وطن کی خدمت بمقابلہ اولاد کی محبت/شہزاد ملک

جب فرض منصبی اور اولاد کی محبت میں مقابلہ آن پڑے تو بڑے بڑے فرض شناس لوگوں کو اولاد کی محبت کے سامنے حوصلہ ہارتے دیکھا ہے مگر کچھ باہمت لوگ ان دونوں محاذوں پر بیک وقت مستعدی سے نبرد آزما ہوتے ہیں یہاں تک کہ حالات ان کی پامردی کے آگے سرنگوں ہو جاتے ہیں۔

بلوچستان میں میرانی ڈیم پروجیکٹ کا کنٹریکٹ نیسپاک کو ملا ،اس میں ملک صاحب کا کام environmental study اور Resttelment action plan بنانا تھا انہوں نے کنٹریکٹ پر دستخط کردئیے انہی دنوں ان کا اکلوتا جوان بیٹا گردوں کے جان لیوا مرض میں مبتلا ہوچکا تھا ،علاج کی خاطر والدین مختلف ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کے رات دن چکر لگا رہے تھے لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دعا کی۔ تب ڈاکٹروں نے آخری چارہ کار کے طور پر گردے کی پیوند کاری تجویز کی، اب گردہ عطیہ کرنے کے خواہشمند ایک نوجوان سے رابطہ کیا گیا کیونکہ اپنوں میں سے کسی کا گردہ میچ نہیں ہوا تھا اس ساری بھاگ دوڑ کے ساتھ ساتھ ملک صاحب اپنے دفتری فرائض بھی نبھا رہے تھے ۔میرانی ڈیم کی پلاننگ ڈیزائینگ مکمل ہو چکی تھی تھوڑی بہت کاغذی کاروائیوں کے بعد ملک صاحب کا کام شروع ہونے والا تھا مگر انہی دنوں بیٹے کے گردے کا آپریشن بھی درپیش تھا جسے ٹالا نہیں جا سکتا تھا۔ ملک صاحب دفتر بھگتا کر ہسپتال آتے اور ڈاکٹروں کے ساتھ مصروف ہوتے ،کبھی کسی لیبارٹری میں کوئی ٹیسٹ کبھی کسی خاص ایکسرے کے لئے بیٹے کو لے کر جانا۔ لاہور کی ہر قسم کی لیبارٹریوں میں لے لے کر پھرے ،ساتھ اس کی تکلیف دیکھ دیکھ کر پریشان الگ رہتے، لیکن ہمت کے ساتھ دفتری فرائض بھی انجام دیتے رہے ۔جب نیسپاک کے ان کے کولیگز اور انتظامیہ کو بیٹے کی بیماری کی سنگینی کا علم ہوا تو انہوں نے ملک صاحب کو دفتر آنے سے روک دیا اور آرڈر جاری کردیا کہ انہیں دفتر حاضری کی ضرورت نہیں بلکہ وہ جس جگہ بھی بیٹھے ہوں وہی دفتر تصور کیا جائے۔ اگر عملے میں سے کسی کو ملک صاحب سے ضروری کام پڑ جائے تو اپنی فائل اٹھا کر ان کے گھر یا ہسپتال لے جائیں انہیں دفتر نہ بلایا جائے۔ یہ ایک فرض شناس افسر کی خدمات کا بہت بڑا اعتراف تھا ۔اس سے یہ سہولت ہوگئی کہ ملک صاحب پورا دھیان بیٹے کے علاج پر لگانے لگے۔ آپریشن ہوا ڈاکٹرز نے کامیابی کی نوید سنائی، کچھ دن ہسپتال رہ کر گھر لے آئے، سب بہت خوش تھے مگر دو ماہ بھی نہ گذرے تھے کہ نئے لگائے جانے والے گردے کو بیٹے کے جسم نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اور بڑی تیزی سے حالت میں خرابی آنی شروع ہوگئی ۔گھر والوں کی پھر سے ہسپتالوں لیبارٹریوں اور گھر کے درمیان دوڑیں شروع ہو گئیں ۔اس وقت تک میرانی ڈیم پر بھی ملک صاحب کا کام شروع ہونے کا وقت ہوچکا تھا۔ دفتر والے بیٹے کی صحتمندی کے انتظار میں تھے کہ اس کے بعد ملک صاحب نے سائیٹ پر جا کر اپنا کام کرنا تھا کیونکہ جب تک ملک صاحب اپنا کام کرکے اوکے رپورٹ نہ دیتے تب تک وہاں تعمیر شروع نہیں کی جا سکتی تھی، بڑے بڑے پروجیکٹ جن کی فنڈنگ ورلڈ بینک یا ایشین ڈیولپمنٹ بنک کرتا ہے انہیں مطمئن کرنا ہوتا ہے کہ اس بڑے پروجیکٹ کے بننے سے وہاں کا ماحول اور انسان متاثر تو نہیں ہوتے اور جو لوگ وہاں سے اٹھائے جائیں گے ان کی دوبارہ آبادکاری اور معاوضے کا معقول بندوبست کیا گیا ہے یا نہیں۔ اس رپورٹ کے بغیر وہ فنڈ جاری نہیں کرتے یہ بہت لمبا اور مشکل کام ہوتا ہے اکثر یہ کام کرنے والی ٹیم کی جانیں بھی خطرے میں پڑ جاتی ہیں۔ یہ کام ملک صاحب نے کرنا تھا قومی نوعیت کا یہ کام بھی سر پر تھا اور بیٹے کی حالت بھی بگڑتی جارہی تھی سارا خاندان پریشان تھا ملک صاحب سارا دن اور رات ہسپتال میں گذارتے کھانا پینا نیند آرام سب بھولا ہوا تھا اپنے اکلوتے جوان سال بیٹے کو اپنی آنکھوں کے سامنے ہاتھوں سے نکلتا دیکھ رہے تھے مگر بے بس تھے اس دوران انہوں نے پروجیکٹ پر اپنی بجائے کسی اور کی تعیناتی کا دفتر والوں کو مشورہ بھی دیا لیکن وہ نہیں مانے اور کام رکا رہا۔

پھر وہ دن آہی گیا جس کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی تھی مگر جو نہ رک سکا اور بیٹا اس منزل کا راہی ہوگیا جہاں پر جاکے پھر کوئی کبھی واپس نہیں آتا ہفتہ بھر گھر لوگوں سے بھرا رہا پھر آہستہ آہستہ سب چلے گئے کہ کسی کے جانے سے کار جہاں کہاں رکتا ہے گھر میں ملک صاحب اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ رہ گئے۔ اتنے بڑے صدمے نے کمر دہری کردی تھی ہر وقت گھر میں سوگ اور اداسی کی کیفیت رہتی، ایسے میں بیوی نے سوچا کہ ملک صاحب کے دفتر والوں نے ان کا بہت لمبا انتظار کیا ہے ان کی مہربانی کہ پروجیکٹ کا کام روک کر بیٹھے ہیں ملک صاحب اگر اپنے کام پر چلے جائیں تو ایک تو وہ اس افسردہ ماحول سے نکلیں گے دوسرے کام کی مصروفیت ان کا صدمہ کم کرنے کا باعث بھی بنے گی۔ یہ سوچ کر جب ملک صاحب سے بات کی تو وہ ایکدم حیرت زدہ ہوگئے کہ اتنے تازہ صدمے میں تمہیں اکیلا چھوڑ کر میں کیسے اتنی دور چلا جاؤں، مگر بیوی نے انہیں حوصلہ دلایا کہ گھبرانے کی بات نہیں ہم دونوں بھی تو مل کر روتے ہی رہتے ہیں ۔کم از کم دونوں میں سے ایک تو مصروف ہو تاکہ کچھ دل بھی بہل جائے اور ملک کا بھلا بھی ہو ۔بالآخر ملک صاحب کو قائل کر ہی لیا اگلے دن دفتر جا کر ملک صاحب نے بلوچستان جانے اور کام سنبھالنے کا ارادہ ظاہر کیا تو دفتر والے پہلے تو بہت حیران ہوئے پھر خوش ہوئے اور شکر گذار بھی کہ اتنے بڑے صدمے سے گذر کر بھی فرض منصبی کی بجا آوری پر تیار ہوگئے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اور یوں اپنے اکلوتے جوان بیٹے کی رخصتی کے دو ڈھائی ہفتے بعد ملک صاحب عازم بلوچستان ہوئے ۔وہاں تعمیراتی کمپنی ڈیسکون کے کیمپ میں رہائش رکھی، سکیورٹی کی خراب حالت کے پیش نظر گاڑیاں اور راستے بدل بدل کر سائیٹ پر پہنچتے اور رات کا اندھیرا پھیلنے سے پہلے کیمپ واپس آجاتے ۔پورے دو سال جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنا کام مکمل کیا ۔مہینے میں ایک بار دو تین دن کے لئے گھر آتے تھے وہاں سارا دن فیلڈ میں گھومتے اور رات کو آٹھ بجے دس منٹ کے لئے گھر پر کال کرکے خیریت بتاتے۔ اس سے زیادہ وقت کے لئے فون ہوتا نہیں تھا سارا دن گھر والے ان کی سلامتی کی دعائیں کرتے رہتے ۔رات کو جب فون آتا تو شکر ہوتا ملک صاحب سے بات کرتے ہوئے گہرے صدمے سے دُکھی دل کی آہیں سینے میں ہی دبا کر ان سے تسلی بھرے لہجے میں بات کرنا کسی کڑے امتحان سے کم نہیں تھا مگر گھر سے دور اس سخت ماحول میں رہنے والے فرض شناس انسان کو گھر کی پریشانیوں سے بے فکر رکھنا بھی تو ضروری تھا تاکہ وہ پوری دلجمعی سے اپنے فرائض منصبی ادا کرسکیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply