حقیقت، متن ہے ۔ قبالہ (1)-احمر نعمان

قدیم اقوام, مصری، بابلی، قبائل مادی اجسام کی پوجا کرتے تھے چاہے وہ خدائی کے دعویدار فرعون ہوں یا وہ دیوی دیوتا جو مافوق الفطرت قوتوں کے ساتھ مادی وجود رکھتے تھے۔ ان کے برعکس ابراہیمی مذاہب، لسانی اور کلامی ہیں۔ یہ کتاب سے منسوب ہیں، اسی لیے ان کے ماننے والے اہل کتاب کہلاتے ہیں۔ کتاب، لسانیات اور زبان سے ہٹ کر کچھ جاننا نا ممکنات کے مترادف ہے۔ اسی باعث کتاب متبرک ہے اور حروف اور الفاظ مقدس۔

تصوف اور روحانیت Mysticism میں مسیحی اور مسلم تصوف، نوفلاطونیت سے متاثر گردانا جاتا ہے۔نوفلاطونیت کے بانی فلوطین/فلاطینوس Plotinus اور اس کے شاگرد رشید فرفریوس Porphyryکی لکھی کتب سے وحدت الوجود سمیت تصوف کا بڑا حصہ نکلتا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ فلوطین خود اسکندر افرودیسی کی شرح ارسطو سے متاثر تھا جو کہ فیلو یہودی سے ماخوذ ہے۔ علم کلام کا بڑا حصہ فیلو کی اختراع یا اوریجنل کام مانا جاتا ہے۔ فیلو کے افکار نکال دیں تو روحانیت، تصوف کی موجودہ اشکال پہچاننا مشکل ہوجائیں۔

یہودی تصوف دیکھیں تو کتاب ظہور Zohar پریہودی تصوف یا قبالہ استوار ہے، یہ احکام کی بجائے حکمت اور دانائی کی کتاب ہے، اس وجہ سے اسے بہت یہودی دانشور ام الکتاب ہونے کا درجہ دیتے ہیں۔ بہت صدیوں تک اس کی تعلیم سے منع کیا جاتا رہا کہ یہ سب کے لیے نہیں۔

سیفیر یتزیرا کائنات کی تخلیقی داستان ہونے کے علاوہ لسانیات اور ریاضی پر مبنی ہے۔ مسلم تصوف کی لسانیات اور لسانی ریاضی بہت حد تک یتزیراہ سے ماخوذ ہے ۔ یہودیوں کے بقول یہ کلام آدم کی عدن سے بدری پر چار فرشتوں نے سکھایا تاکہ گھر واپسی میں کام آئے، یہ شروتی بن کر(انبیا کے) سینہ بسینہ چلتا حضرت نوح علیہ السلام تک پہنچا، پھر نوح کے صاحبزادے سام سے حضرت ابراہیم تک پہنچا۔ ان کے بقول یہی متن خدا نے حضرت موسی کو سینا کی پہاڑی پر سکھایا تھا۔

سیفیر یتزیراہ کو بنیادی طور پر صحیفہ ابراہیمی، روایت کیا جاتا ہے اور دانائی اور حکمت میں یا باطنی علوم میں شریعت موسوی سے اولیت دی جاتی ہے مگر جیسا عرض کی کہ یہ ہرکس و ناکس کے لیے نہیں، یہ cryptographic متن ہے، مختلف یہودی اذہان اسے انلاک یا ڈی کوڈ کرنے کی اپنی تشریحات میں لگے رہتے ہیں اور عام جنتا کو اس سے دور رکھا جاتا ہے۔

اس کا زیادہ استعمال باطنی علوم occult sciences میں ملتا ہے؛ الکیمیا، قبالہ/کبالہ ، جادو اور فری میسنری کی کتب کے لکھاری اورایلومیناٹیوں اور فری میسنوں کے جد امجد ، الفانسے لیوی ظہور کو Genesis of illumination کہتے ہیں، لیوی نے اسی کےحوالہ سے جو جیسی اصطلاحات استعمال کیں، آج بھی مکھی پر مکھی مارتے انہی کو ہر جگہ برتا جاتا ہے۔لیوی سے قبل بھی جیوتشی سیفیر یتزیراہ کا جیوتش/ آسٹرولوجی کے حوالہ سے استعمال کرتے تھے، جہاں جیوتش ہو وہاں جادو ٹونہ اور طلسمات بھی نظر آ جاتے ہیں، ہرمینٹک علوم میں یہی تعلیمات یونانی علوم کے ساتھ مل کر علم کیمیا میں ڈھلیں۔ لیوی نے ہی شاید پہلی بار گولڈن ڈان والے ٹیرو کارڈ ریڈنگ میں سیفیر یتزیراہ اور قبالہ کا استعمال کیا، اسی کی طرح چار دنیاوں اور ٹری آف لائف کی اشاراتی زبان ملتی ہے,، باطنی علوم اور وائیٹ میجک کے علاوہ بہتیرے سفلی و شیطانی علوم اس سے نکلتے گئے ہیں۔ یہ بھی غالبا لیوی نے ہی بیان کیا تھا کہ ستارہ داودی کے پانچ کونوں میں سے روحانی علامت کونسی ہیں اور شیطانی کونسی۔ خیر یہ ایک الگ موضوع ہے۔

یہاں اختتام نہیں ہوتا۔۔ قبالائی متن اور یتزیراہ کے متاثرین باطنی علوم کے علاوہ فلسفہ اور لسانیت میں بہت ہیں، معروف فلسفی اسپی نوزا یہودی تھے، ان کا تصور خدا بہت حد تک سیفیر اور قبالہ سے متاثر ہے، رد تشکیل یا ڈی کنسٹرکشن سے جانے جاتے مابعد جدیدیت کے معروف فلسفی دریدا قبالائی علامت نگاری کا شکار ہیں۔

تصوف میں شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی نے وحدت الشہود کا نظریہ دیا۔ اپنی کتاب میں آنجناب فرماتے ہیں افلاطون سمیت تمام یونانی فلسفی بدبخت تھے جنہوں نے ایمان لانے کی بجائے حضرت عیسی کی کتاب سے باتیں چرا لیں۔ اب افلاطون کی وفات ہی تین سو ق م کی ہے، یعنی حضرت عیسی کی پیدائش سے تین سو برس قبل سو دلچسپ غلطی ہے مگر ان کی بات اس حساب سے درست ہے کہ افلاطون کے معروف ترین مکالمے ٹائمس میں جہاں تخلیق کائینات کو بیان کیا ہے اور مختلف مرکبات کے تناسب اور ratio کا تذکرہ ہے یہ کسی حد تک سیفیر یتزیراہ سے اخذ ہے۔ مسلم کتب میں حکیم افلاطون کے نام سے جو باتیں منسوب ہیں وہ ٹائمس اور سیفیر ییتزیراہ کا ملغوبہ ہیں۔

ادب میں میجک رئیلزم کے گورو، فرانز کافکا کی علامت نگاری کو بھی قبالہ اور سیفیر یتزیراہ سے جوڑا جاتا ہے؛ جاری ہے

julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply