اردو ادب میں تبدیلی 1947 کے انقلاب کے بعد آئی تھی ۔ ممکن ہے لفظ انقلاب سے بعض دوست اتفاق نہ کریں لیکن جب ایسی ہوا چلتی ہے جو ہزار برس کی پالی پوسی تہذیب اور ثقافت اور کسی حد تک زبان کے پرخچے بھی اُڑا دیتی ہے تو اسے انقلاب ہی کہا جاسکتا ہے ۔ سبھی کچھ تبدیل ہوا لیکن اس کا محرک آزادی نہیں مسلمانوں کی تقسیم تھی ۔ ہمارا ادب سن سینتالیس سے پہلے وہ جیسا بھی تھا (کہ اس پر بات کرنے کے لئے ایک علیحدہ سے پوسٹ کی ضرورت ہے) تبدیل ہوا۔ رحجانات تبدیل ہوئے اور ادب میں مذہب جھانکنے لگا ۔ میں سرحد پار کی بات نہیں کرتا کیونکہ وہاں کے اردو ادب تک ہماری پہنچ تو اب کوئی دس پندرہ سال سے ہی ہوئی ہے ۔ اس سے پہلے کبھی کبھی ہندوستانی ادیبوں کو پڑھنے کا موقع ملتا تھا ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اردو سے سوتیلی اولاد کا سلوک ہندوستان نے شروع کیا تھا اور اس کی وجہ اور کچھ نہیں ‘اردو کا عربی فارسی رسم الخط ہے۔
1947 کے بعد کم ہی پاکستانی ادیب ہوں گے جنہوں نے اس انقلاب پر بھرپور انداز میں لکھا ہو، حالانکہ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر صدیوں تک لکھا جا سکتا ہے (امریکہ کی جنگ آزادی کے پس منظر میں اب بھی کبھی کبھار کوئی نا کوئی کتاب آ جاتی ہے) پاکستانی ادیبوں نے بھیڑ چال کے مترادف اگر اس انقلاب پر کچھ لکھا تو زیادہ تر فسادات پر لکھ کر ٹُھس ہو گئے ۔ فسادات اس انقلاب کا ایک حصہ تھے ۔ اصل قصہ انسانوں کی بڑی تعداد کی زمین کے ایک حصے سے دوسرے تک منتقلی تھی، اس کے اسباب میں سب سے بڑا سبب پاکستان کا قیام تھا۔ چونکہ پاکستان میں بطور خاص تجزیہ کرکے چیزوں کو شفاف انداز میں پیش کرنے کی اجازت نہیں ہے، چنانچہ 1947 کے تناظر میں محض فسادات اور مسلمانوں کو مظلوم ثابت کرنے پر ہی زور ِقلم صَرف کیا گیا جبکہ اس جبر کا شکار غیر مسلمان بھی ہوئے تھے ۔ کسی نے اس کے ثقافتی اور لسانی تباہ کُن مضمرات پر اگر لکھا بھی تو بہت ڈر چھپ کے لکھا اور عام قاری تک بات کی ترسیل نہ ہو سکی (مثلاً آنگن وغیرہ) غیر منقسم ہندوستان کے مسلمانوں کی ایک سماجی تاریخ بھی تھی جس کا ذکر بہت ہی کم ملتا ہے۔ پنجابی ادبیوں نے اگر اس سلسلے میں کچھ لکھا تو وہ پنجاب کے چند شہروں تک ہی محدود ہو کر رہ گئے۔ ہمارے پاس شمالی ہند،پنجاب، بنگال اور بہار کے مسلمان ادبا،علما اور شعرا کے پیدا کئے گئے سماجی شعور کی ایک بھر پور جدوجہد اور اس کے ثمرات ملتے ہیں، ان پر بہت ہی کم قلم اٹھایا گیا۔اسی طرح پنجاب میں کم از کم لاہور، امرتسر اور جالندھر کی حد تک ایک عظیم ثقافت لہریں لے رہی تھی، اس پر کس نے اور کتنا لکھا؟
ہندوستان کی تقسیم دراصل خطہ زمین کی تقسیم نہیں تھی، یہ مسلمانوں کی تقسیم تھی، ایک ایسی عظیم تہذیب کی تقسیم تھی جس نےپنپنے میں ہزار برس کا عرصہ لیا تھا ۔ یہاں دو سوال پیدا ہو تے ہیں ۔ ایک یہ کہ کیا پاکستان برصغیر کے تمام مسلمانوں کے لئے بنایا گیا تھا اور دوسرا یہ کہ کیا یہ ملک بھی پہلی جنگ عظیم کے بعد دنیا کے نقشے میں کتربیونت کرکے بہت سے نئے ممالک اُبھارنے کے ایجنڈے کا ایک حصّہ تھا؟ (یہ ایک اکیڈمک بحث ہے اور پاکستان میں اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے تو یہاں پہنچ کر میں پاکستانی دوستوں سے درخواست کروں گا کہ اسے محض ایک بحث یا تجزیہ کے طور پر ہی لیں)۔ انقلابات کے اثرات صدیوں پر محیط ہوتے ہیں اور یہ ہر شعبہ زندگی کو متاثر کرتے ہیں اور ادب بھی زندگی کا ایک شعبہ ہی ہے چنانچہ یہ بھی متاثر ہوا ۔ مجھے نہیں پتہ کہ ہندوستانی اردو ادیبوں نے اس کے بارے میں کیا لکھا لیکن یہاں پاکستان میں جو نام اس سلسلے میں دکھائی دیتے ہیں ان میں انتظار حسین صاحب کا نام نمایاں ہے لیکن انہوں نے بھی کھل کر نہیں لکھا (منٹو نے کچھ لکھنا شروع کیا تھا لیکن ان کی عمر نے وفا نہ کی)۔
ہندوستان کے بطن سے پیدا ہونے والے ملک پاکستان اور ہندوستان میں جنم لینے والی مسلمانوں کی روایات کے ٹکراؤ نے جو جوار بھاٹا پیدا کیا، اسے بہت ہی کم لوگوں نے کہانیوں کا حصہ بنایا۔ ہمارا اردو شاعر، چند ایک مستثنات کو چھوڑ کر رگ گل سے بلبل کے پر باندھتا رہا اور افسانہ نگار، یہ بھی چند کو چھوڑ کر ناکام عشق کے قصے لکھتے رہے یعنی موضوع وہی رہا جو ترقی پسند تحریک سے پہلے تھا۔ اسے میں “ادب کی ترقی معکوس” کہتا ہوں۔ یہاں پاکستان میں جب بھی ہندوستانی “نوابوں” کا تذکرہ ہوتا ہے تو انہیں رنڈی باز، شرابی کبابی،رقاص اور بھانڈوں کا سرپرست قرار دیا جاتا ہے ۔ ہندو اگر ایسا کرتے ہیں تو اس کی وجوہات ہوسکتی ہیں ۔ ہمارے ادب میں مسلمانوں کا یہ کردار انتہائی قابل افسوس ہے کہ ایسوں کی کمی نہیں رہی جنہوں نے لڑ بھڑ کر آزادی کی حفاظت کی ۔دیکھ لیجئے نواب سراج الدولہ سے لے کر روہیل کھنڈ کے حافظ رحمت خان تک ۔(واجدہ تبسم اگر اپنی “نتھ سیریز” میں دکنی نوابوں کا مذاق اڑاتی ہیں تو وہ سبھی کو رگڑتی ہیں جبکہ دکن میں ہی مسلمانوں کے جلیل القدر نوابین کے نام بھی ملتے ہیں )یہ دو نام مثال کے طور پر لئے گئے ہیں ورنہ بہت بڑی تعداد ہے ۔ رنگیلے پیا کو مثال بنا کر سبھی مسلمانوں کو نہیں رگیدا جا سکتا ۔ پھر ایسے لوگوں کی بھی مسلمانوں میں کمی نہیں تھی جنہوں نے (قیام پاکستان کے لئے نہیں) ہندوستان کی آزادی کے لئے اپنی جانیں قربان کیں (یاد کیجئے اشفاق اللہ خاں کو) ۔ تہذیبی طور پر منتشر مسلمانوں کو جب پہلے دو اور اب بنگلہ دیش کی صورت میں تین حصوں میں بانٹ دیا گیا۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو قیام پاکستان کی صورت میں مستقل سود ادا کرنے پر لگا دیا گیا تو پھر ہرچرن سنگھ جیسے لوگ اگر مسلمانوں کو شودروں کی جگہ دینے کی بات کرتے ہیں تو کیا غلط کرتے ہیں؟
یہ وہ موضوعات تھے جو پاکستان کے قیام اور ہندوستان کی آزادی کے انقلاب کے بعد ہمارے ادیبوں کو زیر بحث لانے چاہئیں تھے ۔ اب آئیے گزشتہ پندرہ برسوں کے اردو ادب کی طرف ۔ مجھے بمشکل ایک آدھ نام ہی ایسا دکھتا ہے جس نے سنجیدگی سے نائین الیون کے بعد ہونے والی “گلوبل تبدیلیوں” کے تناظر میں کچھ لکھا ہو ۔ ایسا لگتا ہے ہمارے ادیبوں کی اکثریت کو دنیا کے نہیں، عورت کے جغرافیہ میں زیادہ دلچسپی ہے ۔ پاکستان کا قیام اور اس کے نتیجے میں ہندوستانی مسلمانوں کا پیچھے رہ جانا یہ وہ عوامل ہیں جن پر لکھنے کی ضرورت ہے۔
نوٹ:تحریر میں بیان کردہ خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، مکالمہ ویب کا ان سے اتفاق ضروری نہیں اور نہ ہی یہ خیالات ادارے کی پالیسی کا اظہار ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں