منٹو مرتا کیوں نہیں؟۔۔سعید ابراہیم

صاحبو! سعادت حسن منٹو ایک ایسا سرپھرا فنکار تھا جو ہندوپاک کے دائیں اور بائیں دونوں نظریاتی گروہوں کی دکھتی رگ بنا اور اس دنیا سے چلے جانے کے پچاس برس بعد بھی بنا ہوا ہے۔ دائیں بازو والے تو خیر عرصہ دراز ہوا ہانپ کر بیٹھ گئے مگر میرے اپنے قبیلے کے اکثر ترقی پسندوں نے اسے آج تک معاف نہیں کیا۔ مانا کہ چٹکی کاٹنا اس کی عادت میں شامل تھا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس نے اپنی تحریروں سے ایسی کیا چٹکی بھری تھی کہ بہتوں کی بلبلاہٹ ابھی تک ختم ہونے میں نہیں آرہی اور تنقید کے نام پر بے معنی زاویوں کی عقدہ کشائی اور دشنام طرازی کا سلسلہ ہے کہ تھمنے میں نہیں آرہا۔
سچ تو یہ ہے کہ منٹو کا بنا کسی ریاستی یا نظریاتی گروہ کی سرپرستی کے، اس قدر توانا انداز میں زندہ رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ دونوں مذکورہ گروہوں کی مخالفت آج تک اس کے قارئین کو بہکانے میں کامیاب نہیں ہو سکی اور نہ ہی آئندہ زمانوں میں اس کا کوئی امکان دکھائی دیتا ہے۔منٹو کی تحریروں اور افسانوں پر دائیں بازو والوں کی چیخ و پکار تو خیر سمجھ میں آتی ہے کہ اس نے سماج کا سفید لبادے میں ملفوف کوڑھ زدہ بدبو دار باطن آشکار کرکے ان کے کتابی اخلاقی نظام کا بھانڈا پھوڑا ، ہاں البتہ ترقی پسندوں کا نام نہاد مدلل ردعمل اپنی تفہیم کے لیے ذرا زیادہ گہرے تجزیے کا متقاضی ہے۔
منٹوکا ایک قصور یہ تھا کہ اس کے زیادہ تر افسانوں کا مرکزی کردار عورت تھی مگر ایک بھی کردار ایسا نہیں تھا جو سیدھا اور روٹین کا ہو۔اکثر کردار ہمارے سماج کے گھٹیا اورغیر انسانی مردانہ رویوں کو آشکار کرنے والے تھے۔ منٹو نے پہلی بار اُردو ادب میں عورت کی صورتحال کی ان حقیقی شکلوں کو اجاگر کیا جن کی موجودگی سے زوال زدہ فیوڈل تہذیب کے خوگر مرد ہی نہیں عورتیں بھی خائف اور انکاری تھیں۔ یہ ایک ستم ظریفانہ حقیقت ہے کہ آسمانی صحیفوں سے لے کر دور موجود کی تحریروں تک سبھی میں عمومی طور پر مردوں کو ہی مخاطب کیا گیا ہے۔ یہ رویہ سراسر عورت کے وجود کو ضمنی اور غیر فعال ثابت کرنے کا غماز ہے۔ یہ رویہ اس بات کا اعلان ہے کہ عورت عقل اور فیصلے کے میدان سے بارہ پتھر باہر ہے اور اس کا کام محض اتنا ہے کہ مرد کے احکام کی بلا چون و چرا تکمیل کیا کرے۔
منٹو پر تنقید کرنے والے ترقی پسند ادیب بھی اپنی تمام تر انسانیت نوازی، مساوات پسندی اور سائنسی اپروچ کے دعووں کے باوجود لاشعوری طور پرکم و بیش اسی سوچ کے اسیر تھے۔ ان کی نفسیات کسی نہ کسی صورت زوال پذیر فیوڈل اخلاقیات کی گرفت میں تھی جس میں عورت ایک ایسی مستور شے تھی جس کے جسمانی اور ذہنی معاملات کا بیان فحاشی کا ہم معنی تھا۔ بس فرق اتنا تھا کہ وہ سوسائٹی کی حقیقی مگر بدنما تصویر کو اب مذہب کی بجائے اشتراکی اخلاقیات کی چادر تلے ڈھانپنا چاہتے تھے۔ مذہبی ذہن کی طرح ان کے نزدیک بھی عورت کی حقیقی تصویر کشی فحاشی کے مترادف تھی۔ ایسے میں جب منٹو نے سوسائٹی میں موجود عورت کے روٹین سے ہٹے ہوئے کرداروں کو اپنی کہانیوں میں اجاگر کیا تو نفسیات کے ان مخالفین کی اپنی نفسیات پر شدید ضرب پڑی۔
سچی بات یہ ہے کہ ترقی پسند ادیبوں کو منٹو کی تحریروں سے کوئی اصولی اختلاف نہیں تھا ۔ یہ اختلاف تب اصولی بنا جب انہوں نے اپنی کتاب سیاہ حاشےئے کو محمد حسن عسکری کے دیباچے کے ساتھ شائع کیا۔ اس کتاب کے شائع ہوتے ہی ترقی پسندوں پر اچانک یہ منکشف ہوا کہ منٹو تو فحش نگار ہے رجعت پسند ہے، اور ہاہا کار مچ گئی کہ اسے نکالو اپنی صفوں سے۔ فرمان جاری ہوا کہ خبردار جو آئندہ کسی ترقی پسند رسالے نے منٹو کی کوئی تحریر شائع کی تو۔نظریے کے پردے میں منافقت کا یہ عالم تھا کہ انجمن ترقی پسند مصنفین کی ’بائیکاٹ کے اعلان والی کانفرنس‘ سے چند ماہ پہلے احمد ندیم قاسمی اپنے رسالے کے لیے منٹو سے افسانہ بھجوانے کی درخواست کررہے تھے۔ قاسمی صاحب منٹو کے نام خط میں رقم طراز ہیں:
’’۱۵ ۔اگست (۱۹۴۹ء) کو نقوش کا ضخیم آزادی نمبر آرہا ہے۔ اگر اس کے لیے آپ کوئی کہانی مرحمت فرماسکیں تو یہ آپ کابہت بڑا کرم ہوگا۔‘‘
لیکن اچانک ہی انہیں ادراک ہوا کہ منٹو ترقی پسند نہیں رہے اور اگلے ہی مہینے انہیں کہانی بھیجنے سے منع کردیا۔ یوں منٹو کو اچھوت ادیب قرار دے دیا گیا۔ یہ وہی قاسمی صاحب تھے جو منٹو کے نام لکھے گئے ایک خط میں انہیں اُردو افسانے کے بادشاہ کا خطاب مرحمت فرما چکے تھے مگر اب منٹو کی ذات کو ان الفاظ میں تضحیک کا نشانہ بنا رہے تھے:
’’سیاہ حاشےئے پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ایک وسیع میدان میں ہر طرف لاشیں بکھری ہوئی ہیں اور افسانہ نگار ان کی جیبوں سے پیسے اور سگرٹوں کے ٹکڑے نکال رہا ہے۔‘‘
ترقی پسندوں کی ظالمانہ حدتک تضحیک آمیزتنقید (اگر اسے تنقید کہا جا سکے تو)کے باوجود منٹو کا مجموعی ردعمل تاسف کا گہرا رنگ لیے ہوئے ہے۔ وہ جیبِ کفن کے عنوان سے اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:
’’مجھ میں وہ تمام کمزوریاں ہیں جو دوسرے انسانوں میں ہیں۔ یقین مانئے کہ مجھے اس وقت دکھ ہوا، بہت بڑا دکھ، جب میرے چند ہم عصروں نے میری اس کوشش کا مضحکہ اڑایا، مجے لطیفہ باز، یاوا گو، سنکی، نامعقول اور رجعت پسند کہا۔ میرے ایک عزیز دوست نے تو یہاں تک کہا کہ میں نے لاشوں کی جیبوں میں سے سگریٹ کے ٹکڑے، انگوٹھیاں اور اسی قسم کی دوسری چیزیں نکال نکال کر جمع کی ہیں۔ اس عزیز نے میرے نام ایک کھلی چٹھی بھی شائع کی جو وہ بڑی آسانی سے مجھے خود دے سکتے تھے۔ اس میں بھی انہوں نے ’سیاہ حاشئے‘ کی تضحیک میں کھلے طور پر قلمکاری کی۔‘‘
کئی معاملات ایسے ہیں جہاں بڑے بڑے ترقی پسند واضح طور پر اپنی مزدور اور غریب پروری کے دعووں سے منحرف دکھائی دیتے ہیں۔ منٹو کے تمام تر خلوص اور تخلیقی وفور کے باوجود انہیں اس کی معاشی تنگ دستی پر ذرا ترس نہیں آتا بلکہ الٹا ان کی کوشش یہ رہی کہ منٹو پر روزگار کا ہر دروازہ بند کردیا جائے۔ ستم ظریفی یہ کہ جہاں ایک طرف منٹو جیسے مفلوک الحال مگر عظیم ادیب پر نفرت کے تیر برسائے جارہے تھے وہیں جوش ملیح آبادی جیسے فیوڈل ذہنیت اور فیوڈل طبقے سے تعلق رکھنے والے شاعر کو شاعرِ انقلاب کے لقب سے نوازا جا رہا تھا۔ معروف نقاد ممتاز حسین اپنے مضمون ’ترقی پسند ادب‘ میں کہتے ہیں:
’’آپ نے شاعرِانقلاب کا لقب جوش ملیح آبادی کو دیا جو باوجود اپنی رومانویت کے سرمایہ داری، جاگیرداری اور شہنشاہیت کے خلاف بغاوت کا پرچم بلند کیے ہوئے تھے۔‘‘
منٹو کا قصور یہ تھا کہ وہ اپنے تخلیقی وفور اور شعور سے غداری کرکے ترقی پسندوں کی نعرہ بازی اپنانے سے انکاری ہو گیا تھا۔ سو اسے اس بات کی سزا تو ملنا ہی تھی۔مگر یہ ایک ظالمانہ اور منافقانہ روش تھی جس کی واضح مذمت آج کے ترقی پسندوں کا فرض بنتی ہے۔
منٹو کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ اپنے منہ زور تخلیقی اظہار کے لیے بے انت کھلے میدان کا متمنی تھا جبکہ ترقی پسند اسے گھیرگھار کر اپنی اکہری، سطحی اورنعرہ بازانہ سوچ کے گنبد میں بند کرنا چاہتے تھے۔ ادب ان کے نزدیک محض ایک میکانکی ٹول کی حیثیت رکھتا تھا۔ یہ اپروچ حقیقتاََ ادب میں نئے امکانات کے لیے اسقاطِ حمل جیسے زیست دشمن مظہر کا درجہ رکھتی تھی۔
منٹو اپنے موضوعات کے انتخاب کے حوالے سے نئے اور ٹیڑھے میڑھے راستوں کا نقیب تھا سو اس کا ترقی پسندوں کے بتائے ہوئے تنگ صراطِ مستقیم پر چلنا ممکن ہی نہیں تھا۔ ادب تو رہا ایک طرف خود سوسائٹی کے تجزیے کے حوالے سے اکثر ترقی پسند حضرات کا وژن سطحی، ناقص اور ادھورا تھا۔ نعرے بازی کے شور اور جوش نے انہیں اتنی فرصت ہی نہیں دی کہ وہ زندگی کو ایک ہمہ جہت مظہر کے طور پر دیکھ سکتے۔ انہوں نے تو بس آسانی کے لیے دنیا کو ظالم اور مظلوم میں تقسیم کرلیا تھا اور ہر معاملے کو اسی عینک سے دیکھنا اپنا شعار بنا لیا تھا۔جبکہ منٹو اپنا وژن چچا سام کے نام چوتھے خط میں اپنے مخصوص طنزیہ انداز میں یوں بیان کررہا تھا:
’’ہندوستان لاکھ ٹاپا کرے ، آپ پاکستان سے فوجی معاہدہ ضرور کریں گے۔ اس لیے کہ آپ کو اس دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت کے استحکام کی زیادہ فکر ہے اور کیوں نہ ہو، اس لیے کہ یہاں کا مُلّا روس کے کیمونزم کابہترین توڑ ہے۔ فوجی امداد کا سلسلہ شروع ہوگیا توآپ سب سے پہلے ان مُلّاؤں کو مسلّح کیجئے گا۔ ان کے لیے خالص امریکی ڈھیلے، خالص امریکی تسبیحیں اور خالص امریکی جائے نمازیں روانہ کیجئے گا، استروں اور قینچیوں کو سرِفہرست رکھیے گا۔۔۔ فوجی امداد کا مقصد جہاں تک میں سمجھتا ہوں ان مُلّاؤں کو مسّلح کرنا ہے۔۔۔‘‘
منٹو کم رسمی تعلیم کے باوجود ایک وسیع المطالعہ اور باریک بیں ادیب تھا۔ وہ اُردو زبان کا پہلا ادیب تھا جس نے افراد کو بلیک اینڈ وائٹ انداز میں دیکھنے کی بجائے ان کے اندر جھانک کر مزاج اور عمل کے متنوع شیڈز نہ صرف تلاش کیے بلکہ انہیں انتہائی سادہ مگر فنکارانہ انداز میں یوں پیش کیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے قارئین کا ایک وسیع حلقہ اس کا گرویدہ ہو گیا۔منٹو کی شائد ہی کوئی کہانی یا تحریر ہو جو برجستگی وبے ساختگی سے تہی ہو۔ یہی بات اس کے زندگی کے ساتھ سچے اور پرخلوص ہونے کی دلیل ہے۔ وہ اکثر قلم برداشتہ لکھتا تھا اور پھر اس کا روزگار بھی قلم سے ہی جڑا تھا،سو اسی لیے کئی کہانیوں میں وہ موضوع کی کمزوری کا سزاوار ٹھہرا مگر مجال ہے کہ کوئی جملہ زبان کے جھول کا شکار ہونے پائے۔
معاشرے میں موجود نارسائیوں کے المیے کو منٹو نے پہلے پہل اپنی نارسائیوں کے آئینے میں دیکھا، پہچانا اور اس کے کرب کا شعوری سطح پر جائزہ لیا۔ اور جب اس نے اپنے شعورکی سطح پر تلاش کیے گئے کرب کے محدب عدسے سے سوسائٹی کو دیکھاتو فرد کا یک رُخاظاہری پن جو جھوٹے اور مصنوعی سماجی اخلاق کا پرتو تھا،اڑنچھو ہوگیا اور اندر سے بے شمار تاریک اور روشن کمرے دکھائی دینے لگے۔ منٹو کا کمال یہ ہے کہ اس نے اُردو ادب اور فلم میں مروجہ ہیرو اور ولن کے تصور کو یک سر بدل ڈالا۔ ہندوستانی سوسائٹی میں صدیوں سے مروج خونی رشتوں کے سٹیریو ٹائپ تصورات کی حقیقت کو الم نشرح کرنے کی جرأت کی اور بتایا کہ باپ صرف باپ ہی نہیں ہوتا بلکہ وہ مخصوص سماجی حالات کے تحت اپنی ہی سگی بیٹی سے جسمانی تعلق بھی استوار کر سکتا ہے اور بیٹی بھی باپ کے ساتھ تعلق برقرار رکھنے کی خاطر اپنی بھابی کو طلاق دلوا سکتی ہے۔ (حوالے کے لیے پڑھیے ’اللہ دتہ)۔ اسی طرح کا ایک کردار ’تقی کاتب‘ میں بیان ہوا ہے جہاں والد اپنی نا آسودہ جنسی خواہش سے مجبور ہو کرچھپ چھپ کراپنی بہو کو عریاں حالت میں دیکھنے کی علت میں مبتلا ہے۔ یہ منٹو ہی تھا جو طوائف کے اندر چھپی عورت ڈھونڈ نکالنے کا ہنر جانتا تھا اور مجرم میں سے انسانیت برآمد کرلیتا تھا۔یہ وہی تھا جو فرد کے ظاہرو باطن کو جوڑ کر ایک حقیقی مگر چونکانے والی تصویر دکھانے میں کامیاب ہوا۔
منٹو پر فحش نویسی کے ساتھ ساتھ موضوعیت کا الزام بھی لگا جبکہ منٹو کا کم و بیش ہر کردار معروضی ہے۔ ایسی معروضیت جسے سوسائٹی جانتے بوجھتے دیکھنے اور تسلیم کرنے سے انکاری تھی۔ترقی پسندوں کے لیے منٹو کے افسانوں میں موضوعیت کو ثابت کرنا مشکل ہوا تو ان کے افسانوں پر کیس ہسٹری کا ٹھپہ چسپاں کردیا گیا اور اس الزام کو اپنے مضامین میں سب سے زیادہ موجودہ دور کے مارکسی نقادابنِ حسن نے اچھالا۔ ابنِ حسن کا مبلغ تنقیدی شعور محض کتابی مطالعے کا مرحونِ منت تھا ،جس میں زندہ سماجی مشاہدے کی کوئی جھلک خال ہی دکھائی دیتی ہے۔ان کے اسلوب کی صورت یہ ہے کہ انکی تحریروں پر ترجمے کا گمان ہوتا ہے۔
یہ منٹو کی نہیں ترقی پسندوں کی بد قسمتی تھی کہ انہوں نے منٹو جیسے سچے اور سُچے ادیب کو اپنی کوتاہ نظری کے سبب خود ہی اپنا دشمن ڈکلیئر کردیا اور یوں اپنی تحریک کو ایک دیوہیکل ادیب کی قلمی معاونت سے محروم کرنے کی عظیم غلطی کے مرتکب ٹھہرے۔ یقین کیجئے منٹو کل بھی ترقی پسند تحریک کی ضرورت تھا اور آج بھی ہے۔ سچ پوچھئے تو منٹو کو ترقی پسندوں کی نہیں بلکہ ترقی پسندوں کو منٹو کی ضرورت ہے اور ابھی طویل عرصہ تک رہے گی۔
منٹو وہ سخت جان اور زورآور ادیب ہے جو نہ تو کسی نقاد کی خواہش اور کوشش سے مر سکتا ہے اور نہ ہی زندہ رہ سکتا ہے۔ یہ صرف زندگی کی کڑوی کسیلی سچائیوں کے ساتھ اسکی کمٹمنٹ ہے جو تیسری نسل کے قارئین کو اس کے ساتھ جوڑے ہوئے ہے۔ اور یہ بات طے ہے کہ نقاد جتنا جی چاہے زور لگالیں وہ کبھی بھی منٹو اور اس کے قارئین کے بیچ بال برابر فاصلہ پیدا نہیں کر سکتے۔
سچ پوچھئے توپاکستان میں اُردو افسانہ منٹو کی موت کے بعد سسکتے سسکتے تقریباََ موت کی دہلیز تک آن پہنچا ہے۔ یورپی ادب کے فیشنی تتبع کے چکر میں ہمارا ادیب ناتجربہ کردہ موضوعیت کے بے سمت راستے پر اتنا دور نکل گیا ہے کہ جب وہ پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے تو اسے اپنا ایک بھی قاری دکھائی نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر ادیب اپنی کتابیں بغل میں دابے بلا قیمت بانٹتے دکھائی پڑتے ہیں۔
ہمارا ادیب اجنبی تصورات اور اسلوب زبان کی جگالی کرتے کرتے خود اجنبیت کے گڑھے میں جا گرا ہے اور ستم ظریفی یہ کہ ہمدرد تو دور کی بات اسے کوئی تماشائی بھی میسّر نہیں۔ اسے یہ سمجھ نہیں آرہی کہ منٹو مرنے کے پچاس سال بعد بھی کیونکر اپنے قارئین کے جھرمٹ میں راجہ اندر بنا بیٹھا ہے۔ بات صاف سی ہے جب ادیب سماج سے کٹ کر اپنی موضوعیت کے دائرے میں بند ہو جاتا ہے تو بے برکت تنہائی اور نرگسیت اس کا مقدر ٹھہرتی ہے۔ منٹو تو سوسائٹی کی رگوں میں دوڑتے پھرتے لہو جیسا تھا۔ ادیب کو منٹو کی طرح سوسائٹی کے رگ و پے میں اترنا ہوگا اور ناک پر رومال دھرے بغیر سماجی گٹروں میں جھانکنا ہوگا۔ مطلب یہ کہ افسانہ وہیں سے شروع کرنا ہوگا جہاں نصف صدی پہلے منٹو چھوڑ گیا تھا۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”منٹو مرتا کیوں نہیں؟۔۔سعید ابراہیم

Leave a Reply to Barkat Khan Cancel reply