کرکٹ سے کھلواڑ/ناصر بٹ

انتظامات سے لے کر انفراسٹرکچر تک اور دلچسپی سے لے کر میچوں کے نتائج تک موجودہ ٹی20 ورلڈ کپ سے بکواس اور بے ہودہ ورلڈ کپ شاید ہی کبھی ہوا ہو اور اگر ہوا بھی ہو گا تو وہ ویسٹ انڈیز میں ہی ہوا ہو گا۔

اس دفعہ مگر ویسٹ انڈیز کے ساتھ امریکہ کا تڑکہ بھی لگا دیا گیا جس سے کرکٹ کی بطور کھیل جو مٹی پلید کروائی گئی ہے وہ بے مثال ہے۔

آئی سی سی فیصلے کس طرح سے کرتی ہے وہ تو اب سب کو معلوم ہو چکا ہے مگر اسکے فیصلے کرکٹ کی مقبولیت اور بہتری کے لیے کتنا سودمند   ہیں وہ ہم دیکھ رہے ہیں۔

کرکٹ امریکہ میں اتنی ہی کھیلی جاتی ہے جتنی پاکستان بھارت میں بیس بال یا باسکٹ بال پھر آپ نے کبھی سنا ہو کہ ان دونوں کھیلوں کی ورلڈ باڈیز نے ان کھیلوں کے ورلڈ کپ ان خطوں میں کروانے کی کوئی کوشش کی ہو؟

امریکہ میں کرکٹ ورلڈ جیسے بڑے ایونٹ کا انعقاد اگر کرکٹ کو گلوبلی مقبول بنانے کی کوشش تھی تو یہ سب نے دیکھ لیا کہ اس سے کرکٹ کتنی مقبول ہوئی اور کتنی غیر مقبول۔

ویسٹ انڈیز کا تو پھر یہ ہے کہ وہاں کرکٹ کسی دور میں مقبول کھیل ہوا کرتا تھا، اور انکی کرکٹ کی ایک تاریخ ہے اس لیے وہاں کبھی کبھار کرکٹ کا بڑا ایونٹ منعقد کروانا پڑتا ہے مگر امریکہ میں کرکٹ ورلڈ کپ ۔۔۔کم آن۔۔۔یہ صرف امریکہ میں کرکٹ کی ایک نئی مارکیٹ ڈھونڈنے کی کوشش تھی جس سے مال بنایا جا سکے مگر اس میں بھی آئی سی سی کو ناکامی ہی ہوئی۔

عمومی طور پر دونوں جگہ اور خصوص طور پر امریکہ میں پچز سے لے کر انتظامات تک انتہائی تھرڈ کلاس اور گھٹیا تھے۔
پچ کا باؤلر یا بیٹر فرینڈلی ہونا قابل فہم ہے مگر پچز کا اس قدر غیر یقینی ہونا کرکٹ کی بربادی کے علاؤہ کچھ نہیں۔۔

امریکہ میں پارٹ ٹائم گراؤنڈز تیار کئے گئے تھے جہاں کنٹینرز وغیرہ جوڑ کے گراؤنڈز کی شکل دی گئی تھی وکٹوں کا معیار ایسا تھا کہ کوئی بھی ٹیم کسی کو بھی ہرا سکتی تھی اگر کوئی ٹیم ان وکٹوں پر کھیلنے کا کوئی گزشتہ تجربہ نہیں رکھتی تھی تو اسکے لیے یہ وکٹیں ایک ڈراؤنا خواب تھیں۔

امریکہ میں کرکٹ ورلڈ کپ ایسے ہی تھا جیسے کوئی امیر آدمی اپنے بچوں کو ورلڈ کپ گھر میں کروا کے دے۔

دوسری طرف کریبین میں جب بھی ورلڈ کپ ہوا اسکے انتظامات ناقص ترین رہے کسی زمانے میں ویسٹ انڈین جزائر میں کرکٹ کا جنون ہوا کرتا تھا مگر اب ایسا نہیں ہے اب کرکٹ وہاں کی تیسرے چوتھے نمبر پر مقبول گیم ہے۔

ویسٹ انڈیز کی ہوم ٹیم کے آؤٹ ہونے کے بعد انکی ورلڈ کپ میں دلچسپی بالکل ہی ختم ہو گئی جس کا مشاہدہ آپ نے دونوں سیمی فائنلز کے لگ بھگ خالی سٹیڈیمز کو دیکھ کے کر ہی لیا ہو گا
پھر دونوں سیمی فائنلز کے لیے تیار کی گئی پچز اس قدر ناقص اور بکواس تھیں کہ کبھی کسی ورلڈ کپ میں ایسا دیکھا نہیں گیا۔

افغانستان  ساؤتھ افریقہ والے میچ میں وکٹ ایسی تھی جس کا پتہ ہی نہیں چل رہا تھا کہ کونسا گیند اٹھے گا اور کونسا بیٹھے گا انتہائی غیر یقینی باؤنس والی پچ کرکٹ کے سب سے چھوٹے فارمیٹ میں بھی آدھے آدھے اوورز میں ٹیمیں فارغ۔

دوسرے سیمی فائنل ہر چند گیند مستقل طور پر نیچا رہ رہا تھا مگر اس قدر نیچا کہ گیند گٹوں میں لگ رہی تھی۔

لو باؤنس ایشین وکٹوں پر بھی ہوتا ہے مگر ایسی گھیسی وکٹیں نہیں ہوتیں کہ جہاں بیٹر یہی سوچتا رہے کہ کونسا گیند گھیسی گیند ہو گا اور وکٹوں میں گھس جائیگا۔

انڈیا تو پھر اپنے لو باؤنس وکٹوں پر کھیلنے والے تجربے کی وجہ سے کچھ ایڈجسٹ کر گیا مگر انگلینڈ والے تو 171 سکور دیکھ کے ہی دل چھوڑ گئے تھے سوائے بٹلر کے جس نے کپتان ہونے کے باوجود ایک احمقانہ شارٹ سلیکشن کر کے وکٹ گنوائی باقی بیٹر تو اپنی باڈی لینگوئج سے ہی شکست تسلیم کئے ہوئے تھے اور اس انتظار میں رہتے تھے کہ اب آؤٹ ہوئے کہ اب ہوئے۔

کبھی آپ نے کسی ورلڈ چیمپئن ٹیم کی اس قدر ہلکی پرفارمنس نہ دیکھی ہو گی جتنی دوسرے سیمی فائنل میں آپکو نظر آئی اور اسکی وجہ تھی صرف گھٹیا ترین پچز اور اس میں کردار تھا آئی سی سی کی نااھلی کا جس نے پجز کی تیاری کو مانیٹر نہیں کیا۔

کرکٹ میں بیٹرز کے غلبے والی کنڈیشنز سے ہم بھی نالاں تھے مگر اس طرح کی تبدیلی نہیں چاھتے تھے جس میں کرکٹ کی بجائے کچھ اور ہی کھیل دیکھنا پڑے۔
وکٹیں سپورٹنگ ہونی چاہیئں نہ کہ اس قدر واہیات کہ جہاں پر کرکٹ کھیلنا ہی ممکن نہ ہو۔

julia rana solicitors

کُل ملا کے ناقص ترین انتظامات اور گھٹیا ترین وکٹوں نے اس ٹی 20 ورلڈکپ کو کرکٹ ہسٹری کا گھٹیا ترین ورلڈ کپ بنا دیا ہے جس میں کسی ٹیم کا پوٹینشل جانچنے کا موقع ہی موجود نہ تھا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply