انسان کی اوسط بائیولوجیکل عمر تقریباً اتنی ہی ہے جتنی ہومی نائیڈی فیملی کے دیگر پرائیمیٹس کی ہے یعنی تھوڑے بہت فرق کے ساتھ یہی کوئی اوسطاً چالیس سال کے لگ بھگ ۔ چمپینزی جو انسان کا قریب ترین کزن ہے اس کی بھی کوئی انتالیس سال کی عمر ریکارڈ کی گئی ہے۔ ایک غلط العام خیال جو ہمارے ہاں رائج ہے وہ یہ کہ زمانہ قدیم کے انسان کی عمر آج کے انسان کے مقابلے میں بہت زیادہ تھی۔ یہ خیال ایک دیومالائی فکشن کے سوا کچھ نہیں ہے ،ا س میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔جدید انسان دراصل ارتقائی اعتبار سے چالیس سال کی عمر کے لئے ہی ڈیزائین ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے انسان کو تمام تر سائنسی ترقی کے باوجود بڑھاپے کے اولین آثار چالیسویں سال میں نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ علم حیاتیات میں ترقی سے قبل بڑھاپے کی یہی عمر تیس سال کے بعد شروع ہوجاتی تھی جیسا کہ بونوبز جو کہ انسان کا ایک اور قریبی کزن ہے میں ہوتا ہے۔
فطرت نے جنسی تولید کرنے والے تمام ممالیہ جانوروں کو ایسے ڈھالا ہے کہ ان میں اس عمل کی صلاحیت اور پرفارمنس سن بلوغت پر پہنچتے ہی بلند ترین سطح پر ہوتی ہے۔ پھر کچھ عرصہ یہ اسی سطح پر رہنے کے بعد بتدریج کم سے کم ہوتی جاتی ہے۔ انسان کی موجودہ عمر دراصل اس کے ایجنگ کی رفتار کو کم کرنے کے عوامل دریافت کرنے ، ان کو سمجھنے اور بائیولوجیکل سائنسز میں ترقی کے باعث طویل ہوئی ہے۔ شعوری ترقی کے سفر میں انسان نے بیماریوں پر قابو پانا سیکھا اور ایجنگ کے قدرتی عمل کو سست کرنا سیکھا۔ جس کے باعث انسان کی اوسط عمر پہلے پہل چالیس سے بیالیس ، پینتالیس ، پچاس اور یوں موجودہ دور میں تقریباً ستر سال تک پہنچ گئی ہے۔
ایک دلچسپ امر یہ ہے کہ آج کرہ ارض پر انسان کی اوسط عمر ہر ملک اور خطے میں مختلف ہے۔ مثلاً طویل ترین انسانی عمریں رکھنے والے ممالک مناکو ، کینیڈا ، جاپان ، سنگاپور ، سوئٹزرلینڈ ، سویڈن ، ناروے ، مالٹا ، اٹلی ، آسٹریلیا وغیرہ ہیں۔ ان تمام ممالک میں لائف ایکسپیکٹینسی یعنی طول عمر کا اندازہ اسّی سال سے زائد لگایا گیا ہے۔اسی طرح کم ترین عمریں رکھنے والے ممالک میں چاڈ ، سوڈان، صومالیہ اور دیگر افریقی ممالک شامل ہیں جہاں اوسط عمر تقریباً ستاون سال ہے۔انسانی عمر پر موسم ، انسانی عادات ، جینیاتی میک اپ اور دیگر مختلف عوامل اثر انداز ہوتے ہیں۔ سائنسی ترقی کے باعث انسان کامیابی سے اپنی عمر کو بڑھانے میں کامیاب ہوا ہے۔ بےشمار جان لیوا امراض کا خاتمہ ہوچکا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے تک کی سائنسی تحقیق کے مطابق انسان کی زیادہ سے زیادہ عمر ایک سو بائیس سال تک جاسکتی تھی۔ کیونکہ اس کے بعد خلیات میں موجود کروموسومز میں مزید تقسیم کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے مگر حالیہ دریافتوں اور پیچیدہ ترین ٹیکنالوجیز تک رسائی نے یہ حد بھی ختم کردی ہے۔ سٹیم سیلز سمیت دیگر کئی سائنسی طریقے ہیں جن سے انسان کی عمر میں ہوشربا اضافہ ممکن ہے۔ انسان اپنی طبعی عمر میں زیادہ سے زیادہ کتنا اضافہ کرسکتا ہے یہ تو ہم سرِدست نہیں جانتے مگر انسان نے موت کو شکست دینے کی عملی کوششیں شروع کردی ہیں۔ امریکہ میں قائم Alcor life Ext ایلکور لائف ایکسٹینشن فاؤنڈیشن ایسی ہی ایک کمپنی ہے جو انسان کو مرتے ہی سپر کولنگ کے عمل سے گذار کر مائع نائٹروجن کے سلنڈر میں حنوط کردیتی ہے ، اس امید پر کہ ایک دن مستقبل قریب میں جب میڈیکل سائنس اتنی ترقی کرجائے گی کہ موت کو شکست دے دے تو ان لاشوں کو دوبارہ زندہ کردیا جائے گا۔ ایک خاص رقم جمع کروا کر دنیا بھر سے کوئی بھی امیدوار اس کمپنی کی ممبرشپ حاصل کرسکتا ہے۔ لیکن جب انسان ابدی زندگی حاصل کر لے گا تو اس کے اثرات کیا ہوں گے؟ یہ ایک طویل بحث ہے۔
خوشی جینے کی کیا مرنے کا غم کیا
ہماری زندگی کیا اور ہم کیا
(غالب)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں