مصحفِ صنعا اور تحریفِ قرآن کا دعویٰ/ابو الحسین آزاد

قصے کا آغاز کچھ یوں ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کا دعوتی مکتوب کسریٰ کے پاس پہنچا تو اُس نے غصے سے اُسے چاک کر دیا اور یمن میں اپنے گورنر باذان کو حکم دیا کہ اِس مدعیِ نبوت کو گرفتار کر کے میرے پاس بھیجو۔ باذان کے قاصد رسول اکرمؐ کے پاس پہنچے تو آپؐ نے اُنھیں اطلاع دی کہ کسریٰ کا انتقال ہو چکا ہے۔ یہ دونوں واپس باذان کے پاس چلے گئے، اس واقعے کے کچھ دنوں بعد باذان اور یمن کے دیگر بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کر لیا۔ نبی کریمؐ نے اُن کے پاس حضرت معاذ بن جبل کو تعلیم کے لیے بھی بھیجا اور اُنھیں صنعاء شہر میں باذان کے باغیچے میں ایک مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ نبی علیہ السلام نے اُس مسجد کے قبلے کا رُخ بھی بتایا کہ اسے ضین نامی پہاڑ کی طر ف رکھنا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آج سیٹلاٹ سے اُس مسجد کی محراب اور ضین پہاڑ سے گزرتا ہوا مستقیم خط کھینچا جائے تو وہ سیدھا کعبہ کے وسط میں پہنچتا ہے۔

بہرحال صنعاء کی یہ مسجد الجامع الکبیر صنعاء کے نام سے مشہور ہے۔ 1965ء میں یہاں شدید بارشیں ہوئیں جس کی وجہ سے مسجد کی چھت ایک جگہ سے گر گئی۔ مرمت کے لیے چھت کو مزید کھولا گیا تو نچلی چھت اور اوپر والی چھت کے درمیان ایک کمرہ سا تھا جس سے ہزاروں کی تعداد میں مخطوطات اور صحیفے نیچے گر پڑے۔ یہ کوئی 4500 کے قریب قرآنی نسخے تھے جو مختلف صدیوں کے دوران لکھےگئے تھے۔ غالباً

اِن میں سے جو جو نسخے قدرے بوسیدہ یا شہید ہوتے گئے اُنھیں مسجد کی چھت میں جمع کیا جاتا رہا ہوگا۔ بہر حال اِس واقعے کے بعد مغرب سے بہت سی ٹیمیں اِن مصاحف کے مطالعے کے لیے پہنچیں اور جرمنی نے بھاری سرمایہ خرچ کر کے محققین کو کام پر لگایا۔ اِن نسخوں میں سے ایک انتہائی پرانا نسخہ بھی نکلا جس کے متعلق کاربن ڈیٹنگ سے یہ اندازہ لگایا گیا کہ یہ پہلی صدی ہجری کا ہوگا۔

چمڑے کے کاغذ پہ لکھا گیا یہ مصحف جسے مصحفِ صنعا یا مخطوطۂ صنعا کہا جاتا ہے اِس کی دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں دوہری تحریر لکھی گئی ہے۔ نیچے ایک تحریر ہے جسے مٹا کر اوپر دوسری تحریر لکھی ہوئی ہے البتہ نیچے والی تحریر کو بھی پڑھا جاسکتا ہے۔ اوپر والی تحریر تو قرآن کے موجودہ نسخوں کے مطابق ہے البتہ نچلی تحریر میں سو سے کچھ اوپر مقامات میں بعض کلمات مختلف انداز میں لکھے گئے ہیں۔ یہ اختلاف ایسانہیں جس سے معنی میں فرق پڑے بلکہ و ، ف، علیہ، فیہ ، ذلک، کذلک اور اسی طرح بعض مترادف الفاظ کے اختلافات ہیں۔ چوں کہ پہلے پہل اس مصحف تک مستشرقین کی رسائی ہوئی چناں چہ مشنری اور تنصیری حلقوں نے اِس پر بہت واویلا مچایا کہ قرآن کا ایک ایسا نسخہ ملا ہے جو کہ موجودہ قرآن سے مختلف ہے۔جسے بعد میں کسی نے موجودہ قرآن کے مطابق کرنے کی کوشش کی ہے لہذا مسلمانوں کا یہ دعویٰ کہ قرآن محفوظ ہے درست نہیں، ماضی کا قرآن اور تھا اور آج کا قرآن اور ہے۔

اس پروپیگنڈے کے بعد یہ مخطوطہ دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بن گیا اور بہت سے مستشرقین نے اِسے تحقیق کا موضوع بنایا۔ ازاں بعد یہ مکمل چھپ کر بھی سامنے آگیا۔ ایک ستم ظریفی یہ بھی  دیکھیے کہ مغربی تحقیقی ٹیموں کے برعکس جب ڈاکٹر مصطفیٰ اعظمی اِس نسخے پر کام کرنے صنعاء گئے تو اُنھیں صرف دو اوراق ہی دکھائے گئے، بقیہ مصحف تک رسائی نہیں دی گئی۔

فرانس کی ایک جامعہ کی طرف سے تحقیق پر مامور ڈاکٹر اسماء ہلالی نے اِس موضوع پر آرٹیکل چھاپا اور باقاعدہ کتاب بھی تصنیف کی۔ اُن کے بعد ڈاکٹر سامی عامری نے بھی اِس پر تفصیل سے کام کیا اور اُن تمام مستشرقین اور مسلم محققین سے ملاقاتیں کیں جنھوں نے اِس نسخے پہ کام کیا تھا۔ ڈاکٹر عامری نے طویل ریسرچ کے بعد اس پہ مضمون بھی لکھا اور یوٹیوب پر تفصیلی ویڈیو بھی اپلوڈ کی۔

اِن دونوں محققین کی تحقیق کا حاصل یہ ہے کہ یہ مصحف دراصل ایک مشقی کاپی تھی جس پر قرن اوّل کا کوئی بچہ قرآن کا سبق لکھ کر اُسے یاد کرتا تھا۔ اب جہاں کہیں اس بچے سے غلطی ہو جاتی وہ اسے صاف کر کے دوبارہ اوپر درست لفظ لکھ دیا کرتا تھا۔اپنے موقف کی تائید میں ڈاکٹر اسماء ہلالی مندرجہ ذیل دلائل دیتی ہیں:
1۔ آیات کی عبارتیں آڑھی ترچھی لکھی گئی ہیں، بعض سطروں میں کم الفاظ ہیں بعض میں قدرے زیادہ، اسی طرح خط بھی پختہ یا معیاری نہیں ہے۔ ظاہری سی بات ہے اُس زمانے میں چمڑے کا کاغذ لے کر اُس پہ مصحف لکھوانے کے لیے بھاری سرمایہ درکار ہوتا تھا ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی اتنا سرمایہ لگا کر ایسا غیر متوازن نسخہ تیار کروائے۔ نیز اس نسخے کی ہیئت بھی ویسی ہے جیسی اُس عہد کی تدریسی کاپیوں کے متعلق خیال کی جاسکتی ہے۔

2۔ نچلی عبارتوں میں پائے جانے والے اکثر و بیشتر اختلافات ایسے ہیں جو حفاظ کے متشابہات قسم کے ہیں۔ عربی زبان جاننے کی وجہ سے لکھنے والے نے کئی جگہوں پر قرآن میں مذکور لفظ کی جگہ اُسی کا ہم معنی لفظ لکھ دیا ہے۔ مثلا سورہ مریم کی آیت لم نجعل له من قبل سميا كو لم نجعل له من قبل شبيها لکھ دیا ہے اور بعد میں شبیھا کو مٹا کر اصلاح کردی ہے، اسی طرح أو الطفل الذين لم يظهروا کو اُس نے أو الولدان الذين لکھ دیا۔ پھر درست کرنے کے ولدان کو آدھا مٹا کر وہاں طفل لکھ دیا ہے جس سے یہ کلمہ او الول الطفل بن گیا ہے۔

3۔ بعض جگہ نحوی املائی غلطیاں ہیں جیسے ولم یخشَ کو ولام یخشَ اور أولا یرون کو أولا یرو لکھ دیا ہے۔ جو ظاہری سی بات ہے کوئی بڑی عمر کا عربی جاننے والا نہیں لکھ سکتا۔ اسی طرح وجاھد فی سبیل اللہ لکھ کر نچلی آیت کے وجاھدوا فی سبیل اللہ سے متشابہ لگنے پر یہاں واحد غائب کے مقام پر بھی وجاھد اور فی کےمتوازن فاصلے کے درمیان و کو گھسیڑ دیا ہے۔

4۔ سب سے دل چسپ بات یہ ہے کہ اس مصحف میں سورہ توبہ کے شروع میں بھی بسم اللہ لکھی ہوئی ہے لیکن پھر اوپر لکھا ہے: لاتقل بسم اللہ یعنی بسم اللہ نہ کہو۔ یہ اِس بات کی واضح علامت ہے کہ یہ ایک درسی کاپی ہے جو کسی استاذ کے زیرِ نگرانی لکھی جاتی تھی اور اُستاد اُس میں پائی جانے والی اغلاط کی تصحیح کرا دیا کرتا تھا۔

5۔ بعض جگہ فقرے کی ترتیب کو قدرے بدل دیا گیا ہے جیسے قدشغفھا حبا کو قد شغفھا حبُّ فتاھا لکھ دیا گیا ہے۔

الغرض سو سے کچھ اوپر کی یہ تمام اغلاط انتہائی معمولی نوعیت کی ہیں جن سے معنی پر کوئی فرق نہیں پڑتا اور اُن سب کی اصلاح بھی مصحف پر موجود ہے۔

قرآن کوئی قدیم زمانے کے پتھر پہ لکھا ہوا نقش نہیں جو اچانک سے آج دریافت ہو گیا ہے۔ یہ ایک کتاب ہے جو پیغمبر ؑ کی زندگی ہی میں ہزاروں لوگوں نے حفظ کر لی تھی، دن رات نمازوں میں پڑھی جاتی تھی، اس کے لکھے ہوئے نسخے مسلمانوں کے گھروں میں ہوتے تھے۔ حتی کہ حضرت عمر کے قبولِ اسلام کے واقعہ، جس میں اُن کی بہن دیکھ کر قرآن کی تلاوت کر رہی تھیں، سے معلوم ہوتا ہے کہ مکی عہد میں بھی مسلمان جو جو آیات نازل ہوتی جاتی تھیں، لکھ کر گھر گھر اُس کے نسخے رکھ لیا کرتے تھے۔

لہذا ایک دو نہیں اگر بیسیوں نسخے بھی ایسے مل جائیں جن میں بعض اختلافات ہوں تو اس سے قرآن کی صحت اور استناد پہ کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ لیکن اسے عقل و خرد کا زوال ہی کہیے کہ ایک بچے کی مشقی کاپی کی چند معمولی اغلاط استشراق، تنصیر اور الحاد کے لیے ایسا ڈھول بن گئی ہیں جیسے تین دہائیوں سے پیٹ پیٹ کر وہ پھولے نہیں سما رہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ فیس بک وال

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply