انگریزی کی مخالفت تو عام سی بات ہے،مگر ہمارے ایک استاذ تھے وہ عربی زبان کے بڑے دشمن تھے۔ عربی معہد کے ساتھ انہیں خدا واسطے کا بیر تھا۔ کہا کرتے تھے کہ عربی معہد میں پڑھنے والے طلبہ گمراہ ہوتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ خود ایک قابل عالم دین تھے۔ اچھے مدرس تھے، مگر کہا کرتے تھے عربی پڑھنے والے گمراہ ہو جاتے ہیں۔ جانے کیوں اور کیسے مگر میرا خیال ہے وہ ٹھیک سمجھتے تھے۔ واقعی تعلیمی اداروں کے طلبہ کو انگریزی اور عربی سے دور رکھنے میں ریاست کے وسائل پر قابض قوتوں کو جو فائدہ ملاہے وہ بیان سے باہر ہے۔
عالمی زبانوں سے ناواقفیت انسان کو علم کے باوجود بھی لاعلمی اور بے خبری کی تاریک کال کوٹھڑیوں میں بند رکھتی ہے۔
ایسے شخص کا ذہن بہت آسانی کے ساتھ کسی ایک جانب موڑا جاسکتاہے۔ اس کا ریموٹ کنٹرول دوسروں کے ہاتھ میں رہتا ہے۔ یہ سوچ سمجھ سے عاری اور مستعار و اجرتی قسم کے خیالات اور افکار کے زیر اثر رہتاہے۔
ایسے نواطق کی بڑی ضرورت پڑتی ہے اور یہ بڑے کام کے لوگ ہوتے ہیں۔ ان کے ذریعے لاؤ ولشکر بنائے جاتے ہیں۔ جتھے بنائے جاتے ہیں۔ یہ بغیر اجرت کے نوکر ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس بین الاقوامی زبان سیکھنے والا بندہ اس تنگ فضاء سے نکلنے کے لئے پر تولتا ہے۔

وہ خول میں بند رہ کر نہیں سوچتا۔ آفاقی سوچ رکھتاہے۔ دوسری اقوام اور تہذیبوں سے آگاہی حاصل کرتاہے ۔ اس میں وسعت فکری آتی ہے۔ اور یہی چیز ریلیجیز فیوڈل ازم کے بخیے ادھیڑتی ہے جس کے نتیجے میں اعلی قوتوں کو نقصان ہوتاہے اور انہیں بوقت ضرورت بلوہ پھیلانے کے لئے اجرتی ٹولے ملنے میں دشواری ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ گھوڑے تو ہزاروں نکلتے ہیں مگر مقابلے کے چند ایک ہوتے ہیں۔ یہی تنویریت کی اصلی دشمنی ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں