فلسفیانہ قنوطیت ایک فلسفیانہ نظریہ ہے جو زندگی یا وجود کو منفی اقدار تفویض کرتا ہے۔ اس نظریہ کے حامی فلسفی عام طور پر یہ استدلال پیش کرتے ہیں کہ دنیا میں لذت پر درد کو تجرباتی فوقیت حاصل ہے، وجودیاتی اور مابعدالطبیعیاتی طور پر دنیا انسانوں کے لیے منفی اور مضر اثرات رکھتی ہے اور زندگی بنیادی طور پر بےمعنی اور مقصد سے عاری ہے۔ یہ نظریہ کوئی ایک مربوط تحریک نہیں ہے، بلکہ یہ بےقاعدہ طور پر جڑے ہوئے فلسفیوں کا ایک گروہ ہے جن کے خیالات مشابہت رکھتے ہیں۔ زندگی کے حالات کے بارے میں ان کے تاثرات وسیع پیمانے پر مختلف ہیں۔ اپنے اس تاریک نظریے کے باوجود یہ فلسفی زندگی کی پریشانیوں کے حل کے لیے خودکشی کی وکالت نہیں کرتے ہیں، اگرچہ بہت سے جنم مخالف نظریہ (اینٹی نٹالزم) کو اپنانے کے حق میں ہیں۔
قنوطیت کی تعریف میں فلسفیوں نے مختلف آراء پیش کیے ہیں۔
• جیمز سلی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ :
“the denial of happiness or the affirmation of life’s inherent misery”
ترجمہ: “خوشی کا انکار یا زندگی کی پوشیدہ بدبختی کا اقرار (ہے)”
• فریڈرک بائزر نے لکھا ہے:
“pessimism is the thesis that life Is not worth living, that nothingness Is better than being, or that It is worse to be than not be”
ترجمہ: “قنوطیت یہ دعویٰ ہے کہ زندگی جینے کے قابل نہیں ہے، یہ کہ نیستی ہستی سے بہتر ہے، یا یہ کہ ہونا نہ ہونے سے بدتر ہے”
• پال پریسکوٹ کے مطابق:
“I hold that pessimism Is a stance, or compound of attitudes commitments, and intentions. This stance Is marked by certain beliefs—first and foremost, that the bad prevails over the good”
ترجمہ: “میں سمجھتا ہوں کہ قنوطیت ایک موقف ہے، یا رویوں، وعدوں اور ارادوں کا مرکب ہے۔ اس موقف کو بعض عقائد سے نشان زد کیا گیا ہے – اولین اور اہم ترین، یہ کہ برائی اچھائی پر غالب آتی ہے۔”
• کرسٹوفر جناوے نے اپنی کتاب میں قنوطیت کے حوالے سے اولگا پلوماخیر (Olga Plümacher) کا موقف کچھ یوں بیان کیا ہے:
“In Plümacher’s highly economical characterization, philosophical pessimism consists of just two propositions: “The sum of displeasure outweighs the sum of pleasure” and “Consequently the non-being of the world would be better than Its”being.”
ترجمہ: “اولگا پلوماخیر کی انتہائی کفایتی درجہ بندی میں فلسفیانہ قنوطیت صرف دو اقوال پر مشتمل ہے: “ناراضگی کا مجموعہ خوشی کے مجموعے سے زیادہ ہوتا ہے” اور “اس کے نتیجے میں دنیا کا عدم اس کے وجود سے بہتر ہوگا۔”
فلسفیانہ قنوطیت کا مطالعہ کرتے وقت کچھ بار بار آنے والے موضوعات درجہ ذیل ہیں:
• زندگی جینے کی قابل نہیں ہے۔ زندہ رہنے کا مطلب برے حالات میں خود کو ڈالنا ہے۔
• برائی اچھائی پر غالب آتی ہے۔ نیکی اور بدی کے مقدار سے قطع نظر دکھوں کا مداوا اچھائی سے نہیں کیا جاسکتا۔
• عدم، وجود سے بہتر ہے۔ یعنی سرے سے پیدا نہ ہونا، جنم لینے سے بہتر ہے۔
قنوطی جذبات لیے یہ نظریہ مختلف مذاہب کے تعلیمات اور فلسفیوں کے افکار اور کتابوں میں پایا جاتا ہے۔
• بدھ مت کے مرکزی نکات میں سے ایک یہ دعویٰ ہے کہ زندگی مصائب اور عدم اطمینان سے بھری ہوئی ہے۔ اسےDuḥkha (دکھ، درد یا اذیت) کہا جاتا ہے جو چار عظیم سچائیوں (Four Noble Truths) میں سے پہلا نکتہ ہے۔ دکھ مسلسل عدم اطمینان ہے جو تمام جذباتی وجود کا ایک اندرونی نشان ہے۔ اس کے مطابق تمام جانداروں کو پیدائش، بڑھاپے، بیماری اور موت کے مصائب سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ چاہتے ہیں کہ جو ان کے پاس نہیں ہے اسے حاصل کریں اور جس چیز کو وہ پسند نہیں کرتے اس سے بچیں۔
• کتابِ واعظ (Ecclesaites ) جو نصرانی عہد نامہ قدیم(Christian Old Testament )کا ایک حصہ ہے (یہ کتاب دسویں صدی قبل مسیح میں حضرت سلیمان علیہ السلام نے لکھا تھا۔ بنی اسرائیل اسے خیموں کی عید یا عیدِ خیام کے جشن میں پڑھتے ہیں۔ یہ وہ دن ہے جب بنی اسرائیل فرعونِ مصر کی غلامی سے آزاد ہوکر اپنے خیموں میں آباد ہوگئے تھے)۔ اس کتاب میں بھی قنوطیت کے مختلف رنگ پائے جاتے ہیں۔ جن کی کچھ صورتیں درجہ ذیل ہیں:
o اس کتاب کی تعلیمات میں انسانی زندگی کا بے معنی ہونے پر زور دیا گیا ہے:
“Meaningless! Meaningless!”
says the Teacher.
“Utterly meaningless!
Everything is meaningless.”(Ecclesiates 1:1-2)
ترجمہ: “بے معنی! بے معنی!”
استاد کہتا ہے۔
“بالکل بے معنی!
سب کچھ بے معنی ہے۔‘‘ (کتابِ واعظ۔ 2-1:1)
o زندگی کو موت سے بھی بدتر تصور کیا گیا ہے:
And I declared that the dead,
Who had already died,
Are happier than the living,
Who are still alive. (Ecclesiates 4:1-2)
ترجمہ: “اور میں نے اعلان کیا کہ مردے،
جو پہلے ہی مر چکے تھے
زندوں سے زیادہ خوش ہیں
جو ابھی تک زندہ ہیں۔” (کتابِ واعظ۔ 2-4:1)
o اور وجود کے خلاف جنم مخالف نظریے کے جذبات کا اظہار کیا گیا ہے:
But better than both
is the one who has never been born,
who has not seen the evil
that is done under the sun. (Ecclesiates 4:1-3)
ترجمہ: “لیکن دونوں سے بہتر
وہ ہے جو کبھی پیدا نہیں ہوا،
جس نے برائی نہیں دیکھی
جو سورج کے نیچے کی جاتی ہے۔” (کتابِ واعظ۔ 3-4:1)
• بالتاسار گراسیان Baltasar Gracián) ) سترویں صدی کا ہسپانوی نثرنگار اور فلسفی کے ناول El Criticón” (نقاد/The Critic ) کو انسانی خوشی کی تلاش کی ایک تمثیل سمجھا جاتا ہے۔ جس میں زمین پر خوشی کی تلاش کو بےمقصد دکھایا گیا ہے۔ یہ ناول انسانی حالات کی ایک تاریک اور ویران تصویر کھینچتا ہے، جس میں قنوطیت کا بےمثال رنگ دکھائی دیتا ہے۔
• والٹیئر (Voltaire) وہ پہلا یورپی فلسفی تھا جنھیں ناقدین نے ان کے 1759 کے طنزیہ ناول کینڈائیڈ(Candide) کی اشاعت اور بین الاقوامی کامیابی کے جواب میں مایوسی کا شکار قرار دیا تھا۔ یہ ناول انھوں نے لائبنز (Leibniz) کی نظریاتی رجائیت کے اس مقولے کی تردید میں لکھا تھا کہ:
“we live in the best of all possible worlds.”
ترجمہ: “ہم سب سے بہترین ممکنہ دنیا میں رہتے ہیں۔”
• اس نظریے میں اہم پیش رفت کا آغاز آرتھر شوپن ہاور کے کام سے ہوا۔ آرتھر شوپن ہاور 1788 میں جرمنی میں پیدا ہوا۔ وہ فلسفی اور ماہرِ نفسیات تھا۔ ان کا فکر فلسفے اور نفسیات کے دلکش امتزاج کے لیے مشہور ہے۔
انھوں نے سب سے پہلے اس بات کی وضاحت پیش کی کہ دنیا میں اتنی بدحالی کیوں ہے؟ اور ایک مکمل فلسفیانہ نظام تشکیل دیا، جس میں قنوطیت نے اہم کردار ادا کیا۔ ان کے قابلِ ذکر نظریات میں سے ایک وجودی قنوطیت ((pessimism for existence ہے۔ جو اس بات پر زور دیتا ہے کہ خواہشات کی ناقابلِ تکمیل فطرت کی وجہ سے انسانی زندگی فطری طور پر مصائب اور عدم اطمینان کی خصوصیات کا حامل ہے۔ انھوں نے یہ تجویز پیش کی کہ مصائب میں کمی انضباطِ نفس کو قبول اور خواہشات کو ترک کرنے کے ذریعے لائی جاسکتی ہے۔ ان کا خیال تھا کہ دنیا ایک خوفناک جگہ ہے، اور ناانصافی، ظلم اور بیماری سے بھری ہوئی ہے۔ یہاں کے ہسپتال اور جیل انتہائی خوفناک تکالیف سے گزرنے والوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ اور فطرت کے دانت اور پنجے خون سے ہر وقت سرخ ہیں۔ دن کے ہر گھنٹے میں ہزاروں جانور ایک دوسرے کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے کھا رہے ہیں اور انسان ایک دوسرے کا خون پینے سے بھی گریز نہیں کر رہا ہے۔ اور یہ سب ایک ڈراونے خواب کے مانند ہیں۔
فلسفیانہ قنوطیت کے اصولوں کے لیے سب سے اہم دلائل مختصراً یہاں پیش کیے گئے ہیں:
• خوشی ہمارے تجربے میں کوئی مثبت چیز شامل نہیں کرتی ہے۔ اس دلیل کو تقویت دینے کے لیے مزید درجہ ذیل موقف پیش کیے جاتے ہیں:
o خوشی محض درد کے خاتمے کے سوا کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔
o زندگی میں کوئی حقیقی مثبت کیفیت نہیں ہے۔ اس نقطۂ نظر کی ایک ماہیت یہ ہے کہ ایسی کوئی کیفیات نہیں ہوسکتیں جو پریشانی یا انتشار کے شکار نہ ہو یا غیر جانبدار ہو۔
o خوشی محض روزمرہ کی جدوجہد سے راحت کے طور پر کارآمد ہے۔
o مصائب کا کوئی حقیقی مقابل نہیں ہے۔
• زندگی ناقابلِ تلافی برائیوں پر مشتمل ہے۔
• دائمی جدوجہد کی وجہ سے زندگی کے لیے مصائب کا درپیش ہونا ضروری ہے۔ اس دلیل کے لیے چند درجہ ذیل وجوہات پیش کیے جاتے ہیں:
o اطمینان مبہم ہے۔
o خوشی منفی ہے۔
o جدوجہد کرنا مصیبت ہے۔
o بوریت مصیبت ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں