• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • تفسیر ابنِ کثیر۔علامہ عماد الدین ابنِ کثیر۔پارہ”الم”سورۃ بقرہ

تفسیر ابنِ کثیر۔علامہ عماد الدین ابنِ کثیر۔پارہ”الم”سورۃ بقرہ

وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنْتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ يَنْقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ وَإِنْ كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلَّا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ
ترجمہ:
پھر فرماتا ہے کہ اس پسندیدہ قبلہ کی طرف تمہیں متوجہ کرنا اس لیے ہے کہ تم خود بھی پسندیدہ امت ہو تم اور امتوں پر قیامت کے دن گواہ بنے رہو گے کیونکہ وہ سب تمہاری فضیلت مانتے ہیں وسط کے معنی یہاں پر بہتر اور عمدہ کے ہیں جیسے کہا جاتا ہے کہ قریش نسب کے اعتبار سے وسط عرب ہیں اور کہا گیا ہےحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی قوم میں وسط تھے یعنی اشرف نسب والے اور صلوۃ وسطی یعنی افضل تر نماز جو عصر ہے جیسے صحیح احادیث سے ثابت ہے اور چونکہ تمام امتوں میں یہ امت بھی بہتر افضل اور اعلی تھی اس لئے انہیں شریعت بھی کامل راستہ بھی بالکل درست ملا اور دین بھی بہت واضح دیا گیا جیسے فرمایا (هُوَ اجْتَبٰىكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ ) 22 ۔ الحج :78) اس اللہ نے تمہیں چن لیا اور تمہارے دین میں کوئی تنگی نہیں کی تمہارے باپ ابراہیم کے دین پر تم ہو۔ اسی نے تمہارا نام مسلم رکھا ہے اس سے پہلے بھی اور اس میں بھی تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں نوح (علیہ السلام) کو قیامت کے دن بلایا جائے گا اور ان سے دریافت کیا جائے گا کہ کیا تم نے میرا پیغام میرے بندوں کو پہنچا دیا تھا ؟ وہ کہیں گے کہ ہاں اللہ پہنچا دیا تھا۔ ان کی امت کو بلایا جائے گا اور ان سے پرسش ہوگی کیا نوح (علیہ السلام) نے میری باتیں تمہیں پہنچائی تھیں وہ صاف انکار کریں گے اور کہیں گے ہمارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا نوح (علیہ السلام) سے کہا جائے گا تمہاری امت انکار کرتی ہے تم گواہ پیش کرو یہ کہیں گے کہ ہاں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت میری گواہ ہے یہی مطلب اس آیت (وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا) 2 ۔ البقرۃ :143) کا ہے وسط کے معنی عدل کے ہیں اب تمہیں بلایا جائے گا اور تم گواہی دو گے اور میں تم پر گواہی دوں گا (بخاری ترمذی، نسائی ابن ماجہ) مسند احمد کی ایک اور روایت میں ہے قیامت کے دن نبی آئیں گے اور ان کے ساتھ ان کی امت کے صرف دو ہی شخص ہوں گے اور اس سے زیادہ بھی اس کی امت کو بلایا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا اس نبی نے تمہیں تبلیغ کی تھی ؟ وہ انکار کریں گے نبی سے کہا جائے گا تم نے تبلیغ کی وہ کہیں گے ہاں، کہا جائے گا تمہارا گواہ کون ہے ؟ وہ کہیں گے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت۔ پس محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت بلائی جائے گی ان سے یہی سوال ہوگا کہ کیا اس پیغمبر نے تبلیغ کی ؟ یہ کہیں گے ہاں، ان سے کہا جائے گا کہ تمہیں کیسے علم ہوا ؟ یہ جواب دیں گے کہ ہمارے پاس ہمارے نبی آئے اور آپ نے خبر دی کہ انبیاء (علیہم السلام) نے تیرا پیغام اپنی اپنی امتوں کو پہنچایا۔ یہی مطلب ہے اللہ عزوجل کے اس فرمان (وکذلک) الخ کا مسند احمد کی ایک اور حدیث میں وسطاً بمعنی عدلاً آیا ہے ابن مردویہ اور ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں اور میری امت قیامت کے دن ایک اونچے ٹیلے پر ہوں گے تمام مخلوق میں نمایاں ہو گے اور سب کو دیکھ رہے ہوں گے اس روز تمام دنیا تمنا کرے گی کہ کاش وہ بھی ہم میں سے ہوتے جس جس نبی کی قوم نے اسے جھٹلایا ہے ہم دربار رب العالمین میں شہادت دیں گے کہ ان تمام انبیاء نے حق رسالت ادا کیا تھا۔ مستدرک حاکم کی ایک حدیث میں ہے کہ بنی مسلمہ کے قبیلے کے ایک شخص کے جنازے میں ہم نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے لوگ کہنے لگے حضور یہ بڑا نیک آدمی تھا۔ بڑا متقی پارسا اور سچا مسلمان تھا اور بھی بہت سی تعریفیں کیں آپ نے فرمایا تم یہ کس طرح کہ رہے ہو ؟ اس شخص نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوشیدگی کا علم تو اللہ ہی کو ہے لیکن ظاہرداری تو اس کی ایسی ہی حالت تھی آپ نے فرمایا اس کے لیے جنت واجب ہوگئی پھر بنو حارثہ کے ایک شخص کے جنازے میں تھے لوگ کہنے لگے حضرت یہ برا آدمی تھا بڑا بد زبان اور کج خلق تھا آپ نے اس کی برائیاں سن کر پوچھا تم کیسے کہہ رہے ہو اس شخص نے بھی یہی کہا کہ آپ نے فرمایا اس کے لیے واجب ہوگئی محمد بن کعب اس حدیث کو سن کر فرمانے لگے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچے ہیں دیکھو قرآن بھی کہہ رہا ہے (وکذلک) الخ مسند احمد میں ہے۔ ابو الاسود فرماتے ہیں میں مدینہ میں آیا یہاں بیماری تھی لوگ بکثرت مر رہے تھے میں حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس بیٹھا ہوا تھا جو ایک جنازہ نکلا اور لوگوں نے مرحوم کی نیکیاں بیان کرنی شروع کیں آپ نے فرمایا اس کے لیے واجب ہوگئی اتنے میں دوسرا جنازہ نکلا لوگوں نے اس کی برائیاں بیان کیں آپ نے فرمایا اس کے لیے واجب ہوگئی میں نے کہا امیر المومنین کیا واجب ہوگئی ؟ آپ نے فرمایا میں نے وہی کہا جو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ جس مسلمان کی بھلائی کی شہادت چار شخص دیں اسے جنت میں داخل کرتا ہے ہم نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر تین دیں ؟ آپ نے فرمایا تین بھی ہم نے کہا اگر دو ہوں آپ نے فرمایا دو بھی۔ پھر ہم نے ایک کی بابت کا سوال نہ کیا ابن مردویہ کی ایک حدیث میں ہے قریب ہے کہ تم اپنے بھلوں اور بروں کو پہچان لیا کرو۔ لوگوں نے کہا حضور کس طرح ؟ آپ نے فرمایا اچھی تعریف اور بری شہادت سے تم زمین پر اللہ کے گواہ ہو پھر فرماتا ہے کہ اگلا قبلہ صرف امتحاناً تھا یعنی پہلے بیت المقدس کو قبلہ مقرر کر کے پھر کعبۃ اللہ کی طرف پھیرنا صرف اس لئے تھا کہ معلوم ہوجائے کہ سچا تابعدار کون ہے ؟ اور جہاں آپ توجہ کریں وہیں اپنی توجہ کرنے والا کون ہے ؟ اور کون ہے جو ایک دم کروٹ لے لیتا ہے اور مرتد ہوجاتا ہے، یہ کام فی الحقیقت اہم کام تھا لیکن جن کے دلوں میں ایمان و یقین ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سچے پیروکار ہیں جو جانتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو فرمائیں سچ ہے جن کا عقیدہ ہے کہ اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے جو ارادہ کرتا ہے حکم کرتا ہے۔ اپنے بندوں کو جس طرح چاہے حکم دے جو چاہے مٹائے جو چاہے باقی رکھے اسکا ہر کام، ہر حکم حکمت سے پر ہے ان پر اس حکم کی بجا آوری کچھ بھی مشکل نہیں۔ ہاں بیمار دل والے تو جہاں نیا حکم آیا انہیں فوراً نیا درد اٹھا قرآن کریم میں اور جگہ ہے (وَاِذَا مَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ نَّظَرَ بَعْضُھُمْ اِلٰى بَعْضٍ ۭ هَلْ يَرٰىكُمْ مِّنْ اَحَدٍ ثُمَّ انْصَرَفُوْا ۭ صَرَفَ اللّٰهُ قُلُوْبَھُمْ بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ ) 9 ۔ التوبہ :127) یعنی جب کبھی کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو ان میں سے بعض پوچھتے ہیں اس سے کس کا ایمان بڑھا ؟ حقیقت یہ ہے کہ ایمانداروں کے ایمان بڑھتے ہیں اور ان کی دلی خوشی بھی اور بیمار دل والے اپنی پلیدی میں اور بڑھ جاتے ہیں اور جگہ فرمان ہے (قُلْ هُوَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا هُدًى وَّشِفَاۗءٌ ۭ وَالَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ فِيْٓ اٰذَانِهِمْ وَقْرٌ وَّهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى) 41 ۔ فصلت :44) یعنی ایمان والوں کے لیے یہ ہدایت اور شفا ہے اور بےایمان لوگوں کے کانوں میں بوجھ اور آنکھوں پر اندھاپا ہے اور جگہ فرمان ہے (وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَاۗءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ ۙ وَلَا يَزِيْدُ الظّٰلِمِيْنَ اِلَّا خَسَارًا) 17 ۔ الاسرآء :82) یعنی ہمارا اتارا ہوا قرآن مومنوں کے لئے سراسر شفاء اور رحمت ہے اور ظالموں کا نقصان ہی بڑھتا رہتا ہے اس واقعہ میں بھی تمام بزرگ صحابہ ثابت قدم رہے اول سبقت کرنے والے مہاجر اور انصار دونوں قبیلوں کی طرف نماز پڑھنے والے ہیں۔ چناچہ اوپر حدیث بیان ہوچکی کہ کس طرح وہ نماز پڑھتے ہوئے یہ خبر سن کر گھوم گئے۔ مسلم شریف میں روایت ہے کہ رکوع کی حالت میں تھے اور اسی میں کعبہ کی طرف پھرگئے جس سے ان کی کمال اطاعت اور اعلیٰ درجہ کی فرمان برداری ثابت ہوئی پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تمہارے ایمان کو ضائع نہیں کرے گا۔ یعنی تمہاری بیت المقدس کی طرف پڑھی ہوئی نمازیں رد نہیں ہوں گے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں بلکہ ان کی اعلیٰ ایمانداری ثابت ہوئی انہیں دونوں قبلوں کی طرف نماز پڑھنے کا ثواب عطا ہوگا یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور ان کے ساتھ تمہارے گھوم جانے کو ضائع نہ کرے گا پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ رؤف رحیم ہے ؟ صحیح حدیث میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک جنگی قیدی عورت کو دیکھا جس سے اس کا بچہ چھوٹ گیا تھا وہ اپنے بچہ کو پاگلوں کی طرح تلاش کر رہی تھی اور جب وہ نہیں ملا تو قیدیوں میں سے جس کسی بچہ کو دیکھتی اسی کو گلے لگا لیتی یہاں تک کہ اس کا اپنا بچہ مل گیا خوشی خوشی لپک کر اسے گود میں اٹھا لیا سینے سے لگایا پیار کیا اور اس کے منہ میں دودھ دیا یہ دیکھ کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ سے فرمایا بتاؤ تو یہ اپنا بس چلتے ہوئے اس بچہ کو آگ میں ڈال دے گی ؟ لوگوں نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہرگز نہیں آپ نے فرمایا اللہ کی قسم جس قدر یہ ماں اپنے بچہ پہ مہربان ہے اس سے کہیں زیادہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رؤف و رحیم ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply