ہم زمین کے کسی ٹکڑے کو وطن اس لئے کہتے ہیں کہ ہم وہاں محفوظ خیال کرتے ہیں ۔ آپ چاہے ریاست یا سلطنت کے پرانے تصورات دیکھ لیجیے یا پھر Nation state کے جدید تصور کو دیکھیں
تو آپ کو ایک چیز مشترک ملے گی کہ اس کے شہریوں کا تحفظ اور ان کی فلاح و بہبود ریاست کی اولین ترجیح ہوتی ہے ،لیکن اس سادہ سی تعریف کو اگر ہم اپنے ملک پاکستان پر لاگو کریں تو آپ کن نتائج کی امید کریں گے ؟
کیا ملک پاکستان ریاست یا وطن کی کسی بھی تعریف پر پورا اترتا ہے ؟
ہم چاہے جتنے بھی رجائیت پسند بن جائیں ،کبوتر کی طرح آنکھیں ہی کیوں نا بند کرلیں لیکن یقین مانیے کہ روز ایسی بلی سے آپ کو واسطہ ضرور پڑتا رہے گا جو اپنی پھونک سے آپ کی آنکھیں بند نہیں ہونے دے گی ،آپ کو ہمیشہ دھڑکا لگا رہے گا ۔
“ملک پاکستان میں ہم سب ہر دم غیر محفوظ ہیں ”
یہ جملہ یاسیت یا کسی جذباتی کیفیت کا مظہر ہرگز نہیں ہے ۔
جوانی زندگی کا ایسا مرحلہ ہے جب انسان امید سے بھرپور ہوتا ہے ،اس کے حوصلے جوان ہوتے ہیں لیکن اگر ہم پاکستان میں رہنے والی نوجوان نسل کے احساسات کو ذرا سا بھی محسوس کرنے کی کوشش کریں تو ہمیں ان کی فرسٹریشن نمایاں نظر آتی ہے ۔اس کی وجہ فقط ان کا لاابالی پن نہیں جس نے انہیں بے چین کر رکھا ہے بلکہ ہمارے ملک کا وہ امیج ہے جس کو وہ سوشل میڈیا سے لے کر اپنی روزمرہ زندگی میں ہر دم دیکھتے رہتے ہیں۔
ایک طرف ان کے کیرئیر کے مسائل ،دوسری طرف سماجی بگاڑ، جس نے ان کے والدین کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اسی سماجی بگاڑ کے ردِعمل کے طور پر ان پر دباؤ ،تیسری طرف ان کو غیر یقینی صورت حال کا وہ گنجل نظر آرہا ہے جس میں بہتری کی کوئی امید نہیں ۔
ہر روز ہم کتنے ہی افسردہ واقعات سنتے ہیں ۔ہمارے عزیز و اقارب اس کا نشانہ بنتے ہیں ۔اس سے ابتر صورت حال تب بنتی ہے جب اس ملک کے کرتا دھرتا (مقننہ ،عدلیہ ،اسٹبلشمنٹ ،بیوروکریسی ) اس گتھی کو سلجھانے کی بجائے اس میں مزید گرہیں لگاتے نظر آتے ہیں ۔
ہر طرف موجود اس اندھیرے میں ایک نوجوان اگر کوئی شمع جلانے کی سنگین غلطی کرے گا بھی تو اسے فوراً پہچانا جائے گا اور بھٹکا ہوا کہہ کر اس اندھیرے میں پھر سے جھونک دیا جائے گا ۔
پھر میں یا آپ میں سے کوئی سر پھرا اس لا قانونیت میں اپنے اور اپنے اہل خانہ کی جانیں کیوں خطرے میں ڈالے گا ؟
کوئی دیوانہ ایسی بھیڑ میں کیوں مرنا چاہے گا جس میں اس کی خون کے بوندیں ہی نہ ملیں ،جس میں اسے مصلح کی شناخت ہی نہ ملے ،بلکہ یہ امکان تو زیادہ غالب ہے کہ اسے غدار نامزد کردیا جائے اور اس کی آئندہ نسلیں اس پر تھوکتی رہیں ۔
اب اس اندھیرے میں کوئی آنکھیں بند کرکے سوتے رہنا پسند کرے گا کہ “جان بچی سو لاکھوں پائے ” یا پھر وہ کسی غدار نسل کے آباء میں شمار کیا جانا پسند کرے گا؟
میرے خیال میں تو ہر کوئی اوّل الذکر کا انتخاب کرے گا ۔اگر آپ پاگل ہیں تو ثانی الذکر کو منتخب کیجیے ۔

میں آپ کو ایک مزے کی بات بتاؤں ؟
آپ میں سے ہر ایک ثانی الذکر آپشن کی طرف جائے گا لیکن تب جب وہ سب کچھ کھو چکا ہوگا ۔آپ اپنے آس پاس سب ہوتا دیکھتے ہیں لیکن نہیں بولتے لیکن وہ وقت قریب ہے جب آپ سب کی جھونپڑیوں کو آگ لگے گی اور آپ چیخیں گے ۔ابھی دوسروں کو جلتے دیکھتے ہیں اور سانس تک روک لیتے ہیں ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں