شعور اور لاشعور کے درمیان لٹکتا وجدان/ڈاکٹر مختیار ملغانی

انسانی ذہن میں مسلسل کبھی منظم تو کبھی غیر منظم خیالات گونجتے رہتے ہیں ، کچھ لوگ اسے اندرونی ڈائیلاگ کا نام دیتے ہیں، گویا کہ آپ کی شخصیت اپنی بیٹیوں (sub- personalities) کے ساتھ دکھ سکھ بانٹ رہی ہے۔ جبکہ دوسرے ماہرین کے نزدیک یہ ڈائیلاگ کی بجائے مونولاگ (monologue ) ہے، شعور یعنی عقل کو اپنے آپ سے باتیں کرنے کی عادت ہوتی ہے، دوسرا کوئی ساتھی اس کباڑ خانے میں ایسا نہیں کہ ڈائیلاگ برتا جا سکے، یہ خود کلامی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لاشعور تخیل یا کلام کی صلاحیت سے محروم ہے، وہ صرف محسوس کرتا ہے یا پھر جانتا ہے۔ شعور کی یہ خود کلامی لاشعور کے خاموش احساسات پہ بہت بھاری اور بلند ہے، اسی لئے چھٹی حس کی پیدائش اور اس کا اظہار عقل کے اس شور تلے دب جاتے ہیں، ایک رائے یہ ہے کہ اگر خود کلامی کے اس شور پر قابو پا لیا جائے تو عقل کیلئے وجدانی معلومات تک رسائی آسان ہو جاتی ہے، لیکن مکمل شعوری کیفیت میں عقل کی اس خود کلامی کو روکنا ممکن نہیں۔ اگر زبردستی اس پہ قابو پا بھی لیا جائے تو منظر مزید بھیانک ہو سکتا ہے، یہ ایسا ہی ہے کہ عقل خاموش ہو کر ایک کونے میں جا بیٹھے اور آپ سے مخاطب ہو کہ چلو میں خاموش ہوں، اب دیکھتے ہیں کہ تم کیا کرتے ہو، خودکلامی پہ قابو پانے کا مقصد عقل کی توجہ ہٹانا ہے، جبکہ زور زبردستی اس کا منہ بند کرنے سے وہ مذید چوکس ہو جائے گی ایسے جیسے کوئی جنگلی جانور شکار پر جھپٹنے سے پہلے پوزیشن سنبھالتا ہے، بظاہر pin drop silence ہے، لیکن یہ بہرہ کر دینے والی خاموشی طوفان کا پیش خیمہ ہے، اسی طرح عقل کو آپ حیلے بہانے یا زور زبردستی سے خاموش نہیں کر سکتے، بظاہر منہ بند رکھتے ہوئے یہ مذید چوکس ہوگی، نتیجے میں لاشعور اس پراسرار اور پرخطر خاموشی کے زیرِ اثر کوئی وجدان کشید نہ کر پائے گا ۔
شعور یعنی عقل کا قبضہ نرم پڑ جائے تو ادراک اس کائناتی معلومات کے سمندر میں جھانک سکتا ہے۔
خود کلامی پر مکمل قابو نیند کی حالت میں ہی ممکن ہے، یا پھر گہرا مراقبہ بھی یہ کیفیت دے سکتا ہے۔ گہرا مراقبہ ہر شخص کے بس کی بات نہیں، اس کیلئے مشق کرنا پڑتی ہے، نیند والا معاملہ البتہ آسان ہے لیکن نیند کے دوران عقل کی خاموشی سے فائدہ اٹھایا جا سکے اس کیلئے فرد کا شعوری خواب پہ عبور لازم ہے، شعوری خواب سے مراد یہ ہے کہ خواب کی حالت میں یہ احساس دامن گیر رہے کہ میں خواب دیکھ رہا ہوں، ایسے میں اپنی مرضی سے خواب میں ردوبدل کیا جا سکتا ہے، شعوری خواب کی مشقیں مراقبے کی نسبت کہیں آسان ہیں ۔
لیکن کیا نیند اور مراقبے کے علاوہ بھی وجدانی کیفیات کو محسوس کرنے اور جاننے کے کہیں کوئی امکانات ہیں ؟
ایسا بالکل ممکن ہے، عمومی بیداری کی حالت میں بھی گاہے عقل کو اونگھ آ سکتی ہے، نتیجے میں اس کا کنٹرول اور توجہ مدھم پڑ جاتے ہیں اور یہی وہ موقع ہے جہاں لاشعور کی طرف کوئی کھڑکی سی کھلتی ہے اور وجدانی جھونکے باہر کو آتے ہیں، اس کیفیت کو صاحبانِ وجدان ستارۂ صبح کی سرگوشی کہتے ہیں، گویا کہ سوچے بغیر کسی سوچ کی آمد، کسی شور کے بغیر کوئی آواز ، عریانی کے بغیر والا کوئی رقص ۔
آپ کچھ سمجھ رہے ہوتے ہیں لیکن تصویر ذرا دھندلی ہے، کوئی احساس ہے جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا ، ہم میں سے ہر شخص ایسی کیفیات سے گزرتا ہے، جیسے کچھ ہونے والا ہے، کہیں کوئی بے قراری تو کبھی اطمینان کا احساس، وقت سے پہلے کسی اچھے یا برے حادثے کو محسوس کر لینا ، گاہے کوئی مخصوص کام کر گزرنے کی تڑپ یا پھر ایسے جیسے فرد کچھ جانتا ہے لیکن نہیں جانتا کہ وہ کیا جانتا ہے۔
خیالات کی جنگ میں عقل ریفری کی طرح کام کرتی ہے، دلائل کو دیکھتے ہوئے تجزیاتی فیصلہ سناتی ہے، لیکن جب عقل کو اونگھ آئے تو یہ ایسے ہے جیسے ریفری سے سیٹی چھین کر اسے گراؤنڈ کے باہر بٹھا دیا گیا ہو، جہاں سے وہ مشاہدہ تو کر سکتا ہے لیکن کھیل کو کنٹرول نہیں کر سکتا۔ اس مقام پہ فرد ایک لمحے کو نیند کی حالت میں چلا جاتا ہے، واقعتاً سو جاتا ہے، ہم میں سے ہر شخص مستقل ایسی نیند سے گزرتا ہے، کتاب پڑھتے ہوئے، کمپیوٹر یا موبائل کی سکرین سامنے، چلتے پھرتے ہوئے، بازار اور بھیڑ میں بھی، یہ لمحہ اتنا مختصر ہوتا ہے کہ کوئی بھی شخص یہ ماننے کو تیار نہ ہوگا کہ وہ آئے روز مکمل بیداری کے وقت ایک لمحے کو سو جاتا ہے، حتی کہ ڈرائیونگ کے دوران بھی ایسا ہوتا ہے۔ آپ کیلئے یہ نئی خبر ہو سکتی ہے لیکن اس حقیقت کی اب سائنس بھی تائید کرتی ہے کہ ہر شخص روزمرہ کی بنیاد پر دن کے وقت فقط ایک لمحے کیلئے کئی مرتبہ نیند میں چلا جاتا ہے۔ انتہائی مختصر وقت کیلئے وجدان کی کھڑکی کھلتی ہے، فورآ عقل واپس بیدار ہوتی ہے اور خود کلامی نئے سرے سے شروع ہو جاتی ہے، یہ وطن عزیز کی تاریخ جیسا بہت نازک موڑ ہے، یہاں کبھی کبھار عقل ان وجدانی لہروں کو محسوس کرتی ہے، لیکن اکثر وہ خود کلامی میں مصروف رہتے ہوئے ان لہروں کی پرواہ نہیں کرتی اور رحمت کی یہ بارش ضائع جاتی ہے۔
نیند کی حالت میں لاشعور کی پرواز کسی منزل کے تعین بغیر ہوتی ہے، لیکن وقت بیداری یہ مختصر پرواز مستقبل قریب ہی کے واقعات تک محدود ہے یا پھر واقعات کے ان ساحلوں تک جن پر آپ مسلسل سوچ رہے ہوتے ہیں۔ عقل کی اونگھ کے وقت اس کھڑکی کے مختصر وقت کیلئے کھلنے کو عقل کا خواب کہہ سکتے ہیں جو اکثر یاد نہیں رہتا، اگر یاد رہ جائے تو اسے وجدان یا چھٹی حس کہتے ہیں گویا کہ فرد محسوس کر لیتا ہے کہ کیا ہونے والا ہے، کون آنے والا ہے ، باقاعدہ آمد ہوتی ہے کہ یوں کر لینا چاہئے، لیکن شرط یہی ہے کہ عقل کو اس کا خواب یاد رہے، خواب یاد نہ رہا تو پھر فیصلے تجزیاتی بنیادوں پر ہوں گے جیسے ہوتے آ رہے ہیں، آسمانی مدد اس میں شامل نہ ہوگی ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply