آزادی رائے، سوال کی حرمت اور ساحل عدیم/منصور ندیم

اصولاً تو اس موضوع پر اتنا کچھ لکھ دیا گیا  ہے کہ کچھ کہنے کے لیے سوائے ٹرولنگ کے اور کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا، لیکن سوچا کہ اپنا موقف بھی دیا جائے، مگر موقف دینا اتنا آسان نہیں ہے، آسان اس لیے نہیں رہتا کہ کسی بھی واقعے پر کوئی بھی حقیقی متوازن رائے دینا بہت مشکل ہو جاتا ہے، کیونکہ کسی بھی واقعے کے بعد سب سے پہلی جانچ ہر شخص کے لیے اس واقعے پر یہ اہمیت رکھتی ہے کہ واقعے میں موجود لوگ کس فکر کے حامل ہیں، اور انہیں کس فکر کے حامل کی ہر حالت میں طرفداری کرنی ہے۔ یہی فی الوقت ہمیشہ کا بنیادی طریقہ کار نظر آتا ہے، الا ماشاء اللہ ماسوائے چند لوگوں کے جو واقعے کے مخصوص پس منظر اور واقعے کی جزئیات کو دیکھ کر ان جزئیات پر متوازن رائے دیں، ورنہ واقعہ  میں موجود کسی شخصیت سے محبت کام کر جاتی ہے اور اسی بنیاد پر رائے بنے گی یا اس پر کی جانے والی تنقید پنسد کی جائے گی ، چاہے اس کا ڈھنگ یا اسلوب کیسا بھی رہے، کیونکہ فریقین میں سے جو فکری طور پر آپ کی رائے سے مطابقت رکھتا ہو تو وہ آپ کے لیے قابل قبول ہوگا۔

چند بنیادی باتوں میں سے پہلی بات تو یہ ہے کہ نا صرف سماء ٹی وی بلکہ ایسے ٹی  وی چینلز کے عمومی طور پر جتنے بھی ڈسکشن فورمز ہیں، ان پر ہونے والے پروگرام پلانٹڈ ہی ہوتے ہیں۔ ان کا مواد ان میں پوچھے جانے والے سوالات پہلے سے طے ہوتے ہیں ۔یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے، مگر اس کے باوجود بھی کسی متنازع شخصیت یا کسی متنازع واقعے کے بعد کئے جانے والے پروگرام میں جو سوالات رکھے جاتے ہیں، انہیں ہم دلچسپی سے دیکھنا چاہتے ہیں، اور ٹی وی چینلز کا بنیادی مقصد بھی ایسے ہی ایشوز کو پیش کرنا ہوتا ہے، جس کی بنیاد پر ہنگام بپا ہو اور انہیں ریٹنگ ملے۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی ایک ٹی وی چینل پر کبھی کوئی ایک مبصر آپ کے سیاسی لیڈر کو گلیمرائز کرتا نظر آئے تو آپ کے نزدیک بہترین ہوگا، اور اگر وہ آپ کے پسندیدہ لیڈر کو برا کہے تو وہ آپ کے لیے برا ہو سکتا ہے۔ یہی حال فکری و نظریاتی تصورات کے مباحث کا ہے۔

دوسری   یہ عرض   کرنی ہے کہ ساحل عدیم صاحب نے اسی برس پوری رمضان نشریات میں سماء چینل پر بہترین رونق لگائے رکھی تھی، انہوں نے بیک وقت مولوی حضرات کی ناک میں دم کئے رکھا اور چند ایک پروگرام میں انہوں نے لبرلز کو بھی خوب للکارا۔ ساحل عدیم صاحب کے بارے میں یہ تو نہیں کہتا کہ وہ کچھ نہیں جانتے وہ بہت کچھ جانتے ہوں گے لیکن مکالمے کا انداز ان کا بھی بہت جارحانہ بدتہذیبانہ اور انتہائی غیر مناسب رہتا ہے، وہ اپنے مخالف کے دلائل کو مذہبی بنیادوں پر ایسے رد کرتے ہیں کہ اگر آپ کوشش بھی کریں گے کہ ان کے دلائل کا سقم واضح کریں، تو ان کے جارحانہ انداز اور ان کی گفتگو آپ کو ایک ایسی سطح پر لے جائے گی، جہاں آپ کو توہین مذہب جیسے الزام کا سامنا ہوسکتا ہے، اس لیے کئی عقلمند لوگ ان کے سامنے ایسے فورم پر چپ ہو جاتے ہیں۔ حتی کہ وہ روایتی مولویوں کی بھی دھجیاں اڑا دیتے ہیں کیونکہ روایتی مولوی عموما کئی عصری بنیادی چیزوں سے مکمل بے خبر ہوتے ہیں اور یہ انہیں وہاں گھیر لیتے ہیں۔ مزید ساحل عدیم انہیں دین کا ذمہ دار سمجھا کر موجود تمام مسائل کی خرابیوں کا ملبہ بھی ان پر ڈال دیتے ہیں (اب یہ بھی کتنا درست اور غلط ہے یہ ایک علیحدہ بات ہے).

اب آ جاتے ہیں حالیہ موضوع پر، ساحل عدیم صاحب نے ایزی پروگرام میں یہ فرما دیا کہ پاکستان میں 95 فیصد عورتیں جاہل ہیں، ظاہر ہے اس پر ایک غلغلہ مچنا ہے، غلغلہ مچا تو سما ٹی وی کے پاس ایک بہترین موقع تھا انہوں نے اگلے پروگرام میں اسی ایشو پر طے شدہ پروگرام کر دیا، اس میں سوال پوچھنے والی لڑکی نے سوال تو درست پوچھا کیونکہ ہمارے ہاں مسئلہ یہ آگیا کہ سوال کی حرمت پر بات کی جائے، بلا شبہ آزادی رائے اور سوال کی حرمت کی اہمیت اپنی جگہ ہے اس سے تو انکار کرنا ناممکن ہے۔ لیکن اگر آپ کسی سے سوال پوچھ رہے ہیں تو  آپ کس انداز میں سوال پوچھ رہے ہیں یہ بہت اہمیت رکھتا ہے، اور جواب دینے والے سے معافی کی طلبی نہیں کی جاتی، بلکہ جواب میں آپ صرف اس موضوع پر استفسار قائم رکھیں، ساحل عدیم کو جواب دینے کا پورا موقع دینا چاہیے، چاہے وہ کتنا ہی غیر ضروری جواب دے رہے ہیں، لیکن یہ بھی نہیں کیا گیا، اور اگر آپ کی پسند کا جواب نہیں مل رہا، یا آپ سمجھتے ہیں کہ وہ جواب آپ کے سوال کا درست جواب نہیں ہے۔ تب بھی آپ درست انداز میں ہی اسے رَد کر کے اپنے موقف پر بات کر سکتے ہیں، بجائے یہ کہ آپ دوسرے کے ساتھ بدتمیزی کریں۔ یہاں ساحل عدیم صاحب کی کہی گئی بات ایک علیحدہ موضوع ہو جاتی ہے اور اسی پر پوچھے جانے والے سوال کے انداز اور اس کے رد کو جارحانہ انداز میں پیش کرنے پر کی جانے والی بات بھی ایک الگ معاملہ ہے۔ جو کہ دونوں ہی غلط تھے۔

ایک غیر ضروری بحث کا آغاز ہوا، سوشل میڈیا پر ایک اور غیر ضروری مناظرے کے دو طرفہ فریقین کو جنگ و جدل کا بہترین موقع ملا، بیسیوں ڈی پی بدل گئی ہیں کئی جگہ ساحل عدیم لگ گئے اور بیسیوں ڈی پی پر سوال پوچھنے والی محترمہ کی تصویر لگ گئی۔ ایک انتہائی غیر ضروری موضوع پر اتنا ہنگام بپا جب کیا جائے تو آپ کسی بھی موقف کی طرف جانے کے بجائے، اگر سمجھدار ہیں تو Mubashir Akram کی طرح دونوں اطراف کے لئے ٹرولنگ ہی کرسکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

آخری بات نہ ہی ہمیں ساحل عدیم اچھے ملے ہیں، اور نہ ہی سوال کی حرمت والی موصوفہ کا طریقہ قابل تقلید ہے۔ ساحل عدیم کے کئی مضحکہ خیز پروگرام میں دیکھ چکا ہوں، مگر یہ جان لیں گے کسی فورم پر اگر کوئی شخص بیٹھا ہوا ہے وہ رد عمل میں کیا کہہ رہا ہے اور کیا کر رہا ہے اس سے آپ کی بدتمیزی اور بدتہذیبی جسٹیفائی نہیں ہوگی۔ سوال کرنے والی محترمہ کے پاس بہترین سوال تھا، اگر وہ اچھے طریقے سے مکالمہ کرتی تو یہ فیصلہ سامعین اور ناظرین تک پہنچ جاتا۔ وہ بہترین فیصلہ کر سکتے تھے، لیکن یہاں آزادی رائے اور سوال کی حرمت بھی ایک مزاق بن جاتی ہے اور مذہبی حلقوں کی شدت پسندی بھی انسانوں کے لئے جان لیوا ہی ہے۔
اس لئے ہم سے ایسے موضوعات پر صرف ٹرولنگ کی توقع ہی رکھیں۔
رہے نام اللہ کا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply