اِک آگ کا دریا ہے/ناصر عباس نیّر

ایک زندہ شخص پر پہلےاجتماعی تشدد کرنا، پھراس کے کٹے پھٹے، زخموں سے چور پنجر کو جلادینا ،اور بعد ازاں اس کی راکھ کو بھی اڑادینا ۔
ہوسکتا ہے کہ یہ درست ہو کہ تاریخ خودکو نہیں دہراتی ،اور وقت کے دریا میں ایک مقام پر دو بار قدم نہیں رکھا جاسکتا، مگر اس واقعے کے ضمن میں تاریخ اور وقت اور طرح سے کام کررہے ہیں :یہ واقعہ خود کو مسلسل دہرارہا ہے۔یہاں تک کہ اس واقعے کی جزئیات میں بھی بہت کم فرق ہوتا ہے۔یہ آگ کاایسادریاہے،جومسلسل بہہ رہاہے۔
بس جگہ اور مقام بدلتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس واقعے کے سلسلے میں جگہ کا اختصاص ہی ختم ہوگیا ہے۔ یہ ہمارے ملک میں ، کہیں بھی ،کسی بھی وقت رونما ہوسکتا ہے۔ کہیں کسی موقع پر ایک ہجوم اکٹھا ہوسکتا ہے اور کوئی بھی اس کا نشانہ بن سکتا ہے۔ ہمارے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے، کام کرنے والے ، سفر وقیام کرنے والے یا اجنبی ، ایک ہجوم بن سکتے ہیں ۔
نظری طور پر ہم میں سے کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔گویا ہم سب ازلی مردود ہیں اور ہم سب کو سزا سنائی جاسکی ہے،بس عمل ہونا باقی ہے۔

ہجوم میں سب سے اہم چیز جو منہا ہوتی ہے، وہ فرد ہے۔ فرد، شعورِ ذات ، انفرادی رائے اور ذمہ داری کے احساس کا حامل شخص ہوتا ہے۔ وہ عقل کو اپنے انسانی شرف میں سرفہرست رکھتا ہے۔ وہ سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کے قبول نہیں کرتا۔ جب کسی نتیجے پر پہنچتا ہے تو لاکھوں لوگ اس سے اختلاف کریں ،وہ اپنی رائے پر قائم رہتا ہے ۔اسے اپنی سوچی سمجھی رائے عزیزہوتی ہے، اس رائے کو تسلیم کرانے کا خبط نہیں ہوتا۔ وہ تنہائی قبول کر لیتاہے، دوسروں کی اندھی تقلید کرنے ،ان میں مقبول ہونے، ان پر کسی بھی طرز کی حکمرانی کی خواہش میں کوئی سمجھوتہ نہیں کرتا۔

ہجوم میں یہ فرد یکسر غائب ہوتا ہے۔ چناں چہ ہجوم ایک افواہ پر بھی جمع ہوسکتا ہے ،پہلے نعرہ زن ،پھر مشتعل ہوسکتا ہے ، اور اس کا اشتعال کسی بھی حد تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ ایک شخص ہی نہیں، پوری بستی ، پورے ملک ، پورے کرہ ارض کو جلا سکتا ہے۔ جہنم کی جس آگ کا ذکر ہم بائبل ، قرآ ن اور دانتے کے یہاں دیکھتے ہیں، وہ آگ یہ ہجو م بھڑکاسکتا ہے۔یہ پورے کرہ ارض کو اذیت کی وہ بھٹی بنا سکتا ہے ،جس کی آگ کبھی نہیں بجھتی۔ ہجوم کی انسانی خون کی پیاس بھی نہیں بجھتی۔

ہجوم ،نتائج کے ضمن میں مکمل طور پر بے نیاز ہوتا ہے۔اس کی وجہ بھی سمجھ آتی ہے۔ اشتعال خود ایک طاقت ہے،اندھی ، بے مہار طاقت، عقل کو معطل کردینے کے بعد پید ا ہونےو الی طاقت۔ دوسری طاقت خود ہجوم ہے۔ ہجوم میں شامل لوگ، ہجوم ہی کو اپنا محافظ محسوس کرتے ہیں ۔

ہجوم کے پاس طاقت ، صرف وہی نہیں ہے ،جو اسے اپنے وجود میں آتے ہی مل جاتی ہے، بلکہ اس کے پاس نظریے یا عقیدے کی طاقت بھی ہوتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ نظریہ یا عقیدہ یا ان دونوں کا امتراج ، ہجوم میں شامل لوگوں یا اس ہجوم کی قیادت کرنے والے نے خود اپنے ذاتی غوروفکر سے حاصل نہیں کیے ہوتے۔

ذاتی غور وفکر اور تحقیق سے اخذ کیے گئے نظریے میں ، ایک انسانی عجز لازماً ہوا کرتا ہے،ا س بات کا عجز کہ انسانی ذہن اپنی مخلصانہ کوشش کے باوجود غلطی کرسکتا ہے۔ چناں چہ اسے دوسروں تک پہنچایا تو جاتا ہے مگر دوسروں پر مسلط نہیں کیا جاتا۔ دوسری طرف جو نظریہ ، کسی بیرونی اتھارٹی سے(ریاست، مذہبی جماعتیں، گروہ وغیرہ ) ، اس کی غیر مشروط اطاعت کے نتیجے میں قبول کیاجاتا ہے، اس میں عجز کی جگہ تکبر آمیز تیقن ہوتا ہے،اور وہ اپناتسلط چاہتا ہے، اور اس تسلط کے حق میں دلائل بھی رکھتا ہے۔آدمیوں ،بستیوں ، شہروں کو جلادینے کے باقاعدہ دلائل دیے جاتے ہیں۔یہ دلائل لوگوں کو قائل نہیں کرتے ،خوف زدہ کرتے ہیں۔

ایک عجب صورت ِ حال یہ ہے کہ حقیقی دانش ور وں کی کوئی جماعت نہیں ہوتی، جب کہ نظریہ وعقیدہ پسندوں کے مقتدر گروہ ہوا کرتے ہیں۔ اسی ضمن میں ایک المیہ یہ ہے کہ حقیقی دانش وروں کے اختلافات ، نظریہ و عقیدہ پسندوں کی طاقت کی جارحیت کو مزید کھل کھیلنے کا موقع دیتے ہیں۔ چناں چہ صرف ایک زندہ شخص کو جلائے جانے کے واقعے ہی کی تکرار نہیں ہوتی، اس پر ایک ہی نوع کے ردّعمل کی تکرار بھی ہوتی ہے۔ ہم اس جہنم سے نکلنے کے لیے ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ پارہے۔
ہمیں ایک دریا کے بعد ایک اور دریا کا سامنا نہیں ہے،ایک ہی آگ کا دریا ہے، جس میں ہمیں بار بارڈبویا، جلایا ،راکھ کیا جارہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بلاشبہ اس واقعے کا پہلا ذمہ دار ہجوم ہے، پھر اس ہجوم کو نظریاتی غذا فراہم کرنے والے ذمہ دار ہیں اور اس کے بعد ہم سب ذمہ دار ہیں، جو یا تو خاموش رہتے ہیں یا اس واقعے کے سلسلے میں وہ تاویلیں دیتے ہیں جو ہجوم کے عمل کو جائز قرار دینے والی ہوتی ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply