کہ ہم تو ٹھہرے بنجارے /شہزاد ملک

کہ ہم بنجارے ہیںسرکاری ملازم تو بنجارے ہوتے ہیں جن کا کوئی مستقل ٹھکانہ تب تک نہیں ہوتا جب تک وہ سرکار کی ملازمت سے ریٹائر نہ ہوجائیں کچھ تو اپنی عمر بھر کی جمع پونجی لگا کر کسی مناسب مقام پر اپنا ٹھکانہ بنا لیتے ہیں کچھ اپنے آبائی گھروں کو لوٹ جاتے ہیں
انگریز دور کے بنائے سروس رولز کی بنا پر مرکزی سرکاری محکموں کے ملازموں کا تین سال اور صوبائی محکموں کے دو سال بعد ایک شہر سے دوسرے شہر میں تبادلہ ہوجاتا تھا اس اصول کی وجہ یہ بتائی جاتی تھی کہ کوئی سرکاری ملازم ذیادہ دیر تک ایک جگہ پر رہنے کی وجہ سے کرپشن اور اختیارات کا ناجائز استعمال نہ کرنے لگے اس اصول پر اسی کی دھائی تک بہت پابندی سے عمل ہوتا تھا اس کے بعد تبادلے رکوا لینے کا چلن چل پڑا
ہمارے ابا جی بھی محکمہ ڈاک میں ملازم تھے جو مرکزی محکمہ ہے ہمارا سارا بچپن بھی بنجاروں کی طرح شہر شہر گھومتے بیتا میری یادوں کا پہلا سٹیشن چکوال کا قصبہ ڈوہمن ہے جہاں اباجی کی پوسٹنگ تھی یہاں میری دھند میں لپٹی یادوں میں ایک مندر کا دھندلا سا عکس ہے جو یہاں کے مکینوں کی بھارت ہجرت کی وجہ سے ویران پڑا تھا اس مندر کے آس پاس کے گھر خالی تھے جن میں سے ایک اباجی نے کرایے پر لے لیا مگر ایک دو بار یہاں سانپ نکلے تو چھوڑ دیا میرے دونوں چچا پانچویں اور ساتویں جماعتوں کے طالب علم تھے بڑے چچا کے کلاس فیلو رفیق سہگل قریبی گاؤں میں رہتے تھے جو اس وقت کھوتھیاں اور بعد میں سہگل آباد کہلایا وہاں رہتے چچا کی دوستی چچا اشرف سے ہوگئی جو اس وقت تو بڑے چچا کے کلاس فیلو تھے بعد میں پاکستان کی فوج کا حصہ بن گئے تھے ان کا گھر قریبی ڈھوک میں تھا ان کے گھرانے کے ساتھ چچا کے علاوہ ابا جی اور امی کا بھی بہت ملنا جلنا ہوگیا تھا ان کی بےجی بڑی سادہ مزاج اور مہمان نواز خاتون تھیں ہمارے گھر آتیں تو گھر کا مکھن ساگ اور باجرے کی میٹھی تندوری روٹی لاتیں جب ہم ان کے گھر مہمان ہوتے گھر کی پالی مرغی کا سالن دیسی گندم کی نرم روٹی اور سوجی کا دیسی گھی اور گڑ کا حلوہ کھلایا کرتیں سفید تلوں اور گڑ کی پنیاں ساتھ بھیج دیتیں جب چچا اشرف کی شادی ہوئی تو ہم بھی شرکت کرنے گئے تھے ڈوہمن میں ہی ویٹرنری ڈاکٹر منظور سے ابا جی کی بہت دوستی ہوگئی بعد میں جہلم میں بھی ان کی اور اباجی کی پوسٹنگ ایک ہی وقت میں رہی اس علاقے کے مرد ذیادہ تر فوج کی پنجاب رجمنٹ میں ہوتے اور پیچھے خواتین مردانہ وار گھروں اور کھیتوں کو سنبھالتیں گائے بھینس اور بکریاں بھی رکھتی تھیں لمبے قد مضبوط جسم سروں پر سفید کھدر کا پگڑ لپیٹے کھیتوں میں کام کرتی مویشیوں کو چارہ ڈالتی خواتین مردوں کی غیر موجودگی میں خاندان سنبھالے بیٹھی ہوتیں باجرے کی نمکین تندوری روٹی مکھن اور لسی کے ساتھ ان کا من بھاتا کھاجا ہوتا تھا باجرے کی تل لگی میٹھی تندوری روٹی سوغات کے طور پر کھائی جاتی تھی سالن سرسوں کے تیل میں پکایا جاتا تھا ذیادہ تر ثابت دالیں پکائی جاتی تھیں جیسے ثابت ماش مونگ اور مسور یہ سب ان کے اپنے کھیتوں کی پیداوار ہوتی تھی اگر کسی بزرگ کی وفات ہوجاتی تو چالیس دن عورتیں اکٹھی ہوکر بین ڈالا کرتی تھیں ہر جمعرات کو باری باری رشتہ دار اپنے گھر پر ختم رکھتے چالیسویں پر حلوے کی دیسی گھی میں دیگیں پکتیں اور ہر گھر میں ایک کلو فی آدمی کے حساب سے حلوہ بھیجا جاتا جسے قبول نہ کرنا بھیجنے والوں کی ناراضگی مول لینے کے برابر تھا ہمارے گھر چار کلو حلوہ اکٹھا ہوجاتا جسے کھانا ہماری ہمت سے باہر ہوتا فریج تو تب نہیں ہوا کرتے تھے امی ادھر ادھر بانٹ کر ختم کر دیتی تھیں ایک دن ڈاکٹر منظور کی بیگم آئی ہوئی تھیں ان کی موجودگی میں کہیں سے حلوہ آیا تو انہوں نے چچا سے بادام پستہ کشمش اور الائچی منگوائی حلوے کو کڑاہی میں ڈال کر ہلکی آنچ پر پکاتی گئیں ساتھ چمچ چلاتی گئیں حتی کہ اس کے اندر سے نمی خشک ہوگئی اس میں میوے ڈال کر گول گول لڈو بنا دئیے یہ اس قدر لذیذ بنے کہ سب کو ہی بہت پسند آئے اور شوق سے کھائے گئے اس کے بعد تو امی یہی کیا کرتی تھیں دیسی گھی اور میووں والا حلوہ تو طاقت کا خزانہ تھا اسے ضائع کرنا ناشکری ہی ہوتی نا ان دنوں یہ حلوہ بانٹنے والی رسم تو نہیں رہی باقی کئی رسمیں ابھی تک قائم ہیں
میں تو اس وقت ابھی چھوٹی تھی امی اباجی اور دونوں چچا اس جگہ پر بہت خوش تھے سب کا اپنا اپنا معمول بن چکا تھا اور وہ سب اس میں رچ بس گئے تھے اباجی کچھ عرصہ انگریزی فوج میں رہے جنگ عظیم دوم کے دوران وہ برما کے محاذ پر تھے جنگ کے خاتمے پر فوج چھوڑ دی تھی
ڈوہمن میں روز شام کو دونوں چچا اپنے دوستوں کے ساتھ اباجی کے گرد بیٹھ جاتے اور ان سے جنگ عظیم کی کہانیاں سنتےسبھی اپنی مصروفیات میں مگن تھے ایسا لگتا تھا سدا سے ادھر ہی رہتے آئے ہیں
جب کہ ان سب کومعلوم تھا کہ یہ تو عارضی بسیرا ہے ایک دن یہاں سے جانا ہے اور پھر وہ دن بھی آ گیا اباجی نے بتایا کہ ان کی ٹرانسفر شاہ پور ہوگئی ہے امی اور دونوں چچاؤں کو ایک دھچکا سا لگا امی نے اپنی شادی کے بعد یہاں سے ہی اپنی گھرہستی شروع کی تھی اباجی کی پاکستان آنے کے بعد یہ پہلی پوسٹنگ تھی دونوں چچاؤں کی بڑے اچھے گھرانوں کے لڑکوں سے دوستیاں ہوگئی تھیں خاص طور پر اشرف چچا ان کے بہن بھائیوں اور والدین سے تو اپنوں سے بھی بڑھ کر مراسم تھے اور اب ان سب مخلص لوگوں کو چھوڑنا ہوگا یہ سوچ کر سب ہی دُکھی ہورہے تھے یہی تو سرکاری ملازمت کا المیہ ہے کہ جس سر زمین سے انسیت ہوجائے اسے چھوڑنا پڑجاتا ہے
دکھ اور ملال کی اسی کیفیت میں بنجاروں نے اپنا رخت سفر باندھا روانگی سے پہلے اباجی کو محکمے نے الوداعی دعوت دی چچا اشرف کے گھر بھی دعوت پر گئے بےجی نے تحائف دے کے روتی آنکھوں سے سب کو رخصت کیا اور پھر یہ بنجارے عازم شاہ پور ہوگئے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply