۵۔ نظریہ ارتقاء حقیقت میں کیا ہے؟
چونکہ اگلی قسطوں میں کچھ تکنیکی بحث آنے والی ہے اور ضروری نہیں ہے کہ ہر کوئی نظریہ ارتقاء کو ٹھیک سے سمجھتا ہو۔ اس لئے اس مرحلے پر ضروری ہے کہ ہمارے قارئین مختصر طور پر نظریہ ارتقاء کو سمجھیں۔
نظریہ ارتقاء کے مطابق دنیا کے تمام جانداروں کا شجرہ نسب ایک ہی ہے۔ یعنی سب سے پہلے ایک سیل یا خلیہ بنا۔ اس سیل میں باہر سے غذا حاصل کر کے خود سے تقسیم ہونے کی صلاحیت تھی۔ یہ تقسیم در تقسیم ہو کر اپنی نسل بڑھاتا چلا گیا۔ اس مرحلے میں اس کی اگلی نسلوں میں معمولی فرق آتے چلے گئے۔ یہ چھوٹے جینیاتی فرق وقت کے ساتھ جمع ہوتے گئے جس کے نتیجے میں خلیوں کی نئی نسلیں وجود میں آئیں۔ اس ارتقائی داستان میں کسی وقت اتفاقاً ایسا ہوا کہ کچھ سیل ایک دوسرے سے چپک کر آپسی تعاون کر کے رہنے لگے، یہ آپس میں چپکے ہوئے سیل ایک دوسرے کے تعاون سے ایک کثیر خلیوی یعنی ملٹی سیلولر جاندار بن گئے۔ یہ کثیر خلیوی جاندار بھی اپنی نسل بڑھانے یا اپنی نقل بنانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ تو پھر اسی طرح ان کثیر خلیوی جانداروں میں نسل در نسل مختلف تبدیلیاں آتی چلی گئیں اور ایک طویل عرصے بعد ان کی مختلف شاخیں مختلف جاندار بن گئیں۔ یہ پوری کہانی کوئی تین بلین سالوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ بظاہر بڑی عجیب سی اختراعی کہانی معلوم ہوتی ہے۔ لیکن اس کی تائید میں وسیع تر سائنسی مشاہدات اور شواہد پیش کیے جاتے ہیں۔ اس پر مزید گفتگو اگلے حصوں میں آنے والی ہے۔
فی الحال ایسا کوئی مضبوط سائنسی نظریہ نہیں ہے جو سب سے پہلے خلیے کی تخلیق کی وضاحت کرتا ہو۔ اگرچہ پہلے خلیے کی تخلیق کی تحقیق بھی سائنس کے دائرے کے اندر ہی آتی ہے، لیکن اس پر کوئی یقینی جواب نہ ہونے کے باوجود نظریہ ارتقاء کے بقایا حصے میں موجود تشریح کو غلط نہیں سمجھا جاتا۔
اس پورے سلسلے میں کچھ بنیادی اصول یاد رکھنے چاہیے۔
میوٹیشن: خلیوں کی تقسیم کے عمل اور اسی طرح کثیر خلوی جاندار کی نسل بڑھنے کے عمل میں ایک مظہر ہوتا ہے جسے میوٹیشن (mutation) کہتے ہیں۔ جب جانداروں کی تقسیم ہوتی ہے تو اس میں پرانے جاندار کے خلیوں میں موجود ڈی این اے کی کاپی نئے جاندار میں نقل ہوتی ہے۔ ڈی این اے نقل کرنے کے اس عمل میں کبھی کچھ غلطی رہ جاتی ہے جس کے نتیجے میں نئی نسل میں کچھ ایسی خصوصیات پیدا ہو جاتی ہیں جو پرانی نسل میں نہیں ہوتی۔ یہ عمل اتفاقی اور بغیر کسی منصوبہ بندی کے ہوتا ہے۔ میوٹیشن ایک تجرباتی طور پر ثابت شدہ عمل ہے اور بکثرت مشاہدے میں آتا ہے۔ اسی میوٹیشن کے ذریعے نظریہ ارتقاء اس بات کی تشریح کرتا ہے کہ کس طرح ایک خلیے سے پیدا ہونے والے جانداروں میں مختلف خصوصیات پیدا ہوتی ہیں۔
زمین کی کہانی یا جیولوجی: ارضیاتی تحقیق سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہماری زمین اپنی پیدائش کے مختلف ادوار اور ماحول سے گزری ہے۔ کبھی اس کا درجہ حرارت زیادہ رہا تھا، کبھی اس پر آکسیجن نہیں تھی، پھر بہت زیادہ ہوگئی تھی پھر بعد میں معتدل ہو گئی تھی وغیرہ۔ اس اعتبار سے زمین کے مختلف ادوار میں مختلف خصوصیات والے جانداروں کے لئے زمین میں مناسب حالات رہے تھے۔ مثلاً جس دور میں ڈائناسورس اس زمین پر تھے، یہاں کے حالات مختلف تھے اور اگر آج ہم کسی طرح ڈائناسورس کو دوبارہ پیدا کر پائیں تو وہ اس زمین پر زیادہ نہیں رہ پائیں گے کیونکہ ان کے لئے جو زمینی ماحول چاہئے تھا وہ مختلف تھا۔
بقا کی جدوجہد میں کامیابی: اس سلسلے کا ایک منطقی اصول یہ ہے کہ کسی بھی دور میں وہ جاندار ارتقائی طور پر زیادہ کامیاب رہے جو اپنی جینز یا اپنا ڈی این اے اگلی نسل میں منتقل کرنے میں زیادہ کامیاب رہے۔ یہ کامیابی کن خصوصیات کی صورت میں ظاہر ہوئی ان کی کچھ مثالیں یہ ہیں۔
ایسے جاندار جو ماحول میں موجود زیادہ سے زیادہ وسائل سے توانائی حاصل کر سکیں۔
ایسے جاندار جو اپنے شکاری دشمنوں کا مقابلہ بہتر انداز میں کر سکیں۔
ایسے جاندار جو اپنے شکاری دشمنوں سے بہتر انداز میں چھپ سکیں یا ان کی نظروں سے بچ سکیں۔
ایسے جاندار جو بہتر ٹیم ورک یا اجتماعیت کے نتیجے میں اپنا دفاع بہتر کر سکیں۔
ایسے جاندار جو قدرتی آفات کا زیادہ بہتر دفاع کر سکیں۔
ایسا نر جو زیادہ سے زیادہ ماداؤں کو اپنی طرف مائل کر سکے۔
ایسی مادائیں جو نر کی طرف مائل ہو کر جنسی عمل کے لئے تیار ہوسکیں۔
ایسی مادائیں جو زیادہ سے زیادہ بچے دے سکیں۔
ایسے جاندار جو اپنی نسل کو شکار بننے سے بہتر انداز میں بچا سکیں۔
الغرض، ایسی بہت ساری خصوصیات ہیں جو جانداروں کی نسلی کامیابی کا سبب بنیں۔ اب جن جانداروں میں ایسی میوٹیشن ہوئیں جو مندرجہ بالا خصوصیات کو پیدا کر سکیں وہ میوٹیشن بھی اگلی نسل میں منتقل ہوتی رہیں۔ جن جانداروں میں ایسی میوٹیشن ہوئیں جو نسل بڑھانے میں مددگار نہ ہوئیں، وہ میوٹیشن اگلی نسلوں میں منتقل نہ ہو پائیں۔
جینیات اور ڈی این اے کا کردار: ڈی این اے سیل کے نیوکلیس میں موجود ایک مالیکیول ہوتا ہے اور جینز ڈی این اے کی لمبے مالیکیولز پر موجود مخصوص حصے ہوتے ہیں جو پروٹین کی تشکیل کا کوڈ رکھتے ہیں۔ ڈی این اے جانداروں کی وراثتی معلومات کا حامل ہوتا ہے، جو سیل کی فعالیت اور جاندار کی خصوصیات کا تعین کرتا ہے۔ جینز میں موجود کوڈز پروٹین کی تشکیل کے ذریعے سیل کی فعالیت کو کنٹرول کرتے ہیں، جو بالآخر جاندار کی جسمانی ساخت اور رویوں کو متاثر کرتے ہیں۔ ڈی این اے کی ترتیب میں ہونے والی تبدیلیاں جانداروں کے افعال، پروٹین کی تشکیل، جسمانی ساخت اور رویوں میں تبدیلی پیدا کرتی ہیں۔ جینز پروٹین کوڈ کرتے ہیں، جو کہ جانداروں کے جسم میں مختلف افعال انجام دیتے ہیں۔ یہ پروٹین نہ صرف جسم کی ساخت اور فعالیت کو متاثر کرتے ہیں بلکہ مختلف رویوں اور عادات کو بھی تشکیل دیتے ہیں۔ جینز کی میوٹیشنز کے نتیجے میں پروٹین کی فعالیت میں تبدیلی آتی ہے، جو جاندار کی جسمانی خصوصیات اور رویوں میں تبدیلی کا سبب بنتی ہے۔
پروٹین کی تشکیل اور فعالیت میں تبدیلی جاندار کی جسمانی ساخت، افعال اور رویوں میں تبدیلی کا باعث بنتی ہے۔ اس طرح، جینز میں ہونے والی تبدیلیاں جانداروں کی بقا، ان کی نسل بڑھانے کی صلاحیت اور ان کے ارتقائی سفر میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک جاندار میں جین کی میوٹیشن اس کے پروٹین کی ساخت میں تبدیلی لا سکتی ہے، جو اس کی جسمانی طاقت، تیزی، یا بیماریوں کے خلاف مدافعت کو متاثر کرتی ہے۔ یہ تمام عوامل جانداروں کی بقا اور ارتقاء میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جینیاتی تبدیلی سے ہونے والے یہ اثرات تجرباتی طور پر ثابت شدہ ہیں۔
تو یہ رہا ارتقاء کا مختصر تعارف۔ خیال رہے کہ یہ صرف ایک تھیوری نہیں بلکہ زمین کی 3.8 بلین سال کی ارضیاتی، کیمائی اور حیاتیاتی کہانی ہے۔ میں نے جو کچھ بیان کیا ہے ان میں بہت ساری تفصیلات نہیں لکھی ہے کیونکہ پھر اس موضوع پر ایک پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے۔
اگلی اقساط میں مندرجہ ذیل عنوانات کا احاطہ کیا جائے گا۔
۶۔ کیا ارتقاء سائنسی طور پر ثابت ہے؟ شکوک و شبہات کیا ہیں؟
۷۔ سائنسی طریقہ کار یا Scientific Method کی شرائط۔
۸۔ اتفاقات، رینڈمنس اور ترتیب۔
۹۔ بندر کی اولاد
۱۰۔ ارتقاء اور ناقابل تحلیل پیچیدگی (Irreducible Complexity)
۱۱۔ انٹیلی جنٹ ڈیزائن
۱۲۔ مائکرو ارتقاء اور میکرو ارتقاء
۱۳۔ ایک عام انسان کی تحقیق کی حدود کیا ہیں؟
۱۴۔ کیا سائنسدان بد نیت ہیں؟
۱۵۔ مذہب اور ارتقاء، قضیہ کیا ہے۔
۱۶۔ موافقت کا کوئی امکان؟
۱۷۔ تخلیق آدم و حوا، معجزانہ تخلیق (Special creation)
۱۸۔ آخری بات
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں