وقت صورتحال اور انٹی تھیوری کہاں ہے۔ یہاں ڈاکٹر صاحب صورتحال سے بیسویں صدی کے اخری حصے کی مجموعی ثقافتی صورتحال مراد لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ناصر عباس نئیر نے ما بعد جدیدیت کے ضمن میں جن حالات کا ذکر کثرت سے ہوتا ہے مثلاً میڈیا میٹروپولس صارفیت کا کلچر شامل ہیں کا تفصیلی سے احاطہ کیا ہے ۔اس مضمون میں ناصر عباس نئیر نے جدیدیت کا پس منظر، جمالیاتی جدیدیت کی شعر یات، اوصاف ، جن میں تحریر میں موضوعیت اور ابہام پر اصرار، کیا کے بجائے کیسے پر زور، اصناف کی حدود کا دھندلا جانا، شکستہ بیانیوں اور عدم تسلسل کے باہمی حامل بیانیوں میں دلچسپی، خود شعوری و خود اگاہی، روایتی جمالیات کا استرداد ،تجربہ پسندی، تاریخی عدم تسلسل کا بھی ذکر کیا ہے ۔ جدیدیت کی طرح ناصر عباس نے نئیر ما بعد جدیدیت کے عناصر و اوصاف جن میں لامرکزیت ،مہا بیانوں کو چیلنج، متنوع اور مرکزی بیانیوں کو چیلنج ،واحد معنی کا رد، حاشیائی اور اشرفیہ کی درجہ بندی کا خاتمہ اور مقامیت شامل ہیں کو سامنے لاتے ہیں ۔آسان لفظوں میں ناصر عباس نئیر نے جدیدیت کو مقصد ،درجہ بندی منصوبہ بندی ،فاصلہ، تخلیق، امتزاج ،موجودگی، مرکزیت، استعارہ، گہرائی ،مدلول ، تعین اور ما بعد جدیدیت کو کھیل ،انتشار ،انقاق،شرکت ،ساخت شکنی ،تناقض وغیاب ،لامرکزیت ،مجاز مرسل ،سطح، دال عدم تعین کا نام دیا ہے

پروفیسر ابو کلام قاسمی کا مضمون ما بعد جدید تنقید اصول اور طریقہ کار کی جستجو”ہے اس مضمون میں پہلے جدیدیت کے زیر اثر مرتب ہونے والے تنقیدی رویوں کے اساسی محرکات اور ان محرکات کے نتیجے میں ادبی اظہار کے وہ پہلوؤں سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے جن کی بدولت ادب پاروں کی جانچ پرکھ ہوتی تھی اسی طرح ما بعد جدید تصور ادب کے حوالے سے قاسمی صاحب لکھتے ہیں کہ ما بعد جدید تصور ادب نے سب سے بڑا اور اہم سوال خارجی حقیقت یا واقعات تجربات یا مشاہدات کے حقیقی روپ اور زبان کے ذریعے پیش ہونے والے روپ کے بارے میں اٹھایا ہے اس کے علاوہ انہوں نے ما بعد جدید ادب کے اس پہلو جو آفاقی قدروں کی بجائے مقامی تہذیبی اور ثقافتی قدروں کی بازیافت کا نام ہے پر بھی بحث کی ہے
قاضی قیصر السلام ،ضمیر ضمیر علی بدایونی اور عتیق اللہ کے مضامین پس ساختیات، پس ساختیات پر ہائی ڈیگر کے اثرات ،اور رد تشکیل کے مضمرات کے عنوانات سے ہیں ان مضامین میں متن کی پڑھت و تفہیم،معنی کی پیدائش و التوا،ژاک دریدا کے نظریات و عموعی نظریہ تحریر جیسے موضوعات پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے
ناصر عباس نیر کا اہم ترین مضمون مشل فوکو کے نظریات”بھی کتاب کا حصہ ہے چوں کہ مشل فوکو کا شمار مابعد جدیدیت کے بنیاد گزاروں میں ہوتا ہے اس لیے ان کے نظریات سے آگاہی ناگزیر ہے اس مضمون میں ناصر عباس نئیر نے مشل فو کو کے نظریات، کتابیات، علم اور طاقت کے نظریات ، ڈسکورس کیا ہے ،اور episteme , کا موضوعی حوالے سے احاطہ کیا ہے

Advertisements
julia rana solicitors

رد نو آبادیاتی تنقید اور مابعد نوآبادیات ایک تعارف کے عنوانات سے شامل مضامین میں نو آبادیاتی دور کا ثقافتی و سماجی مطالعہ ، حاشیائے اور نچلے طبقے کا ادب میں حصہ، اور مابعد نوآبادیاتی مفکرین ( ایڈورڈ سعید ، گائتری سپائیواک ، فرانز فینن، ) کے نظریات زیر بحث ہیں
کتاب کے آخر میں مابعد جدیدیت کی اصطلاحات (آئیڈیالوجی ، افتراق و التوا ، اے پوریا، بیانیہ ، بین المتونیت ، پیراڈایم ،تشکیلی حقیقت ، شبیہہ ،کلامیہ ، ضابطہ علم، عالم گیریت ، لوگو مرکزیت، کا تعارف بھی درج ہے۔

Facebook Comments

منصور ساحل
اردو لیکچرر گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج چارسدہ ایم فل اردو (ادب اور سماجیات) مدیر برگ ادب

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply