• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • معذور افراد کیلئے ون ونڈو آپریشن شروع کیا جائے/ثاقب لقمان قریشی

معذور افراد کیلئے ون ونڈو آپریشن شروع کیا جائے/ثاقب لقمان قریشی

گزشتہ چند سالوں سے ہمیں خواجہ سراء کمیونٹی کے حقوق کی گونج سنائی دینے لگی ہے۔ 2014ء کے ایک سروے میں انڈیا میں خواجہ سراء کمیونٹی کی تعداد تین ملین سے ذیادہ تھی۔ جبکہ 2020ء کے ایک سروے میں بنگلہ دیش میں خواجہ سراء کمیونٹی کی تعداد دس سے پچاس ہزار اور پاکستان میں دس ہزار سے زائد تھی۔ اگر ہم انڈیا کے سروے کو حقیقت سے کچھ قریب مان بھی لیں تب بھی وطن عزیز میں خواجہ سراء کمیونٹی کی تعداد پانچ سے دس لاکھ کے درمیان ہی ہونی چاہیے۔ معذور افراد ملک کی آبادی کا بڑا حصہ ہیں۔ لیکن ان کے حقوق کی گونج ہمیں کہیں سنائی نہیں دیتی۔

دوسری طرف ڈبلیو ایچ او کے مطابق ملک میں معذور افراد کی تعداد پندرہ فیصد سے زائد ہے۔ آزاد ذرائع کے مطابق یہ تعداد اٹھارہ سے بیس فیصد کے درمیان ہے۔ چوبیس کروڑ کے حساب سے یہ تعداد تین کروڑ ساٹھ لاکھ بنتی ہے۔ ہماری حکومتیں معذور افراد کی اتنی بڑی تعداد کے حقوق کو تسلیم کرنے کے بجائے، حقوق سلب کرنے کی منصوبہ بندی کرتی نظر آتی ہیں۔
2017ء کی مردم شماری کیلئے جو فارم تیار کیا گیا تھا اس میں معذور افراد کی گنتی کا خانہ ہی نہیں تھا یہ فارم جرنل مشرف کے دور میں تیار کیا گیا تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس فارم پر کسی سیاسی یا دینی جماعت نے اعتراض تک نہیں اٹھایا۔

حکومت کی طرف سے کسی قسم کی سپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے جن گھرانوں میں معذور بچے پیدا ہو جاتے ہیں۔ وہ کبھی خوشحال نہیں ہو پاتے۔ سب سے پہلے معذور بچے کے علاج کے اضافی اخراجات خاندان پر بجلی بن کر گرتے ہیں۔ پھر اسکی خوراک اور نگہداشت کے خرچے۔ بچہ پڑھنے کی عمر کو پہنچتا ہے تو گھر کے نزدیک سکول نہ ہونے کی وجہ سے یا تو اسے پڑھایا ہی نہیں جاتا یا پھر فیسوں اور گاڑیوں کے کرایوں کا بھاری بوجھ اٹھانا پڑتا ہے وغیرہ۔ معذور افراد خود سے اپنا خیال نہیں رکھ سکتے اسلیئے گھر کے کم از کم ایک فرد کو اس کے ساتھ ضرور نتھی ہونا پڑتا ہے۔ جس کی وجہ سے اس شخص کیلئے اور کوئی کام آسانی سے کرنا ممکن نہیں رہتا۔ مطلب پندرہ فیصد معذوروں کے ساتھ پندرہ فیصد لوگ نگہداشت کیلئے جڑ گئے تو ملک کی تیس فیصد آبادی کسی بھی تعمیری سرگرمی سے مبرا ہوگئی۔ ہمارے بیان کیئے گئے اعداد شمار سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ معذور افراد ملکی معیشت پر کتنا بڑا بوجھ ہیں۔

میں گزشتہ آٹھ سالوں سے معذور افراد کے حقوق پر سوشل میڈیا پر باقاعدگی سے لکھ رہا ہوں۔ مسلسل پانچ سالوں سے بلاگز بھی لکھ رہا ہوں۔ بیشتر معذور افراد کو ایک جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پنجاب کی وزیر اعلیٰ  معذور افراد کے حقوق کے حوالے سے کافی متحرک نظر آرہی ہیں۔ اس لیے انکی خدمت میں سرکاری اداروں سے جڑے اپنے چند مسائل رکھوں  گا۔

چند ماہ قبل میں راولپنڈی کے مرکز قومی بچت کی چوہڑ برانچ میں اکاؤنٹ کھولنے گیا۔ دفتر سے چھٹی لے کر، پانچ سو روپے ٹیکسی کا کرایہ دے کر جب برانچ پہنچا تو سیکورٹی گاڈز نے کہا کہ ویل چیئر اٹھانا ہمارا کام نہیں۔ دس منٹ کی منت کے بعد روڈ سے گزرتے چند لوگوں سے درخواست کی تب جاکر بنک کے اندر داخل ہوا۔
مرکز کے عملے کی لوگوں کے ساتھ بدتمیزی دیکھی تو سمجھ گیا کہ یہاں کام ہونا مشکل ہے۔ میں فائلر ہوں اپنے پورے کوائف کے ساتھ اکاؤنٹ کھولنے کی درخواست کی۔ تو عملہ کہنے لگا کوائف تو پورے ہیں لیکن ہمیں ثبوت لا کر دکھاؤ۔ ایک گھنٹے کی منت سماجت کے بعد سکیورٹی سے درخواست کی کہ ویل چیئر نیچے اتار دو، جواب وہی ملا کہ یہ ہمارا کام نہیں۔ پھر روڈ سے گزرتے لڑکوں سے درخواست کی، چار سو روپے کرایہ دیا اور گھر واپس آگیا۔
میں نے ایک گھر کرائے پر دے رکھا ہے جس کا ٹیکس تیس ہزار روپے تھا۔ گزشتہ برس پچھتر ہزار کا ٹیکس آگیا۔ میں نے سرکاری دفتر کے چکر کاٹنے کے بجائے کنٹونمنٹ بورڈ کے چیف کو خط لکھا۔ جس کا جواب آج تک نہیں ملا۔

میرے پرانے گھر پر بجلی کا تھری فیز میٹر لگا ہے۔ جس کا بل سنگل فیز سے تین گنا زیادہ آتا ہے۔ آئیسکو کے دفتر جاکر درخواست بھی دے چکا ہوں۔ ای-میل بھی کر چکا ہوں، لیکن جواب ندارد۔
میں معذور افراد کے سب سے بڑے سوشل میڈیا گروپ کا اعزازی ایڈمن ہوں۔ اسکے علاوہ بہت سے گروپس کا ممبر بھی ہوں۔ بیشتر گروپس میں لوگ سرکاری اداروں سے جڑے سوالات پوچھ رہے ہوتے ہیں۔
سوشل ویلفیئر سے معذوری سرٹیفکیٹ کیسے بنوایا جائے؟
بیت المال سے فری ویل چیئر یا مالی معاونت کیسے ملے گی؟
کیا معذور افراد کی تنخواہ پر انکم ٹیکس لاگو ہوتا ہے؟
کیا معذور افراد کی سرکاری یونیورسٹیوں میں فیس معاف ہے؟
کیا معذور افراد کا سرکاری ہسپتالوں میں علاج فری ہے؟
سپیشل گاڑی کیسے امپورٹ کروائی جاسکتی ہے؟
ہراسمنٹ کی رپورٹ کہاں کروائی جائے؟
پرموشن کے معاملے میں امتیازی سلوک سے کیسے نمٹا جائے؟
بھائی معذور شخص کو جائیداد میں حصہ نہ دیں تو کس ادارے سے رجوع کیا جائے؟
کون سا سرکاری ہسپتال مصنوعی ہاتھ اور ٹانگیس مفت فراہم کرتا ہے؟ وغیرہ

آگہی کا فقدان معذور افراد کے بڑے مسائل میں سے ایک ہے۔ کام کرنے بھی نکلیں تو سرکاری اداروں کا عدم تعاون کام ہونے نہیں دیتا۔ میری چیف منسٹر پنجاب سے گزارش ہے کہ ایک ایسا ادارہ یا ہیلپ لائن تشکیل دیں جو معذور شخص کو درپیش کسی بھی مسئلے کا فوری حل نکال کر دے۔ جہاں معلومات کی ضرورت ہے وہاں معلومات فراہم کی جائے اور جہاں معاونت کی ضرورت ہے وہاں معاونت فراہم کی جائے۔ ایسا ادارہ وقت کی اہم ضرورت ہے جہاں سے معذور افراد کے ہر مسئلے کا حل نکلتا ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مریم نواز نے حلف اٹھاتے وقت معذور افراد کیلئے جن اقدامات کا ذکر کیا تھا ان پر عمل درآمد بھی شروع ہوچکا ہے۔ ہم پنجاب حکومت کی کاوشوں کو اپنی تحریروں میں سراہتے رہیں گے اور مسائل کی نشاندہی بھی کرتے رہیں گے۔ امید کرتے ہیں حکومت ہماری رائے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے فوری اقدامات کرے گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply