سائنس میں حصول علم کے طریقہ ہائے کار/عرفان شہزاد

 عام طور پر تجربہ و مشاہدہ پر مبنی معلومات اور حاصلات کو علم یا سائنسی علم کہ دیا جاتا ہے۔ یہ نا واقفیت پر مبنی تاثر ہے جو ہمارے عام تعلیم یافتگان میں بھی پایا جاتا ہے۔ سائنسی علم ایک سے زائد طریقہ ہائے کار پر مشتمل ہوتا ہے۔ان کا ایک اجمالی تعارف یہاں پیش کیا جاتا ہے۔
اس مضمون کی تیاری میں جناب ڈاکٹر محمد رحمان کی رہنمائی اور معاونت حاصل رہی ہے۔
1. مظاہر کےمشاہدے اور تجربے سے حاصل کردہ ڈیٹا کی بنیاد پر ان میں کارفرماجزیات کے باہمی تعلق کی وضاحت کرتے کلیات تشکیل دینا۔ ان کلیات کی تصدیق کے لیے متوقع نتائج کی پیشین گوئی کرنا۔ پیشین گوئی کے نتائج جتنے فیصد درست ثابت ہوں، کلیہ کی تصدیق اتنی معتبر ہوگی۔ مختصراسے یوں کہ سکتے ہیں: تجرباتی بنیادوں پر دو یا دو سے زیادہ عوامل کے درمیان تعلق کو بیان کرنا۔ اس کی ایک نمایاں مثال نیوٹن کے قوانین حرکت ہیں۔
یہ وضاحت ضروری ہے کہ نیوٹن کے قوانین مائیکرو یا فوٹان کی سطح پر قابل عمل نہیں ہوتے۔ لیکن اس سے ان کی اپنی مستقل حیثیت اورحقیقت کی تردید نہیں ہوتی۔اپنے دائرہ کار میں یہ مصدقہ سائنسی حقیقت مانے جاتے ہیں۔ بالفاظ دیگر،ایمپیریکل قوانین غلط ثابت نہیں ہوتے، بلکہ نئی معلومات سے ان کی حدود کا تعین ہوتا ہے۔
2. بغیر تجربے کے آثار، شواہد اور مظاہر کے وقوع اور ان کے اجزا کے درمیان تعامل کی مفروضہ توجیہ کرنا، پھر مفروضہ توجیہات کی تصدیق کے لیے متوقع نتائج کی پیشین گوئی کرنا ۔ پیشین گوئی کی درستی کی بنیاد پر مفروضہ توجیہ کو سائنسی یا نظریاتی سطح پر ایک حقیقت تسلیم کرنا۔ دوسرے لفظوں میں اسے یوں کہ سکتے ہیں کہ ایک نظریہ ایسے عوامل کی پیشین گوئی کرے جو پہلے سے معلوم نہ ہوں اور پھر ڈیٹا ان عوامل کی تصدیق کر دے۔
آئن سٹائن کی جنرل تھیوری آف ریلیٹیویٹی اس کی ایک مثال ہے۔ اس نظریے نے پیشین گوئی کی تھی کہ سورج کے پیچھے موجود ستاروں کی روشنی جب سورج کے پاس سے گزرتی ہے تو سورج کی کمیت کی وجہ سے روشنی سیدھی لائن میں گزرنے کی بجائے خم دار رستہ اختیار کرتی ہے۔ آئن سٹائن نے انتہائی precision سے بتایا کہ یہ خم کتنا ہوگا۔
اسی نظریے کی ایک پیشین گوئی گریویٹیشنل ویوز کی موجودگی کے بارے میں تھی جس کی تصدیق پیشین گوئی کے سو سال بعد، دو ہزار پندرہ میں جا کر ہوئی۔
دور حاضر میں بلیک ہولز کے وجود کی پیشین گوئی بھی اسی قبیل سے تھی، جو درست ثابت ہوئی۔
پیریاڈک ٹیبل میں نامعلوم عناصر، گیلیم، جرمینیم، اسکینڈیم، ٹیکنیٹیم اورپرومیتھیم ، کے وجود کی پیشین گوئی ان کے آثار اور خصوصیات کی دریافت سے بھی پہلے کر دی گئی تھی۔ یہ جب تک دریافت نہیں ہوئے تب بھی ایک استدلالی وجود کے طور پر مان لیے گئے تھے۔ اب تک دریافت نہ ہوتے تب بھی مانے جارہے ہوتے۔سائنس میں یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔
3. کوئی نظریہ کسی مظہر کے عوامل کی تضاد سے پاک منطقی وضاحت فراہم کرے، خواہ، اس میں پیشین گوئی کی صلاحیت نہ ہو، یا صلاحیت تو ہو، مگر اسے تجربانی سطح پر ثابت کرنا ممکن نہ ہو۔ اس کی بہترین مثال سٹرنگ تھیوری ہے۔ اگرچہ یہ نظریہ پیشین گوئی کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن اس کی پیشین گوئیوں کی تجرباتی تصدیق ناممکن کی حد تک مشکل ہے۔ چنانچہ اس نظریے کے چاہنے والے اس کی درستی کے لئے اس میعار پر مطمئن نظرآتے ہیں کہ یہ نظریہ عوامل کی تضادسے پاک منطقی وضاحت فراہم کر رہا ہے۔
4. ایک نظریہ کسی عمل یا عوامل کی کئی ممکنہ وضاحتوں میں سب سے بہتر وضاحت کرے۔ اس کی بہترین مثال یونیورسل کامن اینسیسٹری کا نظریہ ہے، اگرچہ اس نظریہ میں یہ صلاحیت نہیں کہ پیشین گوئی کر سکے کہ فلاں جاندار کل کون سی شکل اختیار کر سکتا ہے اور جان داروں کی درجہ بندی میں خاندان کی سطح سے اوپر کی ارتقائی تبدیلیوں کے لئے چونکہ لاکھوں سال کا عرصہ درکار ہے اس لئے اگر بالفرض یہ نظریہ پیشین گوئی کی صلاحیت رکھتا بھی ہو تو وقت کی طوالت کی وجہ سے کوئی ایساتجربہ نہیں کیا جاسکتا جہاں اس پیشین گوئی کی تجرباتی تصدیق کی جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈارون نے اپنے نظریے کے حق میں دلیل پیش کی تھی کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک نظریہ غلط ہو اور وہ عوامل کی بہترین وضاحت کر سکے۔ اسے انفرینس ٹو دی بیسٹ ایکسپلینیشن (آئی بی ای) کے عنوان سے بھی پیش کیا جاتا ہے۔
5. مظاہر اور عوامل کی توجیہ کرتاایسا نظریہ جس کی مشاہداتی اور تجرباتی تصدیق ممکن نہ ہو، اس لیے درست تسلیم کر لیا جاتا ہے کہ اس کا برعکس درست نتائج نہیں دیتا۔ یہ طریقہ ریاضی میں استعمال کیا جاتا ہے کہ اگر کسی چیز کو صحیح ثابت کرنا ہو تواسکے متضاد کو غلط ثابت کر دیا جائے۔ تاہم،جہاں تک نظریات کی بات ہے تو اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ ایک نظریہ اور اسکے متضاد کے علاوہ کوئی اور نظریہ بھی ہو سکتا ہے جو زیر نظر عوامل کی بہتر توجیہ کردے۔
اہم بات یہ ہے کہ سائنسی علم جب تجربہ و مشاہدہ کی سطح پر ثابت ہوجاتا ہے تو وہ سائنسی علم نہیں رہتا،بلکہ قطعی علم بن جاتا ہے۔اب اس کی بنیاد پر سائنسی علم پیدا ہوتا ہے۔ یعنی سائنسی علم درحقیقت استدلال پر مبنی ہوتا ہے۔
اس بحث سے دیکھا جا سکتا ہے کہ سائنسی سطح پر جب کسی چیز کو ثابت کرنے کی بات کی جاتی ہے تو وہ کن سطحوں پر ثابت ہوتی ہے اور اس کے لیے استدلال کے کون کون سے طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔ محض حس و تجربہ کے حاصلات ہی سائنسی علم نہیں ہوتا اور نہ استدلال سے حاصل کردہ علم حس و تجربہ کے حاصلات تک پہنچتا ہے، مگر اس پر یقین اور بھروسہ کیا جاتا ہے۔

Facebook Comments

عرفان شہزاد
میں اپنی ذاتی ذندگی میں بہت ایڈونچر پسند ہوں۔ تبلیغی جماعت، مولوی حضرات، پروفیسر حضرات، ان سب کے ساتھ کام کیا ہے۔ حفظ کی کلاس پڑھائی ہے، کالجوں میں انگلش پڑھائی ہے۔ یونیورسٹیوں کے سیمنارز میں اردو انگریزی میں تحقیقی مقالات پڑھے ہیں۔ ایم اے اسلامیات اور ایم اے انگریزی کیے۔ پھر اسلامیات میں پی ایچ ڈی کی۔ اب صرف دو چیزیں ہی اصلا پڑھتا ہوں قرآن اور سماج۔ زمانہ طالب علمی میں صلح جو ہونے کے باوجود کلاس کے ہر بد معاش لڑکے سے میری لڑائی ہو ہی جاتی تھی کیونکہ بدمعاشی میں ایک حد سے زیادہ برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ یہی حالت نوکری کے دوران بھی رہی۔ میں نے رومانویت سے حقیقت کا سفر بہت تکلیف سے طے کیا ہے۔ اپنے آئیڈیل اور ہیرو کے تصور کے ساتھ زندگی گزارنا بہت مسحور کن اورپھر وہ وقت آیا کہ شخصیات کے سہارے ایک ایک کر کے چھوٹتے چلے گئے۔پھر میں، میں بن گیا۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply