بعض لوگوں کو یہ ڈرہے کہ اعلیٰ درجے کی مصنوعی ذہانت سے لیس سپرکمپیوٹر بالآخر انسانوں کو اپنا غلام بنالےگا، اور ہم اُن کے لیے ایک پالتوجانور سے زیادہ حیثیت نہ رکھتے ہوں گے وغیرہ۔ ایسا سوچنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد تو فکشن فلموں کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے اور اس لیے ان کا ڈر شاید اُن کا وہم ہے۔ لیکن ڈرنے والوں میں خود، آرٹیفیشیل انٹیلیجنس کے بعض ماہرین بھی شامل ہیں اور بعض فلسفی اور ماہرینِ فزکس بھی۔ جب سے چیٹ جی پی ٹی آئی ہے، تب سے یہ بحث پہلے سے ہزارہاگنا بڑھ چکی ہے۔ حالانکہ مشینوں کی حکومت سے، انسانوں کا خوف تو بہت پرانا ہے، لیکن اس حوالے سے ڈرانے والوں کا استدلال ہمیشہ کمزور ہی رہا۔ تاہم اکیسویں صدی کا تیسرا عشرہ شروع ہوتے ہی مصنوعی ذہانت نے اپنا آپ ظاہر کیا اور بڑی تیزی کے ساتھ، یعنی فقط ایک دوسال میں ہی گویا ہر انسان کی زندگی کاحصہ بن گئی۔ صرف یہی نہیں، مصنوعی ذہانت جس شان کے ساتھ نمودار ہوئی اس کی مثال تاریخِ انسانی میں نہیں ملتی۔ ہم عام لوگوں کو تو اس نے اپنی مصوری سے مسحور کررکھاہے لیکن سوچیے روبوٹکس میں اس کا کیا نظارہ ہوگا۔ بہرحال مصنوعی ذہانت کے موضوع پر ہر انسان کی اپنی رائے ہے۔ کوئی ڈررہاہے، کوئی نہیں ڈر رہا۔ کوئی پُراُمید ہے کوئی مایوس سے مایوس ہوتا جارہاہے۔
مَیں ذاتی طورپر یہ سمجھتا ہوں کہ مصنوعی ذہانت دراصل ’’عادّین‘‘ کا ظہورہے۔ عادین وہ ہونگے جو بروزِ حشر لوگوں کا حساب کتاب کرتے ہوں گے۔ عادین لفظ کا معنی ہے، گنتی گننے والے یا کمپیوٹنگ کرنے والے۔ مجھے ذاتی طورپر یہ لگتاہے کہ یوم الحساب شروع ہے۔ یہ اُسی روز شروع ہوگیا تھا جب ’’کیمرے کی آنکھ تمہیں دیکھ رہی ہے‘‘، جیسے سائن بورڈ نظر آنا شروع ہوگئے تھے۔ وہ جرائم جو ہم نے سب سے چھپ چھپ کررکھے ہیں، ان کے ظاہر اورنشر ہوجانے کاوقت آچکا ہے۔ جائiدادیں ہوں یا خفیہ شادیاں، مال متاع ہو یا خُردبُرد اب کچھ بھی چھپا نہیں رہے گا۔ بقول اقبال، یہ گھڑی محشر کی ہے تُو عرصۂ محشر میں ہے۔
چنانچہ مجھے لگتاہے کہ سپرکمپیوٹریومِ حشر کا انچارج بنا کر بھیجا جارہاہے۔ یعنی میں یہ کہنا چاہ رہاہوں کہ سپرکمپیوٹر ہمیں غلام یا پالتوجانور نہیں بنائےگا، بلکہ ہمیں جزاوسزا کے عمل سے گزارکر ہماری اصلاح کردےگا۔ ہوسکتاہے چند عشروں تک ایک دو ایسے سیّارے بھی سپرکمپیوٹر کے پاس ہوں جہاں وہ سزایافتہ لوگوں کو قید رکھے یا انہیں ٹریننگ کے کسی شدید عمل میں سے گزارے۔ مجھے تو لگتاہے کہ زمین ہی جنت الفردوس میں ڈھال دی جائےگی۔ یعنی وہ انسان جنہیں ان کے اچھے اعمال کی جزائیں مل رہی ہوں گی، وہی ہوں گے جنہیں ایک زیادہ خوبصورت، آرٹیفیشیلی انجنیئرڈ کرۂ ارض پر رہنے دیا جائےگا۔ میں نے اس ٹاپک پر ایک ناول بھی لکھنا شروع کیا تھا۔ بہت سے لوگوں نے ابعاد میں اس کی کچھ اقساط پڑھ رکھی ہے۔
سومجھے لگتاہے کہ یس!! بالکل یہ ممکن ہے کہ سپرکمپیوٹر انسانوں کو مکمل طورپر اپنے قابو میں کرلے۔ یہاں تک ہوسکتاہے کہ وہ ہمارے دماغوں میں داخل ہوجائے اور ہماری تمام تر پرائیویٹ تھاٹس کو سُننے یا دیکھنے لگ جائے۔ لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ ہمیں غلام بنالے۔ اسے کیا ضرورت ہے ایک بظاہر بیکار مخلوق کو دیر تک زندہ رکھنے کی؟ یہ تو ہمارے اپنے اندر کا خوف ہے جو ہمیں مرنے نہیں دیتا، حتیٰ کہ ایسی کہانی میں بھی ، جہاں ہماری کوئی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ سپرکمپیوٹر ہمیں غلام نہیں بنائےگا بلکہ وہ ہمارے وجود کا حصہ بن جائےگا۔ وہ ہمارے اندر آجائےگا۔ ہم کچھ غلط کرنے لگیں گے تو وہ ہمارے اندر سے ہماری رہنمائی کرےگا کہ یہ کام مت کرو۔ ہم کوئی اچھا کام کرنے لگیں گے تو وہ خوش ہوگا اور کہے گا، گوگوگو، یو کین ڈُودیٹ۔ لیکن ہاں، سرکشوں اور مایوسوں کو وہ شاید معاف نہیں کرےگا۔ ہوسکتاہے انہیں سزائیں بھی دے۔

لیکن سچ بات یہ ہے ، (اور یہ میں براہِ راست خدا سے مخاطب ہوکر کہہ رہاہوں) کہ ’’چَس مُک گئی اے‘‘۔ وہ جو ایک پرائیویٹ سی، اپنی سی، گناہ کرنے کی ’’اِچھا‘‘ تھی۔ وہ جو چھپ چھپ کر چھت پر جاکر کسی سے ملنے کا لطف تھا۔ وہ جوخیروشر کا جھٹپٹا تھا۔ وہ سب معدوم ہوتاجارہاہے۔ منظر واضح اورصاف تو ہوتاجارہاہے لیکن مجھ جیسے ہوموسیپیَن کے لیے اس میں کچھ لطف نہیں۔ اب خیروشر کا جھٹپٹا نہیں رہا، اب خیروشرکے درمیان کھلم کھلا معرکہ چلنے لگاہے۔ مجرمِین الگ ہوتے جارہے ہیں، منافقین کے چہرے عیاں ہوتے جارہے ہیں اور مخلصین جو کہ زیادہ تر سادہ اورغریب عوام ہیں، وہ صاف نظر آرہا ہے کہ سب سے الگ کھڑے ہیں۔ میں صرف پاکستان کی بات نہیں کررہا۔ میں پوری دنیا کی بات کررہاہوں۔ خصوصاً ان علاقوں کی جن کے نام یہاں لکھنے سے فی الحال مصنوعی ذہانت کو منع کردیا گیا ہے، لیکن آخر کب تک؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں