بات در اصل یہ ہے کہ:اپنے ہاں برِ صغیر میں دین کم پھیلا ہے اور دین کے نام پر تعظیم نے زیادہ پنجے مضبوط کیے ہیں ، اور پھر تعظیم بھی چونکہ ہندؤوں سے لی تھی تو اس کی افزائش میں غلو کی آمیزش بھی خوب رچ بس گئی ہے۔
کیا آپ جانتے ہیں غلو کیا ہوتا ہے؟ ۔یوں سمجھیے کہ افراط و تفریط میں سے افراط کا شکار ہو جانا غلو کہلاتا ہے ، اور کسی کو اس کے درجے سے بڑھا دینا یا کسی کی تعظیم میں حد سے بڑھ جانا غلو ہی ہے۔ چونکہ یہ کام خاص کر دین کے نام پر ہوتا ہے اسی لئے اللہ نے قرآن میں اہل کتاب کو دین میں غلو سے منع کرتے ہوئے فرمایا:
“يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ” کہ اپنے دین میں غلو سے کام نہ لو۔۔ اور اسی کی نصیحت پیغمبرِ آخر الزمان ﷺ نے یوں فرمائی کہ: “غلو سے اپنے دامن کو بچانا کیونکہ یہ قوموں کو ہلاک کر دیتا ہے” ۔لیکن اس کے باوجود لوگ غلو کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ایک طرف نصرانیوں نے زہد کے نام پر حدیں پار کر کے رہبانیت کی داغ بیل ڈالی تو اپنے ہاں اسی کو صوفیت میں غلو کر کے مزید بڑھاوا دیا گیا۔ اور اب حال وہی رہبانیوں والا ہے کہ دین بھی ایسا پیش ہوتا ہے جیسے اس کا ماڈل ہماری دنیا کیلئے نہ بنایا گیا ہو ۔۔یہ تو ہوا عبادت میں غلو!
پھر شخصیات میں دیکھیے تو یہ پورا عشرہ ہی اس حوالے سے کافی معنی خیز ہے ، اس میں بیان کرنے والوں کو سنیں گے تو خود ہی معلوم چل جائے گا کہ کتنا دین بیان ہوتا ہے اور کتنا دین میں تعظیم کے نام پر غلو! اور پھر غلو کے بحرِ بے کراں میں بہتے ہوئے شخصیات کو وہ وہ مقام دیا جاتا ہے کہ سر پیٹنے کو جی چاہے۔
یہی حال مقامات کا ہے کہ کسی نبی ، ولی ، تقی کی قبر ہے تو اس کی تعظیم شروع کر دو ۔پھر اس تعظیم میں غلو کی آمیزش کر دو ، اور پھر غلو کا نتیجہ کس پر منتج ہوتا ہے؟قبروں کی عبادت پر۔
اب آپ دیکھیے کہ غلو عبادت میں ہو ، اشخاص میں ہو یا مقامات میں،سب کو جوڑا کس سے جاتا ہے؟
یقینا ًدین سے ، جیسے دین نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہو! حالانکہ دین میں تو اس کی مذمت ملتی ہے ، اور مذمت بھی اسی انداز میں ملتی ہے کہ “اپنے دین میں غلو نہ کرنا” ، اچھا اگر کر لیا تو کیا ہوگا؟
“وَلَا تَقُوۡلُوۡا عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الۡحَـقَّ”۔۔۔
علما کرام بہتر رہنمائی فرمائیں گے ، کہ یہ وہ نتیجہ ہے جو غلو کی وجہ سے سامنے آیا کہ انسان اللہ پر جھوٹ باندھنے لگ گیا۔ ۔یعنی اللہ کے دین کے نام پر جھوٹ ، اللہ کے نبی کے نام پر جھوٹ اور یہ سب اللہ پر ہی تو جھوٹ ہوا نا!
اب آتے ہیں اس گاڑیوں والے مسئلہ کی طرف۔ ۔دیکھیں ہم نے کل بھی اس طرف اشارہ کیا تھا کہ مسائل میں تفقہ اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب آپ سامنے والے کی دلیل معلوم کریں ، ورنہ کوئی عذر تراش کر اس کو عذر پر محمول کریں۔
اب اگر گاڑیاں مسجد نبوی کے پاس کھڑی ہو گئیں اور آپ کو وہ مسجد کے احاطے میں محسوس ہوتی ہیں (جو ہیں نہیں) تو آپ سب سے پہلے گاڑیاں کھڑی کرنے والے ، یا اجازت دینے والے سے پوچھنے کی کوشش کیجئے اور پوزیشن کلئیر کیجئے کہ اس کے علم میں یہ مسئلہ جو آپ کو بہت بڑا مسئلہ محسوس ہوتا ہے وہ ہے بھی یا نہیں ، اگر ہے پھر بھی وہ ایسا کر رہا ہے تو دلیل مانگ لیجئے ، دلیل نہ ملے تو عذر پر محمول کر لیجئے۔
ابن سیرین فرماتے تھے کہ: “اپنے بھائی کیلئے عذر تلاش کرو اگر مل جائے تو ٹھیک ورنہ اس کے بارے میں یہی گمان رکھو کہ کوئی عذر ہوگا ، جس کا مجھے معلوم نہیں چلا”۔
اور یہ معاملہ عذر سے بڑھ کر ہے ، اس عمل کے جواز پر دلائل بھی دیے جا سکتے ہیں ، آپ کہیں گے تو آپ کی ہی کتابوں سے دلیل بھی نکال کر دے دیں گے ، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آپ تعظیم کی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں اور اس میں بھی غلو کا عنصر غالب ہے ، اور جب تعظیم میں غلو در آئے تو دلائل کو سمجھنے کیلئے عقل پر پردے پڑ جاتے ہیں ۔اس لئے اندھی تعظیم کے اندھے غلو سے باہر آئیں ، سوچ میں وسعت پیدا کریں ، سامنے والے کی ہر ہر بات قابلِ مؤاخذہ نہیں ہوتی ، اگر پھر بھی کمی محسوس ہو تو عذر پر محمول کر لیں ، لیکن خواہ مخواہ کی بڑھکیں نہ ماریں!

اور آخری بات یاد رکھیں کہ کسی بھی چیز میں غلو کرنے سے آج تک کوئی فائدہ نہیں ہوا ، جس کی سادہ سی مثال ہندو مذہب ہے جو پورا کا پورا ہی تعظیم کے نام پر کئے جانے والے غلو پر قائم ہے ، کچھ عرصہ پہلے نریندر مودی ہندو ازم کی تعریف میں فرما رہے تھے کہ “بھگوان کا سب سے اچھا تصور ہمارے پاس ہے ، اور وہ یہ کہ جو بھی کسی کام میں ، کسی فن میں مہارت کی بلندیوں کو چھو لے اور اس سا کوئی دوسرا نہ پایا جائے ، تو وہ ہمارے لئے اس فن کا بھگوان ہو جاتا ہے” یہ اصل میں پہلے اس کی تعظیم ہوتی ہے اور بالآخر اس کی پوجا پاٹ پر نتیجہ نکلتا ہے اسی لئے ہندو مت میں “شیو لِنگ” کا تصور بھی موجود ہے اور وہ بلا جھجک اس کی پوجا بھی کرتے ہیں ، دیکھیں یہ ہوتا ہے غلو کا نقصان ۔۔اور آج آپ مذہب چھوڑ کر لا دینیت اختیار کرنے والوں میں بھی سب سے بڑی تعداد ایسے ہی غلو کرنے والے مذاہب کو پائیں گے، اس فہرست میں نصرانیت کو چھوڑنے والے سب سے زیادہ اور اس کے بعد ہندو مذہب کو چھوڑنے والے ہیں ، اور ان دونوں کا غلو ہی معلوم اور معروف ہے ، اور اپنے مسلمانوں میں بھی سب سے زیادہ لا دین ہونے والوں کا تعلق اس عشرہ میں غلو کرنے والے سے ہی ہے ، ۔اس لئے غلو سے بچیے اور امتِ وسط ہونے کا ثبوت دے کر راہِ اعتدال کو اپنائیے!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں