اُردو سفرنامہ نگاری چُھوت چھات کی وہ بیماری ہے ،جو قرنطینہ کُجا خلا میں بھی اُڑ کر کسی شریف آدمی کو لگ سکتی ہے۔ اور ایسی کہ چنگا بھلا بندہ بیٹھے بٹھائے پروفیسرہو ہو جائے۔ پھراُسے جو دن دیہاڑے نہیں سُجھائی دیتا وہی شب یلدہ میں دکھائی دینے لگتا ہے۔ پھر چاہے تووہ ذاتی “سواہنی” کوبھِت کی چوکھٹ پر بٹھا کراُس کی سِری سےلیکیں اور مِین میخیں نکال سکتا ہے۔ ڈاکٹر محمد صغیر خان جماندروُ شریف اورآکھے لگ بندہ ہے۔ تینوں وقت ہاتھ دھو کر کھاتا ہے، صبح سویرے بلاناغہ چِٹّـے صابون سے منہ دھوتا ہے۔ جس سے تمّـی میں ناڑا ڈالتا ہے، اُسی ٹوتھ برش سے دانت مانجھتا ہے۔ شلوار قمیض کی کریز سے اپنی استری شدہ کریزکونئی دھار لگاتا ہے۔ نکلنے سے پہلے گھر کی دہلیز پر تین بارجُوتا جھاڑتا ہے، پھر نکلنے کی راہ تاڑتا ہے۔ اس کے باوجود نجانے کیسے اُسے سفرنگاری لاحق ہو گئی ہے۔۔۔ نہ نہ کرتے دو پورے،تین چارادھورے سفر نامے لکھ چکا ہے۔ ماروے قہاریے۔
میری دلی خواہش تھی کہ فلاسفر بنے لیکن وہ مسافر بن گیا ۔۔۔۔ مرضی اُس کی اور اُس کے اوپر والوں کی۔ اُس کا تازہ ترین سفرنامہ “قدم قدم ” کے نام سے چوکڑیاں بھر رہا ہے۔ ویسے میں نے اُسے جب پہلی بارماں بولی میں “ڈڈاتے” دیکھا تو سوا روپے کی “یاہرمی” اُسی وقت دے دی۔ بعد میں احساس ہوا کہ میں نے جلد بازی میں قدم اٹھا لیا،وہ ابھی ادب کے میدان میں کُدکڑے بھرنے جوگا شاید نہیں ۔ لیکن اُس کی وہی پیش قدمی آج “قدم قدم” کی شکل میں میرے لئے نقشِ پا ہے۔ میرے غلط اندازوں کے مطابق اُسے زیادہ سے زیادہ چھوٹا موٹا سیاسی راہنما ہونا تھا،بھٹک گیا۔ دیکھتے دیکھتے اُس نے اتنی کتابیں لکھ ماریں کہ اُنگلیوں پر گنتی بھول جاتا ہوں ۔ اور پوری ادبی دیانتداری کے ساتھ معترف ہوں کہ اُس کی کمزور ترین تصنیف بھی میری بہترین سے کہیں بہتر ہے۔ اور یہ کام اور مقام دھکّے مُکّے سے نہیں اخلاص اورعرق ریزی سے ہوتا ہے۔
آج محولہ سفرنامے کی ورق گردانی کرتے ہوے جب میں نےمجموعہ کی آخری تحریر بعنوان “ایک سفر۔۔۔۔ مگر” پڑھی تودوبارہ پڑھنے کو جی چاہا۔ بیٹھے بٹھائے چاربارپڑھ لی۔ ایسا نہیں کہ وہ اپنی سمجھ میں نہیں آرہی تھی یا کوئی غیرمعمولی تحریر تھی۔ لیکن اُس میں ایک خاص بات تھی ۔ وہ یہ کہ سطر سطر مجھے نِکّی بے جی چلتی پھرتی دکھائی دے رہی تھیں ۔ وہاں ڈاکٹرصغیرتھا ، مُنّا ، بھینس نہ کوئی اور۔ سارے منطر اور پس منظر میں نِکّی بے جی تھیں ۔ چلتی پھرتی، کھانستی، ہانپتی ، ڈانٹتی۔ پوری کائنات میں بسی کُبّی،ٹیڑھی ، ونگی بے جی اور بس۔اس تحریرسے گذرنے کے بعد میرا جی کرتا ہے کہ اُس مُنّـے کو پکڑ، چھیل چھانٹ کرادھیڑعمری سے اُس عمرمیں لا کھڑا کروں،جس میں ایک اور “مُنّا” ہوا کرتا تھا۔اوراُس بیگانے مُنّے کوماں اپنے دوہتوں پوتوں کی طرح ڈانٹتی چھانٹتی تھیں۔ میں اب اس مخمصے میں ہوں کہ پچھلی چھ منتخب تحریروں کوترتیب میں کہاں کہاں رکھوں؟۔وہ مُنّا بھی بوڑھا ہو گیا ہے لیکن ہم اُسے اُسی نگاہ سے دیکھتے ہیں ، جس سے ماں دیکھا کرتی تھیں۔ اگر فنّی نقطہ نگاہ سے اس تحریر کو دیکھوں تو یہ مُنّے کا خاکہ ہے، جس میں ماں کا ترحم ہے، بہںں بھائیوں کا ایک بیگانے مگرمعصوم بچّے سے التفات ہے ،انسانیت ہے۔ یہ تحریر میرے نزدیک قصّہ کہانی سے کہیں اوپر کی شے ہے۔ اور اس کاواحد سبب یہ ہے کہ اس میں چلتی پھرتی بے جی بھی موجود ہے۔
صاحبو! سفرنامہ نگاری کوئی شرعی مجبوری نہیں، سراسر”کُھرک” ہے۔ اور کُھرک بھی وہ جو اختیاری ہو۔ چاہے تو بندہ ماں بولی میں بآسانی “گَیں ریں”(ادھراُدھر) بھی کر سکتا ہے۔ لیکن ڈاکٹر صغیر خان جیسے جدھر جاتے ہیں “کِھنگرا بردار” جاتے ہیں ۔ جہاں کبھی کُھرک نہ لگی ہو،وہاں بھی لگا لیتے ہیں۔ “قدم قدم ” کے مصنّف کو دبئی کا دورہ پڑا تو وہ ابوظبی جا پہنچا۔ وہاں سے اپنی قبیل کے یاروں کے ساتھ متحدہ عرب امارات کے ریگ مہاساگر میں جا اُترا۔ معلوم ہوا ریت کے ٹیلوں پر چڑھ کر پتنگ کی ڈور سے چاند “نیڑانے”کے جتن کررہے ہیں ۔ ارے بھائی ! یہی کرنا تھا تو اپنے پاسے جگہ جگہ “کُکّو کی نکّیاں “پائی جاتی ہیں ،ہر گھر میں “چہانفیں ” اور”نیڑانے” کے لئے کھونٹیاں ہیں ،اورمور اوور کے طور پر اپنے وہاں کے چاند بھی نسبتاً اصیل۔ ہوسکتا ہے ایک آدھ “ہا” سے ہی “تراہ” کھا کر جھولی میں آن گرے۔ پھر “دے اللہ لولی ” وغیرہ۔
سفرنامے کی ایک الگ سی جہت ملاحظہ کریں:
“۔۔۔۔ کافی وقت گذرنے کے باوجود اب بھی چناب کی موجیں اور سوچ کی فوجیں جو کبھی کبھی مجھے اٹھا بھگا کروہاں پہنچا دیتیں جہاں ہم اُس رات تھے۔ وہ مختصر سا سفر، دلچسپ ہم سفر، تیزی سے بدلتا موسم، راجہ انور کی باتیں ، کلرسیداں چوک پنڈوری سے گزران۔ دریائے چناب کی لہریں، عشق کی حدتیں شدّتیں،سوہنی مہینوال کی یادیں۔۔۔۔۔ مخدوش حالات مگر ماں بولی سے ماں پُتروں کی محبت۔۔۔ یہ سب ملا کر ایک حسین خواب سا بن بُن گیا ہے، جومیری یاد کی پوٹلی میں سدا سینتا سنبھالا رہے گا اور قدم قدم میری راہنمائی کرتا رہے گا۔۔۔۔”

“قدم قدم” میں قدم قدم پر یہی سفری جہیڑے ہیں ، جو قاری کے قدم روک لیتے ہیں ، بندہ بے بس ہوکر مسافرکی اُنگلی تھام لیتا ہے ۔۔۔ جِیویں تری مرضی نچا بیلیا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں