پاکستان میں کام کرنے والی ٹیلی کام کمپنیاں، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے حکم پر ایک بڑے پیمانے پر نگرانی کا نظام چلا رہی ہیں جو کسی ریگولیٹری میکانزم یا قانونی طریقہ کار کے بغیر صارفین کے ڈیٹا اور ریکارڈ کی نگرانی کررہی ہیں۔
یہ معلومات ان شہریوں کی نگرانی سے متعلق ایک کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم میں سامنے آئی ہیں جن کی نجی فون پر گفتگو ریکارڈ کی گئی اور بعد ازاں سوشل میڈیا پر جاری کی گئی، 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے دوران، سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ سمیت کئی آڈیو کلپس سوشل میڈیا پر وائرل کی گئی، جس کی وجہ سے یہ معاملہ عدالت لایا گیا۔

جسٹس بابر ستار کے تحریری فیصلے کے مطابق عدالت کو بتایا گیا کہ ٹیلی کام کمپنیوں سے کہا گیا تھا کہ وہ نامزد ایجنسیوں کے استعمال کے لیے ایک مقررہ جگہ (جسے ’نگرانی مرکز‘ کہا جاتا ہے) لافل انٹرسپٹ مینجمنٹ سسٹم (ایل آئی ایم ایس) کو ’خریدنے، امپورٹ اور انسٹال“ کریں، تاہم عدالت کو ان ایجنسیوں کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں