ہمارے دوست جو ایک نجی ادارے میں ملازم ہیں، ان کی وائف نے کچھ سامان کراچی سے منگوایا جس کی پیمنٹ کریڈٹ کارڈ سے ان کے شوہر نے کردی تھی۔
ہمارے دوست کے پاس ایک دن ایک ایس ایم ایس پاکستان پوسٹ کی طرف سے آتا ہے ،جس میں لکھا ہوتا ہے کہ آپ کا پارسل، ایڈریس ویری فائی نہ ہونے کی وجہ سے ریڑن ہوگیا ہے۔ اپنے گھر کا ایڈریس اپ ڈیٹ کردیجیے۔ ساتھ میں ایک لنک موجود ہوتا ہے۔
ہمارے دوست صاحب کو یہ پتا تھا کہ بیگم نے دس پندرہ ہزار کا سامان منگوایا ہوا ہے جو کراچی سے لاہور آرہا ہے۔ انہوں نے سوچا کہ پے منٹ کردی ہے اب اگر پارسل ریڑن ہوجائے تو ایسا نہ ہو کہ سامان بھی نہ ملے اور پیسے تو پہلے ہی دے چکے ہیں۔
انہوں نے شامت اعمال اس لنک پر کلک کردیا۔ ایک پیج کھلا جس پر پاکستان پوسٹ کی ویب سائٹ بنی ہوئی تھی۔ پیج پر نام ایڈریس فون نمبر، شناختی کارڈ وغیرہ کی تفصیلات مانگی ہوئی تھیں۔
ہمارے برادر نے تفصیلات اپ ڈیٹ کیں۔ جیسے ہی اپ ڈیٹ بٹن پر کلک کیا، اگلا پیج کھلا جس میں ان سے دو پچاس روپے “ری ڈیلوری چارجز” مانگے ہوئے تھے۔ پیمنٹ سیکورڈ بھی بتائی ہوئی تھی۔
بھائی نے سوچا کہ یار کس قدر بیکار اور تھرڈ کلاس سروس ہے۔ سرکاری ادارہ ہے، سب ہڈحرام، چور ، نکمے ہیں دیکھو مجھ سے پیسے مانگ رہے ہیں۔ خیر ان کے خیال میں پیسے تو زیادہ نہیں تھے، انہوں نے اپنے کریڈٹ کارڈ کا نمبر ڈال دیا۔
ایک اور پیج کھلا جو بتا رہا تھا کہ پیمنٹ ہونے والی ہے۔ چار ہندسوں کا او ٹی پی درکار ہے
اسی وقت ایک میسج آیا جس میں او ٹی پی موجود تھا۔
ہمارے پیارے بھائی نے اوٹی پی درج کردیا، ایک سیکنڈ میں پیج غائب ہوا اور پھر دوبارہ وہی صفحہ سامنے آیا اور لکھا نظر آرہا تھا کہ پیمنٹ نہیں ہوسکی ۔ دوبارہ او ٹی پی درج کریں۔
اسی وقت ایک اور ایس ایم ایس ان کے موبائل ان باکس میں آچکا تھا جس میں لکھا تھا کہ آپ کی سات ہزار پانچ سو اے ای ڈی (یعنی یو اے ای درہم) کی پیمنٹ کامیابی کے ساتھ ہوچکی ہے۔
انہوں نے ایس ایم ایس کو نظر انداز کیا کیونکہ نارملی پیمنٹ پی کے آر یعنی پاکستانی روپے میں ہوتی ہے۔ اے ای ڈی ان کی سمجھ میں نہیں آیا۔
انہوں نے دوسرا ایس ایم ایس جس میں او ٹی پی موجود تھا وہ بھی ڈال دیا۔ دوبارہ پیج غائب ہوا اور پھر لکھا ہوا آیا کہ پیمنٹ نہیں ہوسکی۔ نیا او ٹی پی درج کریں۔
بھائی نے سوچا کہ یہ کارڈ کمبخت فارغ ہے ، دوسرا کارڈ نکالتا ہوں۔ انہوں نے بیک پیج پر جا کر دوسرے کارڈ کا نمبر ڈالا اور نیا پیج نمودار ہوتے ہی او ٹی پی کا انتظار کرنے لگے۔
او ٹی پی نہیں آیا۔ انہوں نے سوچا کہ بھاڑ میں جائے۔ پارسل واپس ہوتا ہے ہوجائے۔ بہت وقت برباد ہوگیا۔ میں کیش پیمنٹ کردوں گا۔
پانچ منٹ بعد موبائل کی گھنٹی بجی۔ انہوں نے کال ریسیو کی تو اس بنک کا نمائندہ بات کررہا تھا جس کا او ٹی پی موصول نہیں ہوا تھا ۔ اس نے پوچھا کہ آپ آن لائن پیمٹ کررہے تھے؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا تو بنک کے نمائندے نے بتایا کہ آپ کے ساتھ ہاتھ ہورہا تھا۔ ہم نے روک دیا۔ آپ کارڈ بلاک کردیا ہے۔ اسی وجہ سے آپ کے پاس او ٹی پی نہیں آیا۔
ہمارے دوست کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ کیونکہ وہ پہلے ایک کارڈ کا اوٹی پی دو مرتبہ ڈال چکے تھے۔ انہوں نے موبائل چیک کیا تو پتا چلا کہ ایک اور ایس ایم ایس آیا ہوا تھا جس میں تین ہزار دو سو درہم ادا ہوجانے کی “خوشخبری” موجود تھی۔ یعنی کل ملا کر ایک کریڈٹ کارڈ سے سات لاکھ سے زائد رقم نکل چکی تھی۔
یہ تو اچھا ہوا کہ دوسرے بنک کا سائبر سیکورٹی سسٹم اچھا تھا جس نے پیمنٹ کو بروقت مانیٹر کیا اور اپنے کسٹمر کو خبردار کردیا۔
لیکن جس بنک کا سائبر سیکیورٹی سسٹم اتنا اچھا نہیں تھا وہاں سے سات لاکھ روپے دبئی ٹرانسفر ہوچکے تھے۔
ہمارے دوست نے سر پکڑ لیا۔ بنک کمپلین کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم معاملے کی چھان بین کرکے تین دن میں آپ کو مطلع کریں گے۔
تین دن بعد بنک نے بتایا کہ کیونکہ ہمارے پیارے کسٹمر نے بقائمی ہوش و حواس میں اپنی معلومات خود فراہم کی ہیں اس وجہ سے بنک پیمنٹ کرنے پر مجبور تھا۔ پیمنٹ ہوچکی ہے، اب کچھ نہیں ہوسکتا۔
یہ سن کر ہمارے پیارے بھائی کو لگا کہ
ہوش و حواس و تاب و تواں داغؔ جا چکے
اب ہم بھی جانے والے ہیں، سامان تو گیا
میں بینکرز کو ٹریننگ میں اکثر آن لائن فراڈ کی طرف متوجہ کرتا رہتا ہوں اور ان سے کہتا ہوں کہ معاشرے کے ایسے اداروں سے وابستہ ہونے کی وجہ سے جو “امین” کہلائے جاتے ہیں، ان کا فرض ہے کہ اپنے کسٹمرز اور عام عوام کو آن لائن فراڈ سے وَقتاًَ فوَقتاً آگاہ کرتے رہا کریں۔
اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی ریگولیٹر کے طور پر یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بنکس کو متنبہ کریں کہ وہ اپنے سیکورٹی سسٹم کو اتنا اپ ڈیٹ کریں کہ فراڈ ہونے کا امکان کم سے کم ہو جیسے ایک بنک کے اچھے سائبر سیکیورٹی نظام کی وجہ سے دوسرے کارڈ سے پیمنٹ نہیں ہوسکی۔
کوئی سوال کرسکتا ہے کہ اسکیمر کو کیسے پتا چلا کہ پارسل ہمارے دوست کے پاس آنے والا ہے تو عرض ہے کہ اس طرح کے میسجز بھاری تعداد میں نشر کیے جاتے ہیں۔ چونکتا وہی ہے جس کا واقعی میں کوئی پارسل کورئیر یا پاکستان پوسٹ سے آنے والا ہوتا ہے۔
ڈیجیٹل بنکنگ ضرور استعمال کریں مگر “ساودھان رہیے ، ستک رہیے” اور پڑھتے رہیے میرا بلاگ، جس میں اگلی بار، میں سائبر کرائم سے بچنے کے کچھ مفید طریقہ کار کے بارے میں بتاؤں گا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں