جب چند اشعار اور کچھ نظمیں صاحب استعمار پر گراں گزریں تو اسے لاپتا کر دیاگیا۔۔۔ پھر چند مہینے جیل میں رکھا۔۔
لاتوں ڈنڈوں سے مارا پیٹا، ٹارچر کیا ظلم و قید میں رہا، باہر جانے پر پابندی لگا دی گئی ،اس کے شناختی کارڈ اور پاسپورڈ کو بلاک کیا مگر پھر بھی وہ اپنے موقف سے پیچھے نہ ہٹا اور نہ منہ موڑا۔مضبوط اور ثابت قدم رہا، مسلسل جدوجہد کرتا رہا ۔
قوم اور پختون معاشرے کی خاطر لڑتا رہا، انسانی حقوق اور جبری گمشدگی پر بات کرتا رہا کبھی کسی بھی وقت خاموش نہ رہا۔
جس طرح زندگی میں اپنے حقوق کے لئے لڑتا رہا بالکل اسی طرح ہسپتال میں زخمی حالت میں بھی پورے تین دن موت سے لڑتا رہا اور آخر کار دارفانی سے رخصت ہوا ۔
شیکسپیئر اپنے ڈرامے Julius Caesar کے ایک سین میں لکھتے ہیں
“Cowards die many times before their deaths; The valiant never taste of death but once”
یہ بات نیلسن منڈیلا بھی سٹیج پر آزادی کے پروانوں کے سامنے اکثر کہتا تھا
آج گیلامن نے پختون قوم کی طرف سے اسے عملی جامہ پہنایا وہ ایسا فوت ہوا کہ مر کر بھی ہمیشہ کے لئے امر رہے گا۔۔۔ وہ رہتی دنیا تک ہر ذہن ، ہر دل ، ہر روح میں اور ہر زبان پر زندہ رہے گا۔
میں بات کر رہا ہوں وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نعیم خان عرف گیلامن وزیر کی ،جس پر تین دن پہلے اسلام آباد میں کچھ لوگوں نے چاقو اور لاٹھیوں سے حملہ کیا تھا۔
کالم نگار شازار جیلانی اسے پختون قوم کا حبیب جالب اور شاعر ہمدرد یوسفزئی اسے پختونخوا کا Benjamin Zephaniah ( افریقہ کا انقلابی شاعر) اور میں اسے افغان ملت کا Jean jaures ( فرینچ انٹی وار ایکٹیوسٹ) کا خطاب دیتا ہوں۔ حقیقت یہی ہے کہ وہ اس سے بڑھ کر تھا۔ وہ پختون تحفظ موومنٹ کا روح رواں، سرکردہ کارکن، مرکزی کمیٹی کا رکن تھا۔ ہر اسٹیج، جلسے اور میڈیا کے ہر پلیٹ فارم پر مشہور تھا لوگوں کے سامنے اپنا مدعا رکھتا تھا اور لوگ سنتے تھے۔
آج نہیں رہا۔۔۔۔
ایسے کردار اور شخصیت کا حامل تھا کہ اُس پر حملےکا سنتے ہی افغانستان سے کاشغر اور پاکستان سے یورپ و امریکا تک ہر احساس مند انسان نے ان کے لئے دعا کی ہمدردی کا اظہار کیا، حامد کرزئی سے لیکر اشرف غنی اور آمراللہ صالح تک، راشد خان سے لیکر رحمان اللہ گربز تک سیاستدان، سپورٹس مین، بزنس مین، سوشل و پولیٹیکل ایکٹیویسٹ سب نے خدا کے حضور ہاتھ پھلا کر ان کے لئے دعائیں مانگیں اور اپنے خیالات اور ہمدردیاں سوشل میڈیا و الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے پہنچائیں ۔ اس نے حقیقت گوئی اور اپنی حب الوطنی کے جذبے سے سب کے دل جیت لیے تھے ، اس لئے سب ان کو صحت مند اور زندہ دیکھنا چاہتے تھے سب ان کی صحت کے لئے دعا گو تھیں اور اب ان کی موت پر خون کے آنسو رو رہے ہیں۔
اس دوران اگر کوئی خاموش رہا تو صرف پاکستانی میڈیا اور کچھ پیڈ دانشور جس نے ہمدردی کا لفظ تک نہ لکھا ،نہ ان کے زخمی ہونے پر اور نہ ہی ان کی وفات پر ۔ تو سوچا چند لفظ لکھوں تاکہ سند رہے۔
آج پختونخوا سوگ میں ڈوبا ہے ۔یہ ایک سیاہ دن ہے مگر یہ خبر آپ کو پاکستانی میڈیا پر کہیں نہیں ملے گی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں