کراچی کے خوبصورت گاؤں/زید محسن حفید سلطان

کل رات ہمارے معاذ بھائی نے بار بی کیو پارٹی کا اہتمام کر لیا ، ہم سارے دوست ملیر پہنچ گئے اور شاندار پارٹی سے لطف اندوز ہوئے ، پارٹی کیا یوں سمجھیے کہ معاذ کی طرف سے پُر تکلف عشائیہ ہی ہو گیا ، خوب محفل جمی ، باتیں ہوئیں ، قہقہے لگے ، کھانے کے دور چلے ، مشروبات پیش کئے گئے اور شیریں لہجوں میں شیریں ماکولات سے لطف اندوز ہوئے ، آخر میں پان منہ میں دبا کر پچکاری ماری اور کراچی والے ہونے کا حق بھی ادا کیا ، لیکن جہاں تک شکریہ کا حق معاذ رکھتے ہیں وہ ہم ادا نہ کر پائے۔ ۔اس لئے ان کا ایک بار پھر شکریہ !

ساری رات کے جاگے ہوئے فجر کی نماز ادا کی ادھر افق پر روشنی پھیلنا شروع ہوئی اُدھر آئی ہوئی نیند بھی کوسوں دور چلی گئی۔

اب دل  ہُوا کراچی کی سڑکیں ناپنے کا ، ہمارا ارادہ تھا کہ ساحل سمندر کا رخ کریں اور لہروں کے تھپیڑوں سے گرمی کو دور بھگائیں ، لیکن اسی دوران خیال آیا کہ کیوں نا “میمن گوٹھ” کا رخ کیا جائے ، ہم اس جگہ کو کوئی صحرا نما یا غیر آباد زمین سمجھ کر اپنے سفر پر نکل پڑے ، دو  موٹر سائیکلیں اور پانچ افراد۔

سفر شروع ہوا تو کچھ ہی دیر بعد ہم صاف ستھری سڑک پر نکل آئے ، پتا چلا یہ سب بحریہ ٹاؤن کی طرف سے تعمیر کی گئی سڑکیں ہیں جو ٹاؤن کو شہرِ کراچی سے ملاتی ہیں۔

کچھ دیر گزری کہ اچھا خاصہ آباد علاقہ آیا جہاں “مراد میمن فٹبال گراؤنڈ” قابلِ توجہ تھا اور اب ہم میمن گوٹھ میں داخل ہو چکے تھے اور جلد ہی ہمیں یہ اندازہ ہو گیا کہ یہ صرف میمن گوٹھ نہیں بلکہ یہاں کئی ایک گوٹھ ہیں جن میں “شہید حسین گوٹھ” ، “گوٹھ محمد اسحاق” “السید گوٹھ” اور بہت سے گوٹھ شامل ہیں۔

موٹر سائیکلیں  بھگاتے آبادی ختم ہوئی اور اب سڑک کے دونوں جانب خوبصورت باغات شروع ہو گئے ، سامنے سے سورج کی ابتدائی کرنیں موسم کو مزید خوبصورت کئے دے رہی تھیں اور وقفے وقفے سے نظر آتے ہوئے بھینسوں کے باڑے ہمیں یقین دلا رہے تھے کہ ہم کراچی میں ہوتے ہوئے بھی گاؤں کے مزے سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔

ہم مختلف سبزیوں اور انواع و اقسام کے پھولوں کے باغات اور کھیتوں کے پاس سے گزر رہے تھے ، درختوں سے کچھ ہماری نا آشنائی تھی اور کچھ باڑ کے طور پر بچھائی گئی جھاڑیوں کی اوٹ تھی کہ ہم درختوں پر لگی چیزوں سے نا واقف ہی رہے ، البتہ ایک جگہ کڑی پتے کی مزے دار سی خوشبو نے اپنے ہونے کا ثبوت دیا اور کہیں کہیں پپیتے کے درخت کی بھی پہچان ہوئی ، سیف اللہ کو انور رٹول آم بھی نظر آیا تھا جس کے نظارے سے ہم محروم ہی رہے۔

پکی سڑک کو چھوڑ کر ہم کچھ دیر بعد کچے راستے پر اترے تو بالکل ویسا ہی ماحول تھا جیسے گاؤں دیہات میں ہوتا ہے ، لہلہاتے کھیت جن میں کھیلتے ہوئے بچے ، کٹائی کرتے ہوئے بڑے اور دور درخت کے سایہ میں چارپائی پر برا جمان بزرگ سب ہماری طرف متوجہ ہو جاتے ، اِدھر کوئی گائے بیل ہانکتا ہوا نظر آتا تو اُدھر عورتیں ایک مٹکا ہاتھ میں اٹھائے  اور دوسرا سر پر ٹکائے محوِ منزل نظر آتیں۔
کہیں کوئی اجنبی ٹکرا جاتا تو دانیال کا سندھی ہونا کام آتا ، ورنہ راستے سے واقفیت کیلئے معاذ کی قیادت کافی رہتی ، اور اس سارے سفر کو فہیم بھائی کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کرتے رہتے۔

دو ڈھائی گھنٹے گھوم کر ہم نے بہت سے کھیت کھلیان ، خوبصورت باغات اور دو چھوٹے اور ایک بڑا ٹیوب ویل دیکھا ، ایک ٹیوب ویل پر تاریں لگنے کی وجہ یہ معلوم ہواکہ بچہ ڈوب گیا تھا ، ہم تو سمجھتے تھے کہ ٹیوب ویل چھوٹا ہوتا  ہے لیکن وہ کافی گہرا تھا تقریبا سات فٹ گہرا۔

اس سفر میں جو سب سے حیران کن چیز میرے لئے تھی وہ تھے بڑے بڑے اور گہرے گہرے کنوئیں جن کی گہرائی اصل میں کتنی ہے اس سے تو ہم واقف نہیں لیکن جہاں تک پانی تھا وہ گہرائی تین یا چار مالے (کم و بیش 30 یا 40 فٹ) تو ضرور ہوگی اور گولائی بھی اچھی خاصی تھی ، لیکن حیران کن طور پر اتنے گہرے کنوؤں پر کوئی حفاظتی اقدام نہیں ، اور ساتھ ہی دوسری حیران کر دینے والی بات یہ تھی کہ کنویں کا پانی اوپر سے دیکھنے میں کافی گندا نظر آ رہا تھا لیکن جس پائپ کے ذریعہ کنویں سے ٹیوب ویل تک پانی آ رہا تھا وہ پانی بڑا شفاف تھا اور اتنا مزے دار اور ٹھنڈا کہ سورج کی بڑھتی ہوئی تپش کو دیکھتے ہوئے دل چاہا کہ کیوں نا ایک ڈبکی لگا لی جائے اور پھر جب ہم نے ڈبکی لگائی تو دل ہی نہ چاہا باہر نکلنے کا ، شاید اتنے صاف پانی کا تصور بھی کراچی کے بہت سے لوگ نہ کر پاتے ہوں جتنا یہاں پر کنویں سے نکل کر کھیتوں کو سیراب کرنے والا پانی تھا۔

کراچی کے اس گاؤں میں گھوم پھر کر ہمارے ذہن میں ایک سوال ابھرا کہ بالآخر ان کنوؤں کا نام ، تاریخِ پیدائش اور افزائش پھر اسباب و وجوہاتِ عدم آرائش کیا ہیں؟

اس کیلئے جب ہم نے گل حسن کلمتی مرحوم (جو کراچی کی تاریخ پر مستند حوالہ ہیں) کا رخ کیا تو ہمیں ان کا ایک مضمون “ڈملوٹی کے کنویں” ضرور ملا جس میں 1865 میں انگریز کے کچھ منصوبے ضرور نظر آئے لیکن ہمیں یہ کنویں ان منصوبوں سے علیحدہ لگتے ہیں کیونکہ مزید معلومات میں آج سے ڈیڑھ صدی قبل تعمیر کئے گئے ان کنوؤں کی تعداد گیارہ بتائی گئی جس میں سے آج فقط دو ہی موجود ہیں ، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم تین کنویں دیکھ آئے ہیں اسی لئے ہمارا اندازہ یہی ہے کہ یہ تینوں کنویں “ڈملوٹی” کے کنویں نہیں ہیں ، اور انہیں بعد میں کبھی تعمیر کیا گیا ہے۔

julia rana solicitors london

اس حوالے سے کوئی بھی جانتا ہو تو ضرور بتائے ہم تو ابھی تک کراچی کے ان گاؤں گوٹھوں کے سحر میں مبتلا ہیں اور وہاں سے ذہن پر ثبت ہوا کھیتوں کا لہلہانا ، پرندوں کا چہچہانا ، پھولوں کی مہکار ، پنچھیوں کی چہکار ، ریاحِ صاف ، آبِ شفاف ، سر اٹھاتا آفتاب اور رخِ بے حجاب ابھی بھی خواشگوار سا سکون بخش رہا ہے۔

Facebook Comments

زید محسن حفید سلطان
ایک ادنی سا لکھاری جو ہمیشہ اچھا لکھنے کی کوشش کرتا ہے!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply