گزشتہ پوسٹ میں ہم نے دیکھا کہ عین صوف Ein Sof کا لامحدود خدا ایک توانائی یا انرجی ہے جس کی کوئی شباہت/ ہیئت Form یا صفات ممکن نہیں۔ ایک کمنٹ میں انفنٹی کو ریاضی کی لامحدودیت سے ملایا گیا جو درست نہیں، فلسفہ الیہات میں لامحدودیت جدا ہے، مثلا ًیہاں دو اضداد بھی متحد ہو سکتی ہیں جو ریاضی کی انفنٹی میں ممکن نہیں۔ جیسے نور کو ظلمت/تاریکی کی ضد مانا جاتا ہے، مگر جب خدا کو نور کہا جائے، اس منطق سے اس میں یہ نور مراد نہیں جو ظلمت کی ضد ہے بلکہ اس میں ظلمت بھی نور ہے، اسی منطق پر علم کلام کا بڑا حصہ استوار ہے۔ ایک آسان مسییحی مثال تثلیث trinity ذہن میں آتی ہے۔
ایک اور ذکر ہوا تھا لیوتھین/اژدھا/ناگ جس نے دنیا کو لیپٹ رکھا ہے، ہندوستانی حساب سے راہو/کیتو north /south nodes ہیں۔ ہماری طرح یہودی بھی ستاروں اور نجوم کے حساب میں اس کا استعمال کرتے ہیں۔
کتاب ظہور کہتی ہے کہ عین صوف میں اس نے ایک ‘آسمانی انسان’ کا خاکہ بنایا، یہ آدم ایلیا Adam Kadmon/Elyon کہلاتا ہے، جو ابھیEin Sof سے الگ نہیں کیونکہ ابھی تخلیق کا مرحلہ نہیں آیا کہ عین صوف تومحض توانائی کا مقام بلکہ ‘لا’ مقام ہے۔ یہاں ابھی وجود ہی غیر موجود ہے۔ ارسطوئی فکر کے حساب سے یہ ابھی پوٹینشل potential ہے، ایکچوئل نہیں۔
عالم اوّل Atzilut صدور کا عالم ہے، یہاں نور کی تجلی سے آدم ایلیا کے خاکہ پر “آدم ہاریشون” کا صدور emanate ہوا، یہ والا انسان منبع سے جڑی ہوئی روشنی ہے، اس کا تاحال ‘وجود’ نہیں یہ بنی نوع انسان کا تصور ہے یا اسے علم کلام اور ابن سینا کی فکر کے حساب سے جوہر essence کہا جا سکتا ہے۔
دوسرا عالم Beriah ہم نے گزشتہ پوسٹ میں پڑھا کہ وہ تخلیق کا عالم ہے، جہاں انسان کی تخلیق ہوئی، یہ اصل میں وہ تصور ہے creatio ex nihilo ۔ یعنی عدم سے وجود میں آنا۔ تخلیق کا عبرانی لفظ Beriah ہے۔ اور شریعت موسوی کے مطابق یہ عرش الہی کا مقام ہوا۔ یہ نوفلاطونیت اور مسلم تصوف والی ‘الوہی عقل’ کا دائرہ ہے۔
تیسرا اور اس سے اگلا عالم یتزیراہYetzirah ہے،جو کہ تشکیل کا مقام ہے اور جس کتاب پر کچھ بات کا ارادہ تھا مگر تمہید کچھ طویل ہوتی گئی۔ جیسے اب یہاں قبالہ سے وقفہ لے کر افلاطون کا فلسفہ دیکھتے ہیں، جس میں عالم امثال کا ذکر ہے، وہ کہتا ہے کہ ہماری اس مادی دنیا کی ہر شئے عکس ہے، ان اعکاس کے اصل مثالی/اعیان Ideasکی دنیا میں ہیں۔ عالم اعیان یا عالم امثال جو مادی نہیں۔
افلاطون نے ایک گھوڑے کی مثال دی کہ اس دنیا کا ہر گھوڑا اس اصل گھوڑے کا عکس ہے جو کہ عالم اعیان میں ہے۔ ہم انسان بھی اعکاس ہیں اور اصل اسی آدم ہاریشون کی طرح ایک عالم امثال یا عالم اعیان میں موجود ہے۔ یہ اس کی معروف غار والی تمثیل کا خلاصہ ہے۔ مثالی/حقیقی گھوڑا، مثالی/حقیقی انسان، مثالی اشیا جیسے ایک ٹرائی اینگل صرف عالم امثال میں ہیں، یہاں صرف حقیقی اشیا کے عکس ہیں، ہماری رسائی حقیقت تک محض عقل سے ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے افلاطونی فکر کو عالم امثال کی نسبت سے مثالیت یا اسی کے دوسرے لفظ عالم اعیان کی نسبت سے عینیت کہا جاتا ہے، عین کا منطق اور استدلال میں اور بھی مفہوم ہے۔
افلاطون بذریعہ سقراط اس کو فہم و فراست کا نام دیتا ہے کہ ہماری روح جب عالم nous میں تھی تو اس نے وہاں حقیقی اشیا دیکھیں، اسی لیے ہم باتیں بدیہی/پیدائشی طور پر جانتے ہیں، یہ چند برس قبل افلاطون کے ایک مکاملہ ‘مینو’ کی تلخیص میں میں نے لکھا تھا کہ دانشور اور فلسفی حواس کی بجائے عقل سے ان اشکال/اعیان سے رابطہ کرتے ہیں۔ اور علم بنیادی طور پر recollection کا نام ہے۔
اب یتزیراہ کا آغاز کرتے ہیں، جس کی تفصیلات کلامی ہیں جن میں حروف اہم ترین ہیں۔
کائنات کی تشکیل/تخلیق کے ۳۲ راستے ہیں، ایک خدا ئے واحد نے ۳۲ مختلف راستوں سے یہ عمل مکمل کیا۔
ان ۳۲ راستوں میں سے ۲۲ حروف ہیں – (یاد رہے عبرانی میں ۲۲ ہی حروف تہجی ہیں اور اسلام جب آیا تو عربی میں بھی ۲۲ ہی حروف تہجی تھے نیز عبرانی و عربی کے ابجد ، ہوز، حطی یعنی ا، ب ، ج، د، ہ و، ز ۔۔۔یہ سب ایک ہیں۔)
۲۲ حروف کے بعد بقیہ دس اعداد ہیں۔ عبرانی کا علم الاعداد numerology قبالہ میں ‘گیمطریا’ Gematria کہلاتا ہے۔ دیسی عاملین کی طرح حروف سے ماورائی قوتوں سے پیغام رسانی کی جاتی ہے جس وجہ سے قبالہ کو خفیہ رکھا جاتا رہا۔
قبالہ میں سفلی علوم “تیمورا”کہلاتے ہیں، جن میں تالمودی آیات کے معنی و مفہوم کو شیطانی بنا دیا جاتا ہے، یہ ایک پیچیدہ cryptographical عمل ہوتا ہے، جس کی ڈی کوڈنگ شیطانی عمل کرنے والا یا جسے وہ مخاطب کر رہا ہے، وہی کر سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں اس سے ملتا جلتا عمل الٹا قرآن پڑھنے سے کیا جاتا ہے۔
قبالہ میں مخفف اہم ہیں، انہی کی ایک شکل ہمارے تعویزات میں ملتی ہے، جہاں بجائے مکمل الفاظ کے انہیں حروف میں توڑ دیا جاتا ہے، اسے نوٹیریکن (Notarikon کہتے ہیں۔
چلتے چلتے جیسا پہلی پوسٹ میں ذکر کیا کہ یہ حضرت ابراہیم کو دنیا کا پہلا آسٹرولوجر مانتے ہیں اور اس حساب سے صحف ابراہیمی کو آسٹرولوجی، عملیات اور ٹیرو ریڈنگ کی بنیادی کتاب ۔ سناتن میں جیوتش ویدوں کی آںکھ کہلاتی ہے، جیوتش کا مطلب ہی روشنی/جیوت ہے۔ جیوتش ہٹا کر سناتن کی عمارت زمین بوس ہو جاتی ہے۔ یہاں یہی حال قبالہ کا ہے۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں