سوز دیگراں/شاہین کمال

دس برس بعد اپنی بھانجی کی شادی میں شرکت کی غرض سے لینڈ آف پیور واپس آیا ہوں۔ میری فیملی شادی سے تین دن پہلے کراچی پہنچے گی۔ میں مغرب کی مشینی زندگی سے تھک گیا تھا اس لیے مہینے بھر کی چھٹی لے کر پہلے ہی آ گیا ہوں ۔ ارادہ تو یہی  ہے کہ ایک ہفتے کے لیے شمالی علاقے کی طرف نکل جاؤں تا کہ قدرت کی قربت سے مصنوعی دنیا کی آلودگی سے مصفا ہو کر قلب و روح کی تطہیر کر سکوں۔ آخری دفعہ دس سال پہلے بابا سائیں کی وفات پر کراچی آیا تھا پھر بچوں کا مستقبل بنانے کی دُھن میں کمائی نے ایسا جکڑا کہ  دین دنیا ہی بھول بیٹھا۔ جوانی میں دین ویسے ہی کم کم ہی یاد رہتا ہے۔

میرا تعلق ایک سجادہ نشین خاندان سے ہے۔ مرتبہ، عزت اور دولت گھر کی لونڈی ہے۔ شکر ہے کہ  میں گھر کا چھوٹا ہونے کی وجہ سے  گدی پر متمکن نہیں ہوا، اور جو سچ پوچھیں تو مجھے تسبیح پھرولتے ہوئے ہاتھوں پر بوسے ثبت کروانے کا کوئی شوق نہ تھا۔ میں کہ ٹھہرا آزاد روح۔ صحافت میں ایم۔ اے کرتے ہی بابا سائیں کی ناراضگی کے باوجود لینڈ آف اوپرچیونٹی(land of opportunities) کی طرف پرواز کر گیا۔ خوب کھل کھلا کے جیا، آدھی سے زیادہ دنیا دیکھی اور ہر ممنوع شے چکھی اور برتی بھی ۔ جو خدا لگتی کہوں تو اب بڑھاپے کی دہلیز پہ قدم دھرتے ہوئے خجالت اور زیاں کا احساس شدید۔ جب مارتھا ٹائیٹ جینز اور تنگ ٹی شرٹ پہنتی تھی تو میرے جذبات اتھل پتھل ہو جاتے تھے پر اب جب مومل، میری بیٹی اسکن ٹائیٹ کپڑے پہنتی ہے تو میری آنکھیں شرم سے جھک جھک جاتی ہیں۔ پچھتاوے بڑھ جاتے ہیں، خسارے ڈسنے کو آتے ہیں۔ شکر کہ بابا سائیں حیات نہیں ورنہ مارتھا اور مومل کے ساتھ میں ان سے آنکھیں کیسے ملا پاتا؟ یہ بھی اچھا ہے کہ شادی کراچی میں ہے گاؤں میں نہیں ورنہ وہاں ان دونوں کی وجہ سے بہت بدمزگی ہوتی۔

گھر خالی تھا بہن، بھانجی شاپنگ پر اور بہنوئی اور بھانجے فیکٹری میں مصروف۔ میں بےکار لیونگ روم میں بیٹھا، ٹی۔ وی پر چینل سرچ کر رہا تھا کہ یکدم اسکرین کی طرف دیکھتے ہوئے میرے ہاتھ اور آنکھیں ساکت ہو گئیں۔
“او میرے خدا! یہ تو وہی تھی”۔
کہیں آج روزِ حشر تو نہیں ؟
وہ تقریباً ویسی ہی تھی بس عمر نے چہرے کی لکیروں میں قدرے اضافہ اور گزرتے وقت نے بدن کو کچھ بھاری پن عطا کیا تھا۔ اب بھی ویسی ہی سادی اور کھری جو اس کا طرّہ امتیاز تھا۔
میں نے ٹی۔ وی آف کیا اور اپنی یادداشت کے سہارے اسے گوگل پر سرچ کرنا شروع کیا۔ خاصی معروف سماجی شخصیت تھی سو لسٹ میں تیسرے نمبر پر ہی مل گئی۔
میں ششدر تھا کہ وہ کہاں سے کہاں پہنچ گئی؟
مجھے اپنے کہے ہوئے جملوں کی بازگشت سنائی دی۔ وہ جملے کب تھے؟
وہ یقیناً نیپام بم تھے۔ میری یادداشت میں اس کی پھٹی آنکھیں اور نچڑتا چہرہ ابھر آیا اور میں اپنی ہی نظروں میں حقیر اور بونا ہو گیا۔

جوانی تو سب ہی کی دیوانی ہوتی ہے۔ جب پیسہ، شاندار خاندانی پس منظر اور شخصی وجاہت بھی ہو تو جوانی دوآتشہ ہو ہی جاتی ہے۔ نظروں میں عام آدمی حقیر اور معدوم ہو جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے اگر آپ کم ظرف بھی واقع ہوئے ہیں تو آپ کھنکھناتے سکّے سے انسان ہو یا چیز، مول تول کرنے لگتے ہیں۔ آپ کے لیے دنیا محض ایک بازار بن کر رہ جاتی ہے ۔ ایسے میں ہالی موالی اور اطراف کے خوشامدی اس عادتِ بد کو اپنے چھچھورے فقرے بازی سے مزید مہمیز کرتے ہیں۔

میں نے جب جامعہ کراچی میں داخلہ لیا تو اپنی کراچی کی کوٹھی کی اپنے ذوق کے مطابق تزئین و آرائش کروائی اور خادموں کے لاؤ لشکر سمیت کراچی فروکش ہوا۔ میری کوٹھی میں یار بیلی کے لیے کھلا کھاتا تھا اور میں یار دوستوں کے ساتھ پورے شہر میں اپنی ریڈ پجیرو اُڑائے پھرتا۔ لڑکیاں بھی مسئلہ نہیں تھیں، جدھر نظر اٹھائی وہیں پذیرائی سی پذیرائی ۔
میری ایک کلاس فیلو تھی۔ باوا آدم کے زمانے کی یا شاید موہنجودڑو کے نوادرات والی ڈانسنگ گرل۔ وہ جو بھی تھی بلاشبہ خزینہ تھی۔ بالکل سنہری رنگت اور شب دیجور سے بھی زیادہ سیاہ بال اور آنکھیں!

آنکھیں تو ایسی قیامت کہ تمام میخانوں پر تالہ ہی ڈلوا دیں ۔ گھبرائی گھبرائی اور چوکنی سی، کسی دہشت زدہ آہو کی مانند ۔ جیسے کوئی بھٹکا ہوا غزال شہر آ جائے۔ اس کی کوئی دوست نہیں تھی۔ اکیلی ہی ڈیپارٹمنٹ سے لائبریری اور پوائنٹ جاتی۔ اسے کبھی کینٹین بھی جاتے نہیں دیکھا۔ اس کے حلیے سے غربت اور چہرے سے ذہانت ہویدا تھی۔ ایسی دبو جھنپو لڑکیاں مجھے بالکل پسند نہیں تھیں اور نہ ہی وہ میرے معیار کی تھی مگر مصیبت یہ تھی کہ ظالم خوبصورت بہت تھی۔ محاورہ گدڑ ی میں لعل شاید اسی کو دیکھ کر ایجاد کیا گیا تھا۔ پڑھنے میں بہت ہشیار ۔ پہلی سے تیسری پوزیشن میں سے کوئی ایک یقیناً اسی کی ہوتی۔ بیوقوف اتنی کہ جو بھی لڑکی نوٹس مانگتی بنا چوں چرا کیے دے دیتی۔ وہ سب سے ایک حد فاضل پر رہتے ہوئے سر اٹھا کر چلتی تھی اطراف سے مکمل طور پر بےنیاز۔ اس کا حسن نظر انداز کئے جانے کے قابل نہ تھا۔ مجھے یقین واثق کہ وہ اپنے  حسن کی قیمت سے بھی ناواقف تھی۔

میری تمام تر توجہ اور بناوٹی اخلاص اسے رجھانے میں ناکام رہے۔ حتی کہ  یونیورسٹی میں منائی گئی میری سالگرہ کے کیک کو بھی اس نے کھانے سے انکار کر دیا۔ یہ میری اَنا پر ضرب کاری تھی۔ میں ویسے تو وقت ضائع کرنے کا قائل نہیں کہ،
“تو نہیں اور سہی، اور نہیں اور سہی”
ہمیشہ میرا موقف رہا مگر مسئلہ یہ ہے کہ مرد کی ایگو ہرٹ ہو اور وہ نچلہ بیٹھ جائے ؟
وہ بھی میرے جیسا خود پرست اور منتقیم مرد!

بظاہر تو میں نے اس کے گریز اور انکار کو کوئی اہمیت نہیں دی مگر میں اندر ہی اندر تلملایا ہوا تھا گویا چوٹ کھایا ہوا ناگ۔ آپ تو جانتے ہی ہیں “شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفادار “۔ سو میرے بھی بہت سے پالتو تھے۔ بس ایک کو ہڈی ڈال کر میں نے اس کے پیچھے لگا دیا۔ پانچ دن کے اندر اندر اس کے متعلق مفصل رپورٹ میرے ہاتھوں میں تھی۔ میں حیران کن خوشی کا شکار تھا کہ رپورٹ میری توقع سے زیادہ چٹپٹی اور مصالحے دار تھی۔

فائنل ایگزام چل رہے تھے اور وہ سیکنڈ لاسٹ پیپر تھا۔ جیسے ہی پیپر لیکر سر آڈیٹوریم سے باہر نکلے میں نے ٹیبل بجا کر طالب علموں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ سب اپنے قلم اور بیگ سنبھالتے سنبھالتے رک گئے۔ میرے دوستوں نے آڈیٹوریم کے چاروں دروازے بند کر دئیے اور میں نے بڑے ڈرامائی انداز میں کہا کہ “آج آپ لوگوں کو ایک ایسی شخصیت کے متعلق بتانا ہے جو یہاں ہے مگر اسے یہاں نہیں ہونا چاہیے کہ ایک گندی مچھلی سارے جل کو گندہ کرتی ہے۔ وہ ایک بدنام زمانہ ہے اور بے دھڑک ہم شرفا کے درمیان اٹھتی بیٹھتی ہے جب کہ وہ ایک پیشہ ور تارا بائی کی اولاد ۔”

میں نے تمسخر سے “پارسا” کو دیکھا۔ اس کی پھٹی پھٹی آنکھوں، نچڑتے رنگ اور بے بسی سے پھڑکتے ہونٹوں کو۔ مجھے اس پر بالکل بھی ترس نہیں آیا۔ کلاس میں ایک دم شور مچ گیا “کون ہے؟ کون ہے؟”

سب اس بات کو مذاق کے طور پر لے رہے تھے۔ میں نے کہا” اس ہر دل عزیز اور عزت مآب طالبہ کا نام ہے “پارسا احمد” ۔
کلاس میں یک دم سناٹا چھا گیا اور ہر شخص سکتے کی سی کیفیت میں پارسا کو تکے جا رہا تھا۔ پھر پارسا کو میں نے دیوانوں کی طرح کلاس سے بھاگتے دیکھا۔

کلاس میں چہ میگوئیاں عروج پر تھیں۔ مجھے یقین تھا کہ وہ آخری پیپر دینے نہیں آئے گی مگر وہ پیپر شروع ہونے کے دو منٹ بعد کلاس میں آئی اور وقت ختم ہونے سے دس پندرہ منٹ پہلے ہی پیپر سبمٹ کر کے واپس چلی گئی ۔ وہ آخری دن تھا جب میں نے پارسا کو دیکھا تھا مگر سچ تو یہ ہے کہ اس دن میں نے پارسا کو نہیں بلکہ پارسا کی زندہ لاش دیکھی تھی۔

میں پارسا احمد ہوں اور اپنی ولدیت اور شناخت سے نا آشنا۔ میں نہیں جانتی کہ میں محبت کی بھول ہوں، گناہ کا ثمر ہوں یا غربت کا بدترین شکار۔ مجھے کوڑے کے ڈھیر پر سے اٹھانے والی نے “پارسا” نام دیا اور یہ یقیناً اس کا بڑا پن تھا ۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کسی شریف انسان کو کوڑے کے ڈھیر پر چیونٹیوں کا شکار اور بے بسی سے اذیت کی موت مرتی ہوئی اس بچی پر ترس نہیں آیا۔ کسی نے اپنے ہاتھوں اور دامن کو اس گند سے آلودہ نہیں کیا۔ پناہ اس نے دی جس سے یہ شریف معاشرہ پناہ مانگتا ہے۔ مجھے تارا بائی نے کوڑے کے ڈھیر سے اٹھا کر سینے سے لگایا۔ شاید اپنی پیاسی ممتا کی تسکین اور اپنی دوسراہٹ کے لیے کہ دھتکارے کا درد ٹھکرایا ہوا راندہ درگاہ ہی جان سکتا ہے۔

تارا بائی کی کہانی بھی خوب ہے۔ یہ اپنے وقت کی نامی گرامی طوائف تھی۔ شہر میں اس کے حسن کا شہرہ تھا اور ہر دل پر اسی کا عکس ۔ عیش کے دن تھے اور کیش کی راتیں۔ پر بے مروت وقت کب ایک سا رہتا ہے؟

تارا بائی کے معاملے میں ایک وڈیرے اور چودھری میں ٹھن گئی۔ تارا نے وڈیرے کے حق میں فیصلہ دیا۔ چودھری صاحب کیسے مونچھ  نیچی ہونے دیتے، انہوں نے تارا بائی پر تیزاب پھینکوا دیا اور کوٹھے کو نذر آتش  کردیا کہ یہ بھڑکتی آگ ہی ان کے آتشِ غضب کو ٹھنڈا کر سکتی تھی۔ تارا بائی بہت مشکل سے بچی مگر جل کر کندن تو نہیں البتہ کوئلہ ضرور ہوگئی ۔ ایک آنکھ بہہ گئی، ناک سرے سے غائب بس دو سوراخ رہ گئے اور آدھا ہونٹ ناک تک چڑھ آیا۔ گردن کی کھال ایسی جلی کہ کندھے چہرے سے جڑ گئے۔

جب تارا نے خود کو آئینہ میں دیکھا تھا تو کامل تین دن بےہوش رہی۔ طبلچی چچا واحد تھے جنہوں نے اس حال میں ساتھ نبھایا۔ کوٹھا جلا، روپ اور روپیہ ختم ہوا تو سارے دلدار بھی منہ موڑ گئے۔ سازندے دوسرے کوٹھوں پر چڑھ گئے ۔ تارا بائی کی بدشکلی کی وجہ سے کوئی اسے ماسی بھی رکھنے کو تیار نہ ہوتا کہ اسے دیکھ کر بچے ڈر جایا کرتے تھے۔ اس کی بدشکلی دلوں میں ترس نہیں بلکہ دہشت بھر دیتی تھی۔

جب کٹھور دنیا اپنے دروازے بند کر لیتی ہے تب بھی اس سخی داتا کا دروازہ کھلا رہتا ہے۔ گو اس کے نوازنے کے طریقے مختلف ہیں مگر وہ کبھی کسی کو بےآسرا نہیں چھوڑتا۔ وہ تو بس ایک دل گیر پکار اور ایک اشک ندامت کی دوری پر ہے۔

تارا بائی کو بھی پناہ مل گئی، سوسائٹی کی گلی نمبر پانچ کا کالا گیٹ جو اماں جی کی کوٹھی سے معروف تھا تارا بائی کا نیا مسکن ہوا۔ اماں جی چار ولایت گزیدہ بیٹوں کی ماں تھیں جن کے پاس اماں جی کے لیے پاؤنڈز تو بے شک بہت تھے پر وقت نہیں تھا۔ تارا بائی بھیک مانگنے ان کے دروازے پر گئی اور فیض یاب لوٹی۔ تارا بائی ان کے سرونٹ کوارٹر کے ایک کمرے میں رہتی، ان کے گھر کا جھاڑو برتن کرتی اور اس کے ساتھ ساتھ دو اور گھروں میں بھی کام کرتی کہ اسے پارسا کی تعلیم کے لیے بہت سے پیسے چاہیے تھے۔ پارسا کے لیے اس نے بہت اونچےخواب بُنے تھے۔ اس کو ایک نیک نام زندگی دینے کے لیے تارا بائی نے اپنی ہڈیوں کو گھلا دیا۔ وہ جس نے کبھی ہل کر پانی نہیں پیا تھا اب ہر وہ کام کرتی جس سے چار پیسہ کمایا جا سکے۔ پائی پائی دانت سے پکڑ کر خرچ کرتی۔ ساتھ ہی اس نے پارسا کو بھی محنت کا عادی بنا دیا۔

جب تک اماں جی حیات تھیں دونوں ماں بیٹی کی زندگی قدرے آسان اور محفوظ۔ اماں جی کا ان دونوں ماں بیٹی پر سب سے بڑا احسان یہ تھا کہ انہوں نے ان دونوں کو قرآن پاک سے روشناس کرا دیا۔ تارا بائی جس کی خوش نوائی کا ایک عالم مرید تھا اب اس کے لحن کے سوز سے اڑتے پرندے ڈال پر بیٹھ جاتے کہ یہ کلام دل سے نکل کر دلوں کو مسخر کرتا تھا۔

اماں جی کی آنکھیں بند ہوتے ہی بیٹوں نے جن کے پاس جیتی ماں کے لیے تو وقت نہیں تھا مگر بےجان کوٹھی کی کشش ان کو سات سمندر پار سے کھینچ لائی اور دسویں سے پہلے پہلے ہی کوٹھی کا سودا ہو گیا اور تارا بائی اور پارسا دوبارہ سڑک پر آ گئے۔

پارسا نے میٹرک سے ہی ٹیوشن پڑھانی شروع کر دی تھی مگر جیسے ہی لوگوں پر اس کی حقیقت عیاں ہوتی لوگ اپنے بچوں کو ٹیوشن سے ہٹا لیتے۔ اماں جی کی وفات کے بعد گویا زمین ہی تنگ ہو گئی تھی۔ بڑی مشکلوں سے سرجانی میں امام صاحب کی سفارش پر کرائے کی ایک کھولی ملی۔ غریبوں کی بستی میں ٹیوشن کہاں؟ سو پارسا   پڑھائی کے ساتھ ایک انڈسٹریل ہوم میں سلائی سیکھانے پر مامور ہوئی۔ رات میں ایک گھنٹہ گھر پر عورتوں کی تعلیم بالغاں کلاس بھی شروع کی۔ اردو اور حساب کی شد بد اور کچھ صحت عامہ کی معلومات۔ یہ پہلا چراغ تھا جو اس نے انٹر کی تعلیم کے دوران جلایا۔ پھر پڑھنے اور پڑھانے کا جنون بڑھتا ہی چلا گیا۔ تعلیم کی لگن ایسی کہ پہلے عورتوں کی کلاس پھر بچوں کو بھی مفت تعلیم دینے لگی۔

تارا ماں کے ہاتھوں میں اللہ تعالیٰ نے شفا رکھ دی تھی۔ یوں وہ سند یافتہ نہ ہوتے ہوئے بھی بہت آسانی سے زچگی کرا دیتی۔ ہوتے ہوتے دونوں ماں بیٹی اس پسماندہ علاقے کی اہم ترین ضرورت بن گئیں ۔

تارا ماں بچوں کو قرآن پاک پڑھانے کا ہدیہ نہیں لیتی تھیں کہ یہ کام وہ اپنی پچھلی زندگی کی مغفرت کی خاطر فی سبیل اللہ کرتیں۔ روٹی روزی کے لیے زچگی کرواتیں اور اس کے علاوہ جو بھی کام مل جاتا کرتیں۔

پارسا نے ماسٹر کے لیے صحافت کا انتخاب کیا اور اپنی پڑھائی اور کام کے ساتھ تیزاب سے جھلسائے جانے والے کیسز پر کالم بھی لکھنا شروع کر دیا۔ یہ تارا ماں کا بے لوث جزبہ اور ان تھک محنت ہی تھی جس نے پارسا کو ہمیشہ باہمت رکھا۔

پارسا کی زندگی کا سخت ترین دن وہ تھا جب شاہ جی نے بھرے آڈیٹوریم میں اس کے سر سے شناخت کی چادر کھینچی تھی مگر اس سخت اور دلگیر لمحے میں جب وہ ہمت ہی نہیں زندگی بھی ہارنے والی تھی تب تارا ماں اس کا حوصلہ بن کر کھڑی رہی اور اسے آخری پرچہ دینے پر آمادہ کیا۔ نہ صرف آمادہ کیا بلکہ اسے خود جامعہ لیکر گئیں ۔ پارسا کی زندگی کا وہ سفاک دن اس کی زندگی کو نئی جہت دے گیا اور پھر دن اس کے لیے چوبیس نہیں بلکہ چھتیس گھنٹوں کا ہو گیا۔ اس نے بے حد وحساب کام کیا۔

پارسا نے انٹر سے جو مفت تعلیم دینے کا سلسلہ شروع کیا تھا وہ اکیلا چراغ اب میلاء چراغاں بن گیا تھا۔ تعلیم اور شعور نے اس پسماندہ علاقے کے لوگوں کی زندگیوں میں بدلاؤ لایا۔ پارسا نے اور لوگوں کو اپنا ہمنوا بنا کر تیزاب سے جھلسی عورتوں کے لیے شیلٹر ہوم کی بنیاد اپنے دو کمروں کے بوسیدہ مکان میں رکھی ۔ اس مختصر سے گھر میں ایسی عورتوں کو پناہ دی جو اس ظلم کا شکار ہوئی تھیں۔ ان میں دوبارہ زندگی کی لگن جگائی۔ ان کا جسمانی اور نفسیاتی علاج کروانا ، عدالتی کارروائی کے سلسلے میں وکلاء کی فراہمی۔ ایسے اور اس سے متعلق دوسرے کئی کام۔
اس کار خیر میں محلے والوں کے ساتھ اور بھی درد دل رکھنے والے شامل ہوئے اور ہوتے ہوتے پارسا نے باقاعدہ ایک NGO بنا لی۔
Save Burning flowersکے نام سے۔ محلے والوں کے ساتھ ساتھ انصار برنی اور مسرت مصباح نے بھی بہت مدد کی گویا لوگ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا۔ مسرت مصباح نے اپنے سیلون پر ان متاثرہ خواتین کو باعزت روزگار فراہم کر کے ان کی عزت نفس کو بحال رکھا۔

میں نے بڑی ہمت کر کے اس کے آفس میں قدم رکھا اور ریسیپشنسٹ سے اپنا تعارف پارسا کے پرانے ہم جماعت کے طور پر کروایا اور اپنا کارڈ دینے کے بجائے کاغذ کی سلپ پر اپنا ادھورا نام لکھ کر اندر بھجوا دیا۔ دس بارہ منٹ کے بعد میری طلبی ہوئی۔ یہ الگ بات کہ اس دوران میں سر کے بالوں سے لیکر پیر کے ناخنوں تک پسینے سے شرابور تھا۔ میں خود حیران تھا کہ میں کیوں پارسا سے ملنا چاہ رہا ہوں؟
اس کے ہاتھوں کیوں اپنے آپ کو ذلیل کروانا چاہتا ہوں؟
مگر میں اپنے ضمیر کے آگے بالکل بے بس تھا اور چاہتا تھا کہ معافی سے تلافی کی کوئی صورت نکال سکے!! گو اس کا امکان بہت کم تھا۔ میں شدت سے احساس جرم میں گرفتار تھا، اتنا کہ مجھ پر سانس سانس بھاری شاید بڑھاپے میں اعصاب کمزور اور ضمیر قوی ہو جاتے ہیں۔ میں معافی مانگ کر جانکنی کے اس عذاب سے نکلنا چاہ رہا تھا جس کی تپش میں میری روح جھلس رہی تھی۔
اندر پارسا اپنی آفس میں کسی سے فون پر مصروف گفتگو تھی۔ مجھے ہاتھ کے اشارے سے بیٹھنے کو  کہا۔ فون رکھ پوری یکسوئی سے میری طرف متوجہ ہوئی اور کہنے لگی کہ مجھے یقین تھا کہ ” ہماری ایک آخری ملاقات ضرور ہوگی شاہ جی ۔”
میں پوری جان سے لرز گیا۔
آپ نے مجھے پہچان لیا؟
میری زبان میں لکنت تھی۔
شاہ جی ! آپ کو کیسے نہ پہچانتی؟
آپ نے تو میری دونوں دنیائیں بدل دیں۔
اس نے تلخی سے مسکراتے ہوئے کہا۔
دونوں دنیائیں ؟
میں نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔
جی شاہ جی! یہ بھی اور یہ بھی۔ اس نے ہاتھ سے پہلے دل اور پھر کمرے کی طرف اشارہ کیا۔
میں کرسی پر بیٹھے بیٹھے پتھرا گیا۔

پتہ ہے شاہ جی! لڑکیاں کسی بھی اسٹیٹس کی ہوں۔ جائز ہوں، ناجائز ہوں، دل سب ہی رکھتی ہیں اور بدقسمتی سے دل ہارتی بھی ہیں۔ پتہ نہیں ہم لوگ گناہ سے نفرت کرنے کے بجائے گناہ گار سے کیوں نفرت کرنے لگتے ہیں؟ میرے جیسے وجود تاحیات اُس جرم کا تاوان بھرتے ہیں جو انہوں نے سرے سے کیا ہی نہیں ہوتا اور ستم ظریفی دیکھئے کہ کسی سے منصفی بھی نہیں چاہ سکتے۔

شاہ جی مجھے اپنی اوقات اور آپ کے مقام کا پورا پورا ادراک تھا اس کے باوجود بھی میں دل کو آپ کے نام کی تال پر دھڑکنے سے نہ روک سکی گو میں نے بے نیازی کو اپنی مضبوط ڈھال بنا لیا تھا۔ آپ تو شاید نہیں جانتے ہوں گے مگر میں آپ کو بتاتی ہوں کہ میری ایک ایک سانس آپ کے نام کی مالا جپتی تھی۔ میں نے تارا ماں کو بھی اپنی کیفیت بتائی تھی اور انہوں نے کہا
بیٹیا دل کا خون تو ہو گیا پر بھرم بچا لو۔
یہ راستہ تمہارے لیے ہے ہی نہیں۔ جس گاؤں جانا نہیں اس کے کوس کیا ناپنا۔
نہ یہ تال تیری ہے اور نہ ہی یہ ڈگر۔
پر شاہ جی دل کب موڑے جاتے ہیں !!
پر بھلا ہو آپ کا!
آڈیٹوریم میں سب کو میری اصلیت بتا کر میرے دل پر احسان عظیم کر گئے آپ۔
جہاں مجھے دنیا سے لڑنا اور سر اٹھا کر جینا آیا وہیں میرا دل بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا۔ نہ رویا نہ کرلایا اور نہ ہی کوئی آہ و فغاں کی۔
بس چپ ہو گیا۔
ایک جامد خاموشی۔
اس خاموش دل نے مجھ سے وہ وہ کام کروائے جو شاید عام حالات میں، میں کبھی بھی نہیں کر سکتی تھی
So it was simply blessing in disguise
میں تہ دل سے آپ کی شکر گزار ہوں۔
میں نے بےاختیار دونوں ہاتھ جوڑ دیے مگر مجھ میں ہمت نہیں تھی کہ آنکھیں اٹھا کر اس سے نگاہیں ملا سکتا۔
یقین کیجیے شاہ جی مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیں کہ میں آج جس مقام پر ہوں یہ آپ ہی کا فیض ہے۔ ایک سوختہ دل کئی دیئے جلا گیا۔
ایک بےننگ و نام زندگی کئیوں کو زندگی دے گئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ دو عورتوں کی انتھک عزم و ہمت کی داستان ہے جنہوں نے ہر سختی اور جبر سہ کر اوروں کے لیے راہ آسان کی۔ بے کسوں کا سائبان بنیں ۔ افسوس کہ اب اس سفر میں پارسا کے ساتھ تارا ماں تو نہیں کہ وہ اپنے حقیقی سفر پر روانہ ہو چکیں پر اپنی بے لوث محبت سے جو چراغ انہوں نے روشن کیا تھا اس کی لو سے ایک جہان منور ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply