کرکٹ مگریوسفی کی زبانی

کرکٹ تو ہم نے بھی کھیلی ہے، بچپن میں ہم کراچی کے علاقے پاپوش نگر میں رہتے تھے، ایک میچ کھیل رہے تھے، ہم سب سے آخری بیٹس مین تھے، کپتان نے سخت ہدایت کی تھی کہ صرف دو بالیں روکنی ہیں تاکہ ہم ہارنے سے بچ جایں، لیکن ہم پہلی ہی گیند پر آوٹ ہوگئے، کپتان ہمارئے پاس آیا ، ہم سے بلا لیا اور ہمارئے منہ پر جڑدیا، تین دانت ہل گئے، پھر کبھی بلے کو ہاتھ نہیں لگایا۔

ضیاء الحق کے دور میں کراچی کے اسٹیڈیم میں بھارت اور پاکستان کا میچ ہورہا تھا، چائے کے وقفے کے بعد کامیچ ہم اسٹیڈیم میں جاکر دیکھ رہے تھے۔عمران خان نے ایک شاٹ مارا، ایک بھارتی کھلاڑی نے کیچ پکڑلیا، ہمارئے منہ سے بے ساختہ نکلا ’’ارے یہ کیا ہوا‘‘، برابر میں بیٹھے ہوئے ایک بچہ نے بتایا کہ انکل کیچ بانڈری کے باہر پکڑا گیا لہذا عمران خان آوٹ نہیں ہوئے۔۔۔ پاکستان نے وہ میچ جیت لیا تھا۔۔۔۔۔۔ بس یہ دو واقعے کرکٹ کے کھیل سے ہم جوڑے ہوئے ہیں۔

ہم نے اپنے بچپن کا دور صرف ٹیسٹ کرکٹ کو دیکھنےاور سننے میں گذارا پھر’’ایک روزہ کرکٹ‘‘ کا وجود ہوا مگر ٹیسٹ کرکٹ شاید دنیا کا واحد کھیل ہےجس میں عام طورپر 5 روز میں بھی کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا ، جبکہ ایک روزہ کرکٹ بھی پورے دن پر محیط ہوتی۔کرکٹ کے فارمیٹ ٹی ٹوئنٹی نے تو دورانیے کا مسئلہ ہی ختم کر دیا ۔ شرفاء کا کھیل کرکٹ جو اب سٹہ بازوں اور جواری کھلاڑیوں کی وجہ سے مشکوک کھیل بن گیا ہے اس کرۂ ارض پر سو سال سے زائد بہاریں دیکھ چکا ہے۔ جو کرکٹ کو واقعی سمجھتا ہے، صرف وہی جانتا ہے کہ کرکٹ ایک ایسا کھیل ہے جو آپ کو ہر ہر لمحے محظوظ کرے گا۔ایک بلے باز کا میدان میں بلا گھماتے ہوئے داخل ہونا، پھر گارڈ لینے اور کھیلنے کے لیے تیار کھڑے ہونے کا اپنا انوکھا انداز، جو بلے بازی کو پسند کرتے ہیں اور اس کی باریکیوں کو سمجھتے ہیں، اُن کے لیے اس پورے عمل کا ایک ایک لمحہ لذت آمیز ہے۔ اس کے بعد جب کھیل کا آغاز ہوتا ہے اور بلے باز اپنی تکنیکی مہارت کا مظاہرہ کرتا ہے، چاہے دفاعی انداز میں کلائی کا استعمال ہو یا جارحانہ انداز سے بلا گھمانا، ہر انداز ایک ناقابل بیان لذت کا احساس دیتا ہے۔دوسری طرف گیند بازی اپنے اندر ایک الگ قسم کی خوبصورتی سموئے ہوئے ہے۔ تیز گیند باز ہو، یا بلے باز کو اپنی انگلیوں کے ذریعے نچانے والا اسپن گیندباز، گیند لے کر ان کا دوڑنے اور گیند پھینکنے کا مرحلہ تو ہیجان خیز ہے ہی لیکن ٹپہ پڑنے کے بعد گیند کس طرح بلے باز کو دھوکا دیتی ہے، یہ سب بھی شائقین کرکٹ کے لیے لذت بے شمار ساماں لیے ہوئے ہیں۔

مشتاق احمد یوسفی صاحب ہمارے ملک کے مایہ ناز مزاح نگار ہیں، انہوں نے اپنی ایک مشہور کتاب “چراغ تلے” میں ایک مضمون کرکٹ کے نام سے لکھا ہے مگر یاد رہے یہ کتاب تب لکھی گی تھی جب ایک روزہ یا ٹونٹی 20 کا کوئی وجود نہ تھا صرف ٹیسٹ کرکٹ کھیلا جاتا تھا۔ وہ اپنے مضمون کرکٹ میں لکھتے ہیں:۔

ہم آج تک کرکٹ نہیں کھیلے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں اس کی بُرائی کرنے کا حق نہیں۔ اب اگر کسی شخص کو کتے نے نہیں کاٹا ، تو کیا اس بدنصیب کو کتوں کی مذمت کرنے کا حق نہیں پہنچتا؟ ذرا غور کیجیے ۔ افیم کی بُرائی صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں، جو افیم نہیں کھاتے، افیم کھانے کے بعد ہم نے کسی کو افیم کی بُرائی کرتے نہیں دیکھا۔دیکھا جاےَ تو کھیل کام کی ضد ہے- جہاں اس میں گبھیرتا آئی یہ کام بنا۔ یہی وجہ ہے کہ پولو انسان کےلیے کھیل ہے اور گھوڑے کے لیے کام۔ فی زمانہ ہم شاعری کو، جب تک وہ کسی کا ذریعہ معاش نہ ہو، نری عیاشی بلکہ بدمعاشی سمجھتے ہیں۔

کرکٹ سے ہماری دل بستگی ایک پرانا واوقعہ ہے جس پر آج سو سال بعد تعجب یا تاسف کا اظہار کرنا اپنی ناواقفیت عامہ کا ثبوت دینا ہے۔ 1857 کی رستخیر کے بعد بلکہ اس سے کچھ پہلے ہی ، ہمارے پُرکھوں کو انگریزی کلچر اور کرکٹ کے باہمی تعلق کا احساس ہو چلا تھا۔ چنانچہ سرسید احمد خان نے بھی انگریزی تعلیم و تمدن کے ساتھ ساتھ کرکٹ کو اپنانے کی کوشش کی۔ روایت ہے کہ جب علیگڑھ کالج کے لڑکے میچ کھیلتے ہوتے تو سرسید میدان کے کنارے جانماز بچھاکر بیٹھ جاتے۔ لڑکوں کا کھیل دیکھتے اور روُ روُ کر دعا مانگتے۔
“الہی! میرے بچو کی لاج تیرے ہاتھ ہے۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

جیسا کہ اُوپر اشارہ کیا جاچکا ہے، کرکٹ انگریزوں کےلیے مشغلہ نہیں، مشن ہے۔ لیکن اگر آپ نے کبھی کرکٹ کی ٹیموں کو مئی جون کی بھری دوپہر میں ناعاقبت اندیشانہ جرات کے ساتھ موسم کو چیلنج کرتے دیکھا ہے تو ہماری طرح آپ بھی اس نتیجہ پر پہنچے بغیر نہ رہ سکیں گے کہ ہمارے ہاں کرکٹ مشغلہ ہے نہ مشن، اچھی خاصی تعزیری مشقت ہے۔ ہمارے ہاتھوں جس طرح ہلکا پھلکا کھیل ترقی کرکے کام میں تبدیل ہوگیا وہ اس کے موُجدین کے وہم وگمان میں بھی نہ ہوگا۔ غالب نے شاید ایسی ہی کسی صوُرت حال سے متاثر ہوکر کہا تھا کہ ہم مغل بچے بھی غضب ہوتے ہیں، جس پر مرتے ہیں اس کو مار رکھتے ہیں۔اور اس کا سبب بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کھیل کے معاملے میں ہمارا رویہ بالغوں جیسا نہیں ، بلکل بچوں کا سا ہے۔ اس لحاظ سے کہ صرف بچے ہی کھیل میں اتنی سنجیدگی برتتے ہیں۔ پھر جیسے جیسے بچہ سیانا ہوتا ہے، کھیل کے ضمن میں اس کا رویہ غیرسنجیدہ ہوتا چلا جاتا ہے اور یہی ذہنی بلوغ کی علامت ہے۔
کرکٹ کے رسیا ہم جیسے نا آشناےَ فن کو لاجواب کرنے کےلیے اکثر کہتے ہیں
“میاں! تم کرکٹ کی باریکیوں کو کیا جانو؟ کرکٹ اب کھیل نہیں رہا، سائنس بن گیا ہے سائنس”۔

Facebook Comments

سید انورمحمود
سچ کڑوا ہوتا ہے۔ میں تاریخ کو سامنےرکھ کرلکھتا ہوں اور تاریخ میں لکھی سچائی کبھی کبھی کڑوی بھی ہوتی ہے۔​ سید انور محمود​

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply