مریم نواز اور معذور افراد کے مسائل/ثاقب لقمان قریشی

پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ مریم نواز نے صاحبہ حلف برادری کی تقریب کے دوران تاریخی تقریر کی۔ تقریر کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں صوبے کی عوام کو درپش مسائل کی نہ صرف نشاندہی کی گئی بلکہ مسائل کے حل کے حوالے سے ایکشن پلان بھی ترتیب دیا گیا۔
تقریر میں صوبے میں غربت کی سطح سے نیچے بسنے والی عوام، خواتین، بچوں، نوجوان نسل، اقلیتی برادری سے لے کر خواجہ سرا کمیونٹی اور معذور افراد کے مسائل کا بھی ذکر کیا گیا۔ میں طویل عرصہ سے معذور افراد اور خواجہ سراء کمیونٹی کے مسائل پر لکھ رہا ہوں۔ اسلیئے تقریر کے صرف اسی حصے پر بات کرونگا۔

وزیر اعلیٰ  نے تاریخی تقریر میں جن مسائل اور اقدامات کا ذکر کیا ان پر کام ہوتا بھی نظر آ رہا ہے۔ معذور افراد کی بحالی کے حوالے سے حکومت پنجاب نے “ہمت کارڈ” کا اجراء کیا ہے۔ جس کے تحت معذور افراد کو پبلک ٹرانسپورٹ میں خصوصی رعایت دینے کا اعلان کیا ہے۔ کاروبار کیلئے بلا سود قرضے کا اعلان کیا ہے۔ سہ ماہی بنیاد پر وظائف، سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں نوکری کا کوٹہ تین فیصد تک بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ درج ذیل گزارشات پر عمل کیئے بغیر بحالی کے اقدامات ناکام رہیں گے۔ جن کا خمیازہ حکومت، معذور افراد اور پورے صوبے کو بھگتنا پڑے گا۔
این-جی-اوز کا ایک عالمی مافیا ہے۔ جس کے پاس مختلف معاشرتی مسائل کے حوالے سے اربوں روپے کے فنڈز ہوتے ہیں۔ ان معاشرتی مسائل میں خواتین، بچے، خواجہ سراء اور معذور افراد وغیرہ کے مسائل سرفہرست ہیں۔ عالمی این-جی-اوز اور اسلام آباد میں بیٹھی دیسی این-جی-اوز اس پیسے سے ایسا کھیل کھیلتے ہیں کہ یہ پیسہ فائیو سٹار ہوٹلوں، غیر ملکی دوروں اور تقاریر میں برباد ہو جاتا ہے۔ سب سے پہلے اسلام آباد میں موجود تمام دیسی این۔جی-اوز کے دفاتر بند کیے جائیں اور باہر سے آنے والا پیسہ جن علاقوں کے لیئے ہے اسے ان علاقوں کے سوشل ورکرز تک پہنچایا جائے۔
پنجاب بھر میں معذور افراد اور خواجہ سراء کمیونٹی کی ٹیکنیکل مردم شماری کی جائے۔ جس کے تحت انھیں معذوری، تعلیم، روزگار، ہنر وغیرہ کی بنیاد پر تقسیم کیا جائے۔ پھر اس ڈیٹا کی بنیاد پر بحالی کے حوالے سے اقدامات اٹھائے جائیں۔ موثر ڈیٹا کے بغیر معذور افراد کی بحالی ناممکن ہے۔

معذور بچے کو پیدائش کے فوری بعد حکومتی ڈیٹا کا حصہ بن جانا چاہیے۔ متوسط گھرانوں کے معذور بچوں کے وظائف پیدائش کے فوری بعد جاری کر دیئے جائیں۔

معذور افراد کو علاج کی مفت سہولیات فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ معذور افراد اور انکے گھر والوں کو علاج، خوراک، مدد گار آلات اور ورزش کے حوالے سے مکمل آگہی ہونی چاہیے۔

معذور افراد اور انکے گھر والوں کو کامیاب معذور افراد کی آب یتیاں فراہم کی جائیں اور انھیں بتایا جائے کہ انکا بچہ زندگی میں کیا کچھ حاصل کرسکتا ہے۔

معذور افراد کے والوں کو گھر کے انفراسٹرکچر کی تبدیلی کے حوالے سے معلومات فراہم کی جائیں تاکہ ایسے بچے کسی پر بوجھ بننے کے بجائے آزادانہ زندگی گزار سکیں۔

مریم نواز نے صوبے کے تمام اضلاع میں خصوصی تعلیمی ادارے بنانے کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ اس وقت ملک بھر کے تمام خصوصی تعلیمی اداروں میں ستر ہزار بچے بھی زیر تعلیم نہیں۔ خصوصی تعلیمی اداروں کے آدھے سے زائد اساتذہ سائن لینگویج سے واقف نہیں۔ اساتذہ خصوصی تعلیم کی اہمیت سے واقف ہی نہیں۔ مجھے ابھی تک کوئی ایسا استاد نہیں ملا جس کی کلاس کی تعداد پانچ بچوں سے زیادہ ہو اور اسکی تنخواہ  80  ہزار سے کم    ہو۔ میں نے ملک بھر کے ڈیڑھ سو سے زائد کامیاب معذور افراد کے انٹرویوز کیے ہیں۔ مجھےابھی تک کوئی ایسا شخص نہیں ملا جس نے خصوصی تعلیمی ادارے سے تعلیم حاصل کر کے کامیابی حاصل کی ہو۔

سب سے پہلے خصوصی تعلیمی اداروں سے کالی بھیڑوں کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ انھیں بچوں کی تعداد بڑھانے کے حوالے سے ٹاسک دینا ہوگا۔ ناکامی کی صورت میں ادارے کے سربراہ کی چھٹی کرنا ہوگی۔
نئے تعلیمی اداوں پر کروڑوں روپے لگانے کے بجائے مشترکہ تعلیمی نظام کو فروغ دیا جائے۔ بچے کے گھر کے نزدیک ترین سرکاری یا پرائیویٹ سکول کے انفراسٹرکچر کو تبدیل کیا جائے اور اساتذہ کو ٹریننگ دے کر خصوصی بچوں کو عام بچوں کے ساتھ پڑھانے کے کلچر کو فروغ دیا جائے۔

شدید معذوری کا شکار بچوں کیلئے آن لائن کلاسز کا اجراء کیا جائے تاکہ کوئی بچہ تعلیم کے حصول سے محروم نہ رہے۔

سماعت سے محروم افراد کا سب سے بڑا مسئلہ ایک سائن لینگویج کا نہ ہونا اور چند مخصوص مضامین میں ڈگری کرنا ہے۔ سب سے پہلے سماعت سے محروم افراد کیلئے ایک مشترکہ سائن لینگویج بنائی جائے۔ سماعت سے محروم افراد کو فعال شہری بنانے کیلئے نارمل لوگوں کیلئے بھی سائن لینگویج سیکھنا لازمی قرار دیا جائے۔ سماعت سے محروم افراد کی مزید ڈگریوں تک رسائی ممکن بنائی جائے۔

میں ملک کے کامیاب ترین نابینا افراد کے انٹرویوز کرچکا ہوں۔ جو مختلف سافٹ ویئرز کی مدد سے نارمل لائف گزار رہے ہیں۔ ہر نابینا شخص کی ان سافٹ ویئرز تک رسائی کو ممکن بنایا جائے۔ نابینا بچے ہیلپر کی مدد سے امتحانات دیتے ہیں۔ اکثر ہیلپر کی نالائقی کی وجہ سے پورے نمبر نہیں لے پاتے۔ اگر نابینا افراد سے سن کر یا ریکاڈنگ میں پرچے لیئے جائیں تو انکا بڑا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔

معذور افراد تعلیم اور ہنر سے محروم ہیں۔ بلاسود قرضے انکے مسائل کا حل نہیں ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ معذور افراد کو گھر تک ہنر سکھایا جائے تاکہ یہ بلا سود قرضے کی سکیم سے فائدہ اٹھا سکیں۔
آئی-ٹی کا انقلاب معذور افراد کی زندگی میں بھی تبدیلی لا سکتا ہے۔ معذور افراد کو لیپ ٹاپ، ٹیب وغیرہ فراہم کیے جائیں پھر گھر میں مختلف ٹریننگز فراہم کرکے انٹرنیٹ سے پیسہ کمانے کے گر سکھائے جائیں۔

نوکریوں کا تین فیصد کوٹہ جب تک پرائیویٹ کمپنیوں پر لاگو نہیں ہوگا اس وقت تک معذور افراد کے حالات نہیں بدلیں گے۔

ٹرانسپورٹ معذور افراد کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ حکومت پنجاب سٹوڈنٹس کو موٹر سائیکل دینے کے طرز کی ایک سکیم معذور افراد کیلئے بھی شروع کرے۔

ایسی کمرشل پراپرٹیز جن سے معذور افراد کے گھروں کے چولھے جل رہے ہیں۔ انھیں ٹیکس سے مبرا قرار دیا جائے۔

حکومت پنجاب تمام معذور افراد کو انشورنس کی سہولت فراہم کرے۔ انشورنس کی رقم اپنے بجٹ سے ادا کرے۔

صوبے میں تعمیر ہونے والی تمام نجی اور سرکاری عمارات میں رسائی کو یقینی بنایا جائے۔

کمرشل عمارات میں معذور افراد کیلئے خصوصی دکانیں رکھی جائیں تاکہ معذور افراد کاروباری سرگرمیوں کا حصہ بن سکیں وغیرہ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہم امید کرتے ہیں کہ مریم نواز ہماری گزارشات پر عمل کرتے ہوئے معذور افراد کو معاشرے کا فعال شہری بنانے میں اپنا کردار ادا کریں گیں۔ کیونکہ معاشرے سب کو ساتھ لے کر چلنے سے ہی آگے بڑھتے اور پھلتے پھولتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply