2- خشت و آئینہ
سال : 1964
عالمی نام: Brick and mirror
ہدایت کار: ابراہیم گلستان
*ہدایت کار کا مختصر تعارف*
ابراہیم گلستان ایرانی سینما کی نئی لہر کے اہم ترین قائدین میں سے ایک ہیں ـ ،وہ فرنچ نظریہ “قلم -کیمرہ” کے علم بردار تھے ـ۔ انہوں نے ایرانی لوک داستانوں کو جدید زاویہ نگاہ کے تحت فلمی اسکرپٹ میں ڈھالا ـ ،فیمنسٹ ایرانی شاعرہ فروغ فرخ زاد سے مل کر فارسی فلم کے خلاف بھی انہوں نے بھرپور تحریک چلائی ۔ـ
انہوں نے 1960 کو مختصر دورانیے کی فلم “یک آتش” بنائی ـ اس فلم نے وینس فلم فیسٹول میں مختصر دورانیے کی بہترین فلم کا ایوارڈ حاصل کیا ـ یہ ایران کی وہ پہلی فلم بنی جس نے کسی بین الاقوامی مقابلے میں انعام حاصل کیا ـ اس دوران وہ مضامین، افسانے اور فلمی اسکرپٹ لکھتے رہے ـ ان کی تحریروں نے نوجوان فلم سازوں کی بڑی تعداد کو متاثر کیا ـ۔ابراہیم گلستان نے 1964 کو “خشت و آئینہ” (Brick and Mirror) نامی فلم کو ہدایات دیں جو ایران میں ایک نئے سینما کا نکتہِ آغاز ثابت ہوئی ـ
ابراہیم نے اس کے بعد بھی متعدد فلمیں بنائیں ـ وہ چوں کہ نظریہ “قلم – کیمرہ” کے علم بردار تھے۔ اس لئے ان کی فلموں پر افسانوی چھاپ گہری ہے ـ وہ کردار کی شخصیت کو اس کی مکمل جزئیات کے ساتھ پیش کرتے ہیں، اسی طرح ان کی فلموں کے ماحول اور مکالمے بھی ایک فکشن رائٹر کا پتہ دیتے ہیں ـ وہ ایڈیٹنگ کے شعبے میں سوویت فلمی نظریہ دان و ہدایت کار سرگئی آئزنشٹائن کے مقلد تھے مگر ان کے مونتاژ میں ایک فرق بھی نظر آتا ہے ـ گلستان کلاسیک ایرانی شاعر شیخ سعدی سے بے انتہا متاثر تھے، ان پر سعدی کا اس حد تک اثر تھا کہ انہوں نے سعدی کے اشعار کی تقطیع کے تحت اپنی فلموں کو مونتاژ سے گزارا ـ سعدی اور آئزنشٹائن کی مشترکہ تقلید کے باعث ان کی فلمیں اپنے دیگر ہم عصروں کی نسبت منفرد نظر آتی ہیں ـ۔
انہوں نے نہ صرف سینما بلکہ ایران کی فارسی فکشن پر بھی انمٹ نقوش مرتب کئے ـ ان سے متاثر ہدایت کاروں میں ایک اہم نام عالمی شہرت یافتہ ایرانی ہدایت کار عباس کیا رستمی کا بھی ہے ـ
ایرانی سینما اور ادب پر دور رس اثرات مرتب کرنے والے اس نابغہِ روزگار انسان نے سو سال زندگی گزاری ـ وہ 23 اگست 2023 کی شام خودساختہ جلاوطنی کے دوران لندن میں فوت ہوگئے ـ ان کی وفات پر ایران کے تقریباً تمام بڑے بڑے شہروں میں تقریبات منعقد کی گئیں اور ان کے کام کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا ـ
فلم پر تبصرہ
“خشت و آئینہ” فارسی فلم کے جھمگٹے میں ایک منفرد ایرانی فلم ہے ـ اس فلم میں کہانی گوئی کے ایرانی کلاسیک اور ماڈرن یورپی ادبی انداز کا حسین امتزاج نظر آتا ہے ـ جمپ کٹ تکنیک کے استعمال سے تصاویر کو نئے نئے زاویے دینے کی کامیاب کوشش بھی نظر آتی ہے ـ
یہ بنیادی طور پر تین افراد کی کہانی ہے ـ ایک مرد ٹیکسی ڈرائیور، اس کی گرل فرینڈ اور ایک نومولود بچہ ـ ٹیکسی ڈرائیور کو رات کی تاریکی میں ایک خاتون مسافر ملتی ہے جو منزل پر پہنچ کر اس کی ٹیکسی میں شیر خوار بچہ چھوڑ جاتی ہے ـ آگے کی پوری کہانی اس بچے کے گرد گھومتی ہے ـ یہ مگر ایک سپاٹ اور سیدھی داستان نہیں ہے بلکہ بچے کو مرکز بنا کر سماجی و سیاسی نظام پر پیچیدہ فلسفیانہ مباحث کے ذریعے کہانی آگے بڑھتی ہے ـ اس کہانی میں حزن و ملال، تنہائی، خوف، بے حسی اور سماجی بیگانگی جیسے موضوعات بکھرے ہوئے ملتے ہیں ـ۔
شاہ ایران جو خود کو ایشیا کا سپرپاور سمجھتا تھا اور اس کے مطابق ایران ایک ترقی یافتہ ملک بننے کی راہ پر گامزن ہے، فلم میں اس کے اس دعوے پر گہری چوٹ کی گئی ہے ـ شاہ کی روشن فکری کے مصنوعی پن اور اس کے معاشی دعووں کی قلعی کھولی گئی ہے ـ ملک کے سب سے بڑے پرہجوم شہر تہران کے باسی بھیڑ میں بھی اذیت ناک تنہائی کا شکار ہیں ـ انہیں ایک دوسرے پر کوئی اعتماد نہیں ـ ہمسائے ایک دوسرے کی کم زوریوں کی ٹوہ میں رہتے ہیں ـ پڑوسی ایک دوسرے سے خائف ہیں ـ
سماج جہاں ایک خوف ناک بحران کا شکار ہے، انسان بیگانگی کی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں وہاں دانش ور طبقہ اس بحران سے بے نیاز کیفے میں بیٹھ کر فضول اور لایعنی مباحث میں الجھ کر اسے عقل و دانش کے اہم موضوعات گردان رہا ہے ـ
فلم میں مختلف کردار آتے ہیں ـ پولیس جنسی گھٹن اور “حرامی” بچوں کی بڑھتی تعداد کو کوئی مسئلہ سمجھنے کے بجائے بے زار نظر آتی ہے ـ عدالتی عملہ شہریوں کے مشکلات کا ادراک کرنے کی صلاحیت کھو چکا ہے ـ معصوم بچے ریاستی عدم توجہی کا شکار ہوکر بس پل رہے ہیں ـ۔
24 گھنٹوں پر مشتمل اس کہانی میں بس تاریکی اور مایوسی ہے ـ امید کا کوئی سرا نظر نہیں آتا ـ حتی کہ مایوسی کے بھنور میں پھنسے انسانوں کو نجات تک کی بھی کوئی امید نہیں ـ مرد و زن ایک دوسرے کی گرم آغوش میں بھی تسکین نہیں پاتے ـ جنسی عمل بوجھ بن جاتا ہے ـ۔
اس فلم کی ریلیز کے بعد ایرانی دانش ور طبقے نے اسے آڑے ہاتھوں لیا ـ عالمی شہرت یافتہ ایرانی ادیب احمد شاملو نے بالخصوص اس فلم پر شدید لفظی گولہ باری کی ـ انہوں نے ابراہیم گلستان کو جنسی بیمار اور مایوس روح کا خطاب دے کر فلم کو کُلی طور پر مسترد کردیا ـ تقریباً وہ تمام اہم ادبی شخصیات جو فارسی فلم کے مخالف تھے انہوں نے اس فلم کو کوڑے کے نام سے پکارا ـ۔
فروغ فرخ زاد کی طرح ابراہیم گلستان کو بھی سمجھنے میں وقت لگ گیا ـ چند سالوں بعد اس زمانے کے نسبتاً غیر اہم ناقدین نے فلم پر تنقید کرکے اس کی منفرد تکنیک، مضبوط پلاٹ اور سماجی مسائل پر گہرے تفکر کی نشاندہی کی ـ رفتہ رفتہ ثابت ہوا کہ “خشت و آئینہ” گھٹا ٹوپ اندھیرے میں جلنے والا چراغ ہے ـ ایک نئے عہد کا پیغامبر ـ قدیم اور فحش سینما کا گورکن، تخریب کار اور جدید سینما کا داعی ـ
آج اس فلم کو ایرانی سینما کے موجِ نو کا بانی قرار دیا جاتا ہے ـ ابراہیم گلستان کو برگمن، اکیرا، ستیہ جیت رے اور فلینی جیسے نابغہ روزگار ہدایت کاروں کی صف میں شمار کیا جاتا ہے ـ بلاشبہ “خشت و آئینہ” ایک ماسٹر پیس ہے ـ۔
امریکی ناقدین کے مطابق اس فلم کو ایرانی سینما میں وہی حیثیت حاصل ہے جو امریکہ میں “سٹیزن کین” کو یا جاپان میں “سیون سمورائی” ـ جوناتھن روزنبام کے بقول “اس فلم کو سمجھانا جتنا مشکل ہے سمجھنا اتنا ہی آسان، یہ اپنے سماج کا بہترین نباض ہے” ـ۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں