رومی سلطنت بارے چند سوالات/ڈاکٹر مختیار ملغانی

متحدہ رومی سلطنت کے آخری شہنشاہ تھیوڈوسیئس ،395 عیسوی میں انتقال سے قبل سلطنت کو اپنے دو بیٹوں میں تقسیم کر دیتے ہیں، de jure اگرچہ یہ ایک ہی سلطنت تھی لیکن de facto اب یہ دو حصوں، مشرقی رومی سلطنت اور مغربی رومی سلطنت، میں تقسیم ہو چکی تھی ، مشرقی حصےکو بعد میں بازنطینی کا نام دیا گیا ۔

وقت کے ساتھ بازنطینی سلطنت نے اپنی وحدت اور وجود کو مستحکم رکھا لیکن مغربی رومی سلطنت کئی خود مختار بادشاہتوں میں ڈھلتی چلی گئی۔ اگرچہ de jure یہ رومی سلطنت انیسویں صدی تک باقی رہی جو چرچ کے ساتھ ایک مقدس مگر کچے دھاگے کے ساتھ کہیں نا کہیں بندھی رہی ، لیکن de facto رومی سلطنت کا کہیں کوئی وجود باقی نہ رہا۔ بادشاہوں میں جو زیادہ مضبوط ہوتا اسے ہی علامتی طور پر قیصر کا لقب دیا جاتا۔

بازنطینی سلطنت میں دینی اور دنیوی اقتدار ایک ہی شخص شہنشاہ کے پاس تھے، لیکن مغربی حصے میں کئی بادشاہتوں کی وجہ سے سیاسی یا دنیاوی حکمرانوں کی تعداد ایک سے زیادہ تھی اس لئے کسی ایک شہنشاہ پر کامل اتفاق مخمصے کا شکار رہتا، لیکن دینی اقتدار فرد واحد، رومی پوپ، کے ہاتھوں میں تھا اور اسی وجہ سے اقتدار کی کھینچا تانی مغربی حصے کا خاصہ رہی، کارل اعظم نے ایک کوشش ضرور کی کہ پوپ سے مذہبی اقتدار کو چھینا جائے، وہ یہ اعلان کرتے ہوئے سامنے آئے کہ شہنشاہیت خدا کا دیا عطیہ ہے اسی لئے وہ سیاسی اور مذہبی حاکمیت کے واحد اہل ہیں، پوپ نے جواباً کہا کہ پاپائیت جناب مسیح کی جاری کردہ رسم ہے جس پر آنچ آئی تو روحانیت کا ستیاناس ہو جائے گا ۔

شہنشاہ مادیت کا حاکم تھا اور پوپ روحانیت تھا، مادیت کی کمی شہنشاہ کے اقتدار کو خطرے میں لے آتی اور عوام کی مذہب سے دوری پوپ کیلئے اقتدار چھن جانے کا سب سے بڑا خطرہ تھی، پوپ کا انتخاب باقاعدہ الیکشن کے ذریعے ہوتا، اور سب سے متقی شخص کو پاپائیت کے عہدے پہ بٹھایا جاتا، شہنشاہ کیلئے سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ اگرچہ وہ سلطنت کے لوگوں کا شہنشاہ تھا لیکن ان لوگوں کا جو عیسائیت کے علمبردار تھے، اور عیسائیت کی علمبرداری کا ثبوت صرف پوپ کے پاس تھا، گویا کہ بظاہر اقتدار کی اصل کنجی پوپ کے پاس تھی۔ لیکن دوسری طرف پوپ کی حاکمیت جن عیسائیوں پر تھی وہ عیسائی اس خطے کے باسی تھا جو شہنشاہ کے زیرِ اقتدار تھا، اسی کنجی پہ قابض ہونے کی خواہش مستقبل میں کئی کھینچا تانیوں کو جنم دے گی۔

غالباً گیارھویں صدی عیسوی میں پوپ کو لگام ڈالنے کی کوشش کی گئی، جواب میں پوپ نے شہنشاہ کے زیرِ اقتدار خطے(یعنی پوری سلطنت) میں عیسائیت کی تمام رسومات کو حرام قرار دینے کا اعلان کیا، نتیجے میں غسل تعمید، شادیاں، جنازے اور دیگر رسومات پر پابندی لگا دی گئی، یہ ایسے ہی ہے جیسے آج کوئی حکومت تمام ہسپتالوں اور ڈاکٹروں پر عوام کے علاج معالجے کی پابندی لگا دے، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر کہ معاملہ دینوی زندگی کے ساتھ ساتھ اخروی سے بھی جڑا تھا، شہنشاہ کو تین دن تک پوپ کے سامنے گھٹنے رگڑنے پڑے تب جا کر معافی ملی۔ شہنشاہ کو شاید اندازہ نہیں تھا کہ اصل طاقت انسان کے شعور پہ اقتدار حاصل کرنا ہے، سیاسی یا معاشی اقتدار ثانوی ہے۔

مغربی حصے میں چرچ کی اجارہ داری سے مشرقی حصے( بازنطینی) کے کان کھڑے ہو گئے اور کئی اختلافات کی بنیاد پر چرچ کی وحدت کو توڑتے ہوئے دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔

گیارہویں صدی کے وسط میں مذہبی اقتدار کی دراڑ اب de facto کے ساتھ ساتھ de jure میں بدل گئی، مغربی چرچ کو catholic یعنی آفاقی کا نام دیا گیا، جبکہ مشرقی چرچ کو Orthodox کہا جانے لگا، گویا کہ وہ عیسائیت کی اصل روح پہ قائم تھے۔

مغربی سلطنت پر اصل حکومت پوپ کی تھی، قیصر ثانوی حیثیت میں رہا، جبکہ مشرقی سلطنت کا کرتا دھرتا قیصر تھا، چرچ کی اہمیت اس کے بعد تھی۔ بعد میں مورخین مغربی سلطنت کے اقتدار کو Pop- cerism اور مشرقی سلطنت کے اقتدار کو Cesar -popism کے نام سے پکارنے لگے۔

یہاں یہ بات یاد رہے کہ مشرقی سلطنت (بازنطینی) میں کتاب مقدس کو یونانی جبکہ مغربی حصے میں لاطینی زبان میں پڑھایا جاتا تھا ، یہیں سے سلطنت کے دو مختلف حصوں میں مختلف مزاج اور ذہنیت کار فرما تھی۔
ان دو چرچوں کے درمیان بنیادی فرق تین تھے۔

کیتھولک کے مطابق جبرائیل امین پر خدا اور جنابِ مسیح کا حکم ایک جیسا تھا ، آرتھوڈوکس کے مطابق حکم صرف خدائے واحد کا تھا، یہاں جنابِ مسیح بے بس تھے۔

دوسرا فرق یہ کہ کیتھولک کے مطابق جنابِ مریم کا حمل جبرائیل کی پھونک کا نتیجہ ہے، آرتھوڈوکس کہتے کہ یہ پھونک خدا کی ہے۔

کیتھولک بضد تھے کہ پوپ مکمل طور پر پوتر ہے ، کوئی بھی گناہ انہیں نہیں چھو سکتا، آرتھوڈوکس کے مطابق ہر انسان خطا کا پتلا ہے۔

چرچ کی تقسیم کسی طور سیاسی نہ تھی، اس کی اصل وجہ مغربی حصے میں پوپ کا بڑھتا اقتدار تھا، چوتھی صدی سے لے کر آٹھویں صدی تک حق وہی تھا جو قیصر کی زبان سے نکلتا، پوپ کی جرات نہ تھی کہ کوئی مذہبی خطبہ بھی بیان کر پاتے جب تک کہ قیصر کی مہر نہ لگی ہوتی، لیکن اس کے بعد پوپ نے پر پھیلائے اور مغربی حصے میں بادشاہتوں کی تقسیم در تقسیم نے قیصر کی طاقت کو تقسیم کیا تو اقتدار چرچ کو منتقل ہوا، اسی خطرے کو دیکھتے ہوئے بازنطینی حصے نے اپنے چرچ کو روم کے تسلط سے نکال لیا۔

پندرہویں صدی کے وسط میں بازنطینی سلطنت کیلئے سنجیدہ خطرے کے طور پر ترک سلطان سامنے آئے، اس خطرے کو محسوس کرتے ہوئے بازنطینی سلطنت نے اپنے بڑے بھائی روم سے مدد طلب کی، روم میں حقیقی اقتدار اب پوپ کے پاس تھا، پوپ نے شرط رکھی کہ مدد کو آسکتے ہیں اگر دوبارہ چرچ کو متحد کر دیا جائے، اس شرط پیچھے سلطنت کے دونوں حصوں پر پوپ کی کامل اقتدار کی خواہش کار فرما تھی، قیصر کو مشورہ دیا گیا کہ پوپ کی بجائے ترک سلطان کے ساتھ کچھ لے دے کے اتحاد کر لیا جائے، لیکن قیصر نے پوپ کو ترجیح دی، یہ سوچ کر کہ فی الحال ترکوں سے جان چھڑا لی جائے تو پوپ سے وہ بعد میں نمٹ لے گا، چرچ کو دوبارہ متحد کر دیا گیا، یہ اور بات کہ بعد میں سلطنت عثمانیہ کے سلطان محمد فاتح نے مضبوط فوج اور بہتر حکمتِ عملی کی بدولت رومی سلطنت کے مشرقی حصے (بازنطینی) کو زیر کر لیا۔

اب یہاں سوال یہ ہے کہ ہمارے مذہبی تقاریر و تحاریر میں یہ بات ہمیشہ کہنے سننے کو ملتی ہے کہ حضرت عمر کے دور میں مسلمانوں نے رومی سلطنت کو فتح کر لیا تھا ، کیا یہ بات تاریخی طور پر درست ہے؟

شام اور فلسطین کے حصے ضرور فتح ہوئے تھے لیکن کیا اسے رومی سلطنت کا سقوط کہا جا سکتا ہے؟

یہ شاید ایسے ہی ہے کہ پاکستان کے ہاتھ سے اگر کشمیر نکل جائے اور پاکستان کے سقوط کا اعلان کر دیا جائے۔

اسی طرح بنی امیہ کے دور میں یزید کے قسطنطنیہ پر حملوں کو لے کر بھی گاہے جنت کی بشارت کا کہا جاتا ہے، کیا یہ بات بھی تاریخی طور پر کہیں سے ثابت ہو سکتی ہے کہ بنی امیہ کے دور میں رومی سلطنت کو فتح کیا گیا یا اس کے دارالحکومت پہ زوردار حملے کئے گئے؟

قیصرو کسری کے محلات اکھاڑ دینے والی باتیں ہماری نرگسیت یا مبالغہ آرائی ہیں کہ ان کے پیچھے کوئی تاریخی حقائق موجود ہیں؟

Advertisements
julia rana solicitors

اس بابت کوئی سنجیدہ تحقیق اور مواد کسی کے پاس موجود ہے تو اسے عام کیا جائے یا پھر ان دعوؤں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply