۶۔ کیا ارتقاء سائنسی طور پر ثابت ہے؟ شکوک و شبہات کیا ہیں؟
نظریہ ارتقاِء کے مطابق ارتقاء کی کہانی کے کچھ اہم ترین موڑ یہ ہیں۔ پہلے سیل کا وجود، پہلے پروکاریوٹک سیل کا وجود، فوٹوسنتھیسس کا آغاز، آکسیجن انقلاب (Great Oxygenation Event)، پہلے یوکاریوٹک سیل کا وجود بشمونل نیوکلیس اور ریبوسوم، ملٹی سیلولر یا کثیر خلیاتی جاندار کا وجود، پہلے جانور کا وجود، نباتات کا وجود، جنسی تناسل، کیمبرین ایکسپلوژن، نرم ہڈی کا ظہور، پہلے فقاریہ یا ریڑھ کی ہڈی والے جاندار کا وجود، خشکی والے جاندار کا آغاز، ۔ممالیہ یعنی دودھ دینے والے جاندار کا آغاز، ڈائناسورس کا دور، پرندوں کا ارتقاء، پھولدار پودے (Angiosperms) کا آغاز، ڈائناسورس کے دور کا خاتمہ Cretaceous-Paleogene، دو پیروں پر چلنے والے جاندار، ہومو سیپین یعنی انسان۔
یہ تمام موڑ زندگی کے ارتقاء کی کہانی میں انتہائی اہم ہیں اور ان میں سے ہر ایک نے زندگی کی موجودہ شکل کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہر مرحلے پر ارتقاء نے جانداروں کی ساخت، افعال، اور بقا کی سٹریٹجی میں نمایاں تبدیلیاں کیں، جس کی وجہ سے زمین پر زندگی کا تنوع اور پیچیدگی ممکن ہوئی۔
یہاں پر ایک بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے۔ پچھلے ابواب میں ہم نے اوپر نظریہ ارتقاء کی تشریح میں چار اصول واضح کئے تھے۔ یہ جو چار اصول ہیں دلائل اور مشاہداتی سطح پر ثابت شدہ ہیں۔ یہاں پر خیال رہے کہ نظریہ ارتقاء کی تشریح کو مختلف انداز میں بیان کیا جاسکتا ہے، یہ ہمارا انتخاب تھا کہ نظریہ ارتقاء کیسے بیان کیا جائے، ہوسکتا ہے کہ کوئی دوسرا اسی نظریے کو اپنے انداز میں تین یا پانچ اصول میں بیان کرے۔
بہر حال ان چار اصولوں کے بعد پھر ہم نے ارتقاء کی کہانی میں وہ اہم ترین موڑ بیان کیے ہیں جن کے بغیر ارتقاء کی کہانی مکمل نہیں ہوسکتی تھی۔ اب اس سلسلے میں اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا ارتقاء کو ثابت کرنے کے لئے ارتقاء کے تمام مراحل کا مشاہداتی ثبوت بمعہ منطقی تشریح ضروری ہے یا پہلے والے چار ثابت شدہ اصول کے ہوتے ہوئے ان تمام مراحل کے کچھ اہم ترین فاسل کا تسلسل کافی ہے۔
اگرچہ عام طور پر سائنسدان ان اہم سوالات کا جواب حاصل کرنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں، لیکن ان کا رویہ اس بارے میں یہی ہے کہ ارتقاء کی کہانی کی مکمل تشریح ارتقاء کو ثابت کرنے کی شرط نہیں ہے۔ سائنسی تحقیق میں بعض اوقات تمام مراحل کے مکمل ثبوت حاصل نہیں ہوتے، بلکہ موجودہ شواہد اور کچھ نشانات کے ریکارڈز کی مدد سے ایک مکمل کہانی ترتیب دی جا سکتی ہے۔ یہاں پر اس بات کا خیال رہے کہ یہ جو3.8 بلین سال ہیں بہت ہی طویل عرصہ ہے اور انسانی ذہن کے لئے اس کو احاطہ تصور میں لانا ممکن نہیں ہے۔ یہاں پر انسان کے قیاس اور تخمینہ لگانے کی صلاحیت کام نہیں کرتی۔ اب ایسا نظریہ جس کے بنیادی اصول ثابت شدہ ہوں اور جس کے مراحل 3.8 ارب سال پر محیط ہوں، اس کے دعویداروں سے یہ مطالبہ کرنا کہ ہر ہر مرحلے کی پوری تفصیل بتا کر اس کو ثابت کریں کیا جائز مطالبہ ہے؟ اگر آپ اسی بات پر مصر ہوں کہ جب تک ان مراحل کو اسی طرح ثابت نہ کریں تب تک ہم نہیں مانیں گے تو کیا آپ کے خیال میں ایک غیر جانبدار شخص عقلی اور اخلاقی اعتبار سے آپ کی طرف رہے گا؟
۷۔ سائنسی طریقہ کار یا Scientific Method کی شرائط۔
سائنسی طریقہ کار یا Scientific Method کی شرائط کے حوالے سے ایک عام اعتراض یہ ہوتا ہے کہ نظریہ ارتقاء سائنسی طریقہ کار کے مطابق ثابت نہیں ہوتا۔ مثلاً، یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ارتقاء اور خاص طور پر میکرو ارتقاء کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے؟ کیا ارتقاء کی جو تشریح کی جاتی ہے اس کا ٹیسٹ یا جانچ کیا جاسکتا ہے؟ کیا جانچ کرنے کے عمل میں ہم اپنی مرضی کا انپٹ Variable دے کر جانچ کی تصدیق کر سکتے ہیں؟ کیا ارتقاء کا تکرار یا اس کو Reproduce کیا جاسکتا ہے؟ کیا ہم ایسا کوئی ٹیسٹ بنا سکتے ہیں کہ اگر ارتقاء غلط ہو تو وہ ٹیسٹ سے ثابت ہوجائے؟ اس شرط کو Falsifiability کہتے ہیں۔ کیا ہم نظریہ ارتقاء کے تحت کوئی پیش گوئی کر سکتے ہیں جو کہ بعد میں صحیح ثابت ہوجائے؟
عام طور پر کسی تھیوری کو سائنسی تھیوری کے طور پر قبول کرنے کے لیے ان شرائط کا ہونا ضروری ہے۔ ان شرائط کو دیکھ کر بظاہر یہ لگتا ہے کہ نظریہ ارتقاء ان شرائط پر پورا نہیں اترتا۔ لیکن یہاں پر ایک دوسرا آرگیومنٹ بھی ہے۔ جیسا کہ پہلے واضح کیا گیا ارتقاء کے دو پہلو ہیں: ایک ارتقاء کے کچھ بنیادی رکن اور دوسرے ارتقاء کی پوری کہانی جو کہ 3.8 ارب سال پر محیط ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ان شرائط پر ارتقاء کے ارکان کو ثابت ہونا ہے یا ارتقاء کی پوری کہانی کو؟ اگر ہم صرف ان اصولوں کو لیں جو ارتقاء کے نظریات کے رکن ہیں تو یہ تمام رکن ان شرائط پر پورا اترتے ہیں۔ اگر ہم اس پوری کہانی کا بوجھ ارتقاء کے مدعیان پر ڈالیں گے تو وہ اس جانچ میں کامیاب نہیں ہوں گے۔
یہاں پر مسئلہ ارتقاء کی نوعیت کا ہے۔ ارتقاء ایک نظریہ بھی ہے اور ایک طویل کہانی جو کہ 3.8 ارب سالوں پر محیط ہے۔ یہ ایک علمی پیراڈائم ہے جس میں ہزاروں تحقیقات ہو سکتی ہیں۔ اس اعتبار سے ارتقاء کا ثبوت فراہم کرنا اپنے میں بذات خود ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ سائنسی فلسفے سے شرائط کی فہرست کو اٹھا کر ارتقاء کے مداعیان پر اس پوری کہانی کو ثابت کرنے کا مطالبہ کیا تو جاسکتا ہے لیکن کیا واقعی اس قسم کا آرگیومنٹ ایک سمجھدار اور انصاف پسند شخص کو مطمئن کر سکے گا؟ اگر آپ کے پاس کوئی متبادل سائنسی تھیوری ہی نہیں تو آپ پر کسی دعوے کو ثابت کرنے کا بوجھ ہی نہیں ہے، تو کچھ گمشدہ کڑیوں کا بوجھ دوسرے فریق پر ڈال کر آپ مناظرہ بازی تو کر سکتے ہیں لیکن شاید ایک سمجھدار شخص کے قلب و ذہن کو متاثر نہیں کر پائیں گے۔ بلکہ یہاں پر بات صرف منطقی نہیں بلکہ اخلاقی بھی آ جاتی ہے۔ ایک غیر جانبدار شخص آپ کے اس مطالبہ کو اپنی کمزوری چھپانے کی غیر اخلاقی حرکت کے طور پر بھی دیکھ سکتا ہے۔
ارتقاء کی کہانی کی زمانی وسعت کے پیش نظر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم کوئی سائنسی تھیوری بنائیں ہی نہیں جو ایک وسیع تر زمانے پر پھیلی ہوئی۔ اس سلسلے میں بگ بینگ تھیوری کی مثال لیتے ہیں کہ اس کی زمانی وسعت ارتقاء کی زمانی وسعت سے بھی بہت زیادہ ہے۔ اور اس کے ساتھ بھی وہی مسئلہ ہے کہ کیا آپ بگ بینگ کے بنیادی اصول کو ثابت کرنا ضروری سمجھتے ہیں یا پھر بگ بینگ کی کہانی پوری تفصیلات کے ساتھ؟
نظریہ ارتقاء کے داعیوں کے مطابق ان کا مؤقف یہی ہے کہ فاسلز کا ریکارڈ ہماری سائنسی ترتیب اور ارضیاتی تغیر کے تخمینے کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں تو مسنگ لنک یا گمشدہ کڑیوں کا ہونا بذات خود اس تھیوری کو ناقابل اعتبار نہیں ٹھہراتا۔ جہاں تک اس تھیوری کے فالسیفائی ایبل (Falsifiable) ہونے کی بات ہے تو نہ صرف یہ تھیوری فالسیفائی ایبل ہے بلکہ اس کہانی کوبھی فالسیفائی کیا جاسکتا۔ یعنی اگر کوئی فاسلز ریکارڈ ارتقاء کی مرتب کردہ ترتیب کے خلاف زمانی ترتیب میں دریافت ہوجائے تو یہ کہانی غلط ثابت ہوگی۔ مثلا اگر جانداروں کے ابتدائی دور میں ہی ریڑھ ہی ہڈی والے جاندار دریافت ہو جائے تو یہ کہانی غلط ثابت ہوگی۔
تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نظریہ ارتقاء کے مطابق پیش گوئی کی جاسکتی ہے۔ تو اس کا جواب بھی ہاں ہے لیکن اس میں ایک معمولی سا پلٹ یعنی Twist ہے۔ یہ پیشن گوئی مستقبل سے متعلق نہیں بلکہ ماضی کی کسی بات کو مستبقل میں دریافت کرنے سے متعلق ہے۔ ایسا کئی بار ہوا ہے کہ نظریہ ارتقاء کی ترتیب میں سائنسدانوں نے یہ کہا کہ ہمیں فلاں اور فلاں جاندار کے درمیان کی کڑیاں نہیں مل رہی اس لئے ہمارا اندازہ ہے کہ کچھ ایسے جاندار کے فاسلز ملنے چاہیے جن کی یہ اور یہ خصوصیات ہوں۔ اور ایسا کئی بار ہوا ہے کہ سائنسدانوں کی پیش گوئی صحیح ثابت ہوئی۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں