(طلبہ و علما کیلئے خاص)
ہمیں اپنے نام کے لاحقے میں “حفیدِ سلطان” لگائے کوئی دو سال ہونے کو ہیں۔ اور اس تبدیلی پر ہم سے کئی ساتھیوں نے اس کی وجہ اور اس کا معنی معلوم کیا کہ یہ “حفید” کیا ہوتا ہے اور اس کو نام میں داخل کیوں کیا؟
دیکھیں سب سے پہلے تو اس کا مطلب جان لیں اور وہ ہے “پوتا” یعنی سلطان کا پوتا۔تو اب تک جو اس کو کوئی نام سمجھتا آیا تھا وہ نام سمجھنا چھوڑ دے۔
جہاں تک بات ہے اس کو اپنے نام کے ساتھ لگانے کی تو واقعہ کچھ یوں ہے کہ عرصہ دو سال قبل استادِ محترم ڈاکٹر شاہ فیض الابرار صدیقی صاحب نے ہمیں بطورِ مقالہ ایک کام دیا جو سارا کا سارا ہی فقہ کی مشہور کتاب “بدایۃ المجتھد ونھایۃ المقتصد” پر مشتمل تھا اور اس کتاب کے مصنف تھے “ابن رشد الحفید” بس ہم نے جب تھوڑا بہت کام کیا اور ابن رشد الحفید کے اسلوب کو دیکھا تو ان کے کام اور نام دونوں ہی کے گرویدہ ہو گئے اور جب سے ہی اپنے نام کے ساتھ “الحفید” کی جگہ “حفید” کا لاحقہ لگا لیا ۔
خیر جی اب آتے ہیں “الحفید” کی طرف!
تو یہ أبو الوليد محمَّد بن أحمد بن محمَّد بن أحمد بن أحمد بن رُشْد المعروف ابن رشد الحفید ہیں ۔
چھٹی صدی ہجری میں علمی گھرانے میں آنکھ کھولی اور پھر مختلف علوم و فنون کے اساتذہ کے سامنے دو زانوں ہو کر مہارت حاصل کی ۔روایت و درایت میں ان کے جیسا امام اندلس کی زمین پر نہ تھا ، قانون و قضا میں ان سی نابغہ روزگار شخصیت اشبیلیہ اور قرطبہ نے نہ دیکھی تھی ، فلسفے اور علم الکلام میں عربی ، لاطینی اور یورپی سب ہی آپ کو امام تسلیم کرتے ، اور فقہی فہم و فراست میں آپ اپنی مثال آپ تھے!
اور یہ آخر الذکر بات ہی ہے جس پر ہم نے ابن رشد الحفید کو پڑھا اور فقہ میں ان کی مہارت کے معترف ہو گئے۔
یوں تو وہ مذہباً مالکی تھے لیکن جب آپ ان کی کتاب کی طرف جائیں گے تو آپ دیکھیں گے یہ فقہ المقارن کی کتاب ہے ، جس میں صرف اپنے مذہب کی تائید اور دیگر مذاہب کی تردید نظر نہ آئے گی ، اور یہی وہ فرق ہے جو تعصب اور جمود کی تنگ گھاٹیوں سے نکال کر انسان میں وسعتِ نظری اور فہم کی دقت کو پیدا کرتا ہے۔
اور یوں کہہ لیں کہ فقہِ مالکی کے اس مجتھد کی گرفت دیگر فقہاء کے مذاہب پر بھی اچھی خاصی تھی ، خاص کر فقہِ حنفی اور فقہِ شافعی پر بڑی گہری نظر تھی اور اس کی وجہ یہ بنی کہ فقہ کے اصل مصادر دو ہی ہیں:
حنفیہ اور شافعیہ
اور پھر دیگر فقہاء کی فقہ بھی اسی کے قریب تر ہی نظر آتی ہیں چاہے اس کے منابع ائمہ اربعہ میں سے اگلے دو امام ، امام مالک و احمد ہوں یا ان سے پہلے کے ثوری ، ابن عینیہ ہوں یا ان کے بعد کے نواب صاحب اور شوکانی رحمہم اللہ ہوں۔اور ان سارے فقہاء کی فقہ کو ہم بطورِ مستقل مذہب کو قبول کرتے ہیں کیونکہ تنگ نظر نہ ہونے کا ایک لازمی نتیجہ یہ بھی ہے کہ وسعتِ نظری بلکہ وسعتِ قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف چار فقہ سے بڑھ کر دیگر کو بھی قبول کیا جائے۔البتہ یہ بات الگ ہے کہ قبولیت عام ان چار فقہاء کی فقہ کو ہی حاصل ہوئی ، برصغیر میں فقہِ حنفی ، افریقہ اور عرب کے کچھ حصوں میں فقہِ شافعی ، سرزمین اندلس اور دیگر مغربی ممالک میں فقہِ مالکی اور حجاز اور عرب کے قرب و نواح میں فقہِ حنبلی۔
اس کے باوجود اجتہاد کا حق تو سب ہی کو حاصل ہے چاہے پھر وہ فی داخل المذہب رہ کر کیا جائے یا مذہبِ جدید کی بنیاد پر کیا جائے اور جو پابندی اجتہاد کی کچھ علماء نے لگائی تو اس کی حقیقت صاحبِ وجیز کے مطابق یہ ہے کہ:
“کچھ مجتہدین کا اجتہاد پر قدغن لگانا بھی ایک طرح کا اجتہاد ہی تھا ، اور کوئی دوسرا مجتہد اپنے اجتھاد کے ذریعہ اس اجتھاد کی مخالفت کرتے ہوئے اجتہاد کر سکتا ہے”
تو بات چل رہی تھی الحفید کی کتاب کی۔۔۔اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں مذاہبِ اربعہ یا یوں کہہ لیں کہ اکثر و بیشتر مذاہبِ ثلاثہ کے اختلافات پر بات کی گئی ہے۔۔۔اور مذاہبِ ثالثہ غالبا اسی لئے کہ اصل مذاہب دو ٹھہرے اور ابن رشد خود مالکی ہیں ، البتہ جہاں تک مذہبِ حنبلی کی بات ہے تو وہ بھی اس میں مذکور ہے لیکن اتنا زیادہ نہیں جتنا تین مذاہب کا ذکر ہے ، اسی طرح ائمہ اربعہ کے علاؤہ فقہاء کی آراء کو بھی آپ اس کتاب میں پا سکتے ہیں اور ان سب مذاہب کا ذکر مخالفت میں نہیں بلکہ اسبابِ اختلاف اور وجوہاتِ تنازع کے بیان کیلئے کیا ہے۔
اور یقین جانیں جب اسبابِ اختلاف کھل کر سامنے آ جائیں تو اختلافات کو اتفاقات میں بدلنا اور راجح قول تک پہنچنا آسان ہو جاتا ہے ، اور یوں سمجھیں کہ ابن رشد الحفید کا فقہِ مالکی میں وہی درجہ ہے جو امام ابو یوسف اور امام محمد کا فقہِ حنفی میں ، کہ جس طرح صاحبین ادلہ کو دیکھتے ہوئے امام صاحب کے قول کی مخالفت میں کسی پس و پیش سے کام نہیں لیتے ایسا ہی ابن رشد الحفید نے بھی کیا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ اختلاف کی بنیاد پر بڑے بڑے پردے حائل کرنے کے بجائے فریقِ ثانی کیلئے بھی دلائل کی بنیاد پر عذر ڈھونڈ کر پیش کر دیا ہے تاکہ منافرت اور تباغض کی جگہ اتفاق و تقارب کی راہ ہموار ہو ، اور تلاشِ عذر یا بیانِ عذر میں اصل مرجع و منبع قرآن وسنت یا اجماعِ امت کو ہی ٹھہرایا ہے نہ کہ مذہبِ خاص کے قواعدِ خاص کو،جن کو دوسرا مذہب والا نہ تسلیم کر پائے۔
اس ساری تفصیل بلکہ تحریر کا اصل مقصد اپنے ساتھی طلباء کو اس طرف توجہ دلانا ہے کہ اگر واقعی آپ بھی فقہ میں دلچسپی رکھتے ہیں تو پھر تعصب کی عینک کو اتار پھینکیں۔۔۔۔یعنی نہ کسی کیلئے تعصب اور نہ کسی کے خلاف تعصب!
بلکہ ابن رشد الحفید سے سبق حاصل کریں اور مذاہب کے درمیان متفق علیہ مسئلوں کو سب سے پہلے الگ کریں اور پھر مختلف فیہ مسائل میں دلائل کو دیکھتے ہوئے عذر پر محمول کریں۔۔۔
باقی اپنا تو کوئی حال سمجھنے ہی نہیں آ رہا کہ احناف کے درمیان جیتے جاگتے ، حنابلہ کی کتب کو بطورِ نصاب پڑھتے پڑھتے پڑھاتے اور شوکانی و نواب صاحب کے طرز فکر سے متاثر ہوتے ہوئے بھی ہم مالکیہ کے اس امام کی تعریف میں رطب اللسان ہو گئے ہیں!میں رطب اللسان ہو گئے ہیں!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں