پہلی نظر میں ہمارے، میں، اور ، غیر میں، کے درمیان فرق بہت آسان لگے گا، ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے جسمانی وجود کی حدود کہاں سے شروع ہو کر کہاں ختم ہو رہی ہیں ۔ یہی نہیں بلکہ نفسیاتی حدود کا تعین کرنے میں بھی فرد کسی حد تک کامیاب ہو جاتا ہے، مثلاً غصے یا کسی خاص جذبات کے وقت ہم بظاہر سمجھ سکتے ہیں کہ یہ میں ہوں یا پھر یہ میں نہیں ہوں۔
نفسیات کے میدان میں فرد کا یہ تعین گاہے غلط بھی ہو سکتا ہے، بالکل ایسے ہی جیسے رنگوں میں فرق نہ کر سکنے والا انسان (daltonic) کسی رنگ کے پرکھنے میں دھوکا کھا سکتا ہے۔
شعور جتنا کمزور ہوگا، انسانی شخصیت کا سایہ اتنا گہرا ہوگا، اور گہرا سایہ فرد کیلئے خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔
سایہ اور شعور ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں (شعور کی جگہ انا کا لفظ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے)، عمومی حالات میں شعور ہی فرنٹ فٹ پہ رہتے ہوئے افعال سر انجام دیتا ہے، لیکن کب اور کس وقت سایہ شعور کو پیچھے دھکیلتے ہوئے اس کی جگہ لے لیتا ہے، فرد کیلئے اس کا ادراک کرنا نہایت مشکل ہے ۔
ہر وہ فعل اور پہلو آپ کی شخصیت کا سایہ ہے جسے لوگوں کے سامنے ظاہر کرنے میں آپ ہچکچاتے ہیں یا شرم محسوس کرتے ہیں، کارل یونگ کے مطابق اگر آپ اپنے سائے کے جوہر اور اس کی اصلیت کو جاننا چاہتے ہیں تو دوسرے لوگوں کی ذات کا مشاہدہ کیجئے ، دوسروں کی ہر وہ حرکت یا فعل جو آپ کیلئے غصے، چڑچڑاہٹ، بیزاری اور شرم کا باعث بنتی ہے وہی آپ کی شخصیت کا سایہ ہے، کیونکہ آپ کی ذات کے یہی وہ پہلو ہیں جنہیں آپ ہمیشہ دوسروں سے چھپاتے آئے ہیں اور جب کبھی کسی میں یہ رویے دیکھتے ہیں تو جھنجھلاہٹ کا شکار ہوتے ہیں ۔
دوسرے انسانوں میں اپنے سائے کو دیکھنے اور اس کا انکار کرنے کا مطلب ہے کہ آپ نے اپنے سائے کی طرف پیٹھ موڑ لی ہے، اب وہ کسی بھی وقت آپ کو گردن سے دبوچ کر آپ کے شعور کو یرغمال بنا سکتا ہے ، اعلیٰ اور مضبوط شعور رکھنے والا شخص سائے کا سامنا کرے گا اور کم از کم ایک گنجائش ضرور رکھے گا کہ اگر دھوکہ باز شخص سے مجھے شدید نفرت ہے تو کہیں یہ اس چیز کی علامت تو نہیں کہ مجھ میں بھی دھوکہ دینے کی صلاحیت موجود ہے؟
ازدواج میں سے جو فریق مسلسل دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے، وہی زوج بالقوہ چیٹنگ کا جھکاؤ رکھتا ہے۔
یہاں قدرے اجتماعی سطح پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا ایسا حکمران جو کسی خاص آئیڈیالوجی میں مبتلا ہے وہ دراصل سائے کے زیر اثر ہے، کسی بھی مخالف نکتۂ نظر کو برداشت کرنے سے انکار کا مطلب ہے کہ آپ آئینہ یکھنے سے خوفزدہ ہیں، فاشزم کی جڑیں یہیں سے نکلتی ہیں، تقوے کے ہیضہ میں مبتلا حکمران کبھی بھی عوام الناس اور سماج کیلئے سود مند نہیں ہو سکتا۔
ارنسٹ یونگر جرمنی کے دانشور گزرے ہیں، انہوں نے بیسویں صدی کی دونوں بڑی جنگوں کو بھگتا، وہ ان چند لوگوں میں سے ایک تھے جنہیں ہٹلر نے مخالفت کے باوجود مارنے سے پرہیز کیا، یونگر اپنی یادداشتوں میں ایک خواب کا ذکر کرتے ہیں جو انہوں نے دوسری جنگ عظیم کے شروع ہونے سے قبل دیکھا، وہ خواب میں دیکھتے ہیں کہ بہت اچھے لباس میں ملبوس بے شمار لوگ ایک جزیرے پہ موجود ہیں، بارش ہو رہی ہے اور بارش کے ساتھ آسمان سے سانپ گر رہے ہیں، خوبصورت لباس میں ملبوس لوگوں نے اندھا دھند ان سانپوں پر حملہ کر دیا اور انہیں مارنے لگے ، جواب میں سانپ بھی ان لوگوں کو ڈس رہے ہیں جن سے بے شمار اموات ہو رہی ہیں، ان کے بقول وہ تب ہی جان چکے تھے کہ جنگ شروع ہونے والی ہے، کیونکہ خوبصورت لباس والے ہم جرمن لوگ ہر اس چیز سے خوفزدہ ہیں جو ہمارے جیسی نہیں یا ہمارے جیسی سوچ نہیں رکھتی، جنگ سے بچا جا سکتا تھا اگر سانپوں کو سمندر کی طرف محفوظ راستہ دے دیا جاتا، غیر جرمن یا یہودی اگر ہمارے جیسا نہیں تو ہمیں اس سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہ تھی، ہم سائے کے زیرِ اثر تھے، ہم آئینہ دیکھنے سے گھبراتے تھے اسی لئے ہر مخالف رائے یا فریق کو کچلنے نکل کھڑے ہوئے اور بربادی ہمارا مقدر ٹھہری ۔
سیاست میں اپنے مخالف کو مکمل طور پر تباہ و برباد کرنا بہت بڑی غلطی ہے، دشمن کے صفحۂ ہستی سے مٹ جانے کے بعد اب اپنی صفوں میں ایک نا ختم ہونے والی جنگ شروع ہوگی جو جماعت کو لے ڈوبے گی، اسی لئے سیاست میں اپنے پرائے ، رفیق اور مخالف کا وجود ہر حال میں برقرار رہنا چاہیے، یہی سیاست اور سیاسی جماعت کی روح ہے، اسی طرح فرد کے اندر بھی ہر حال میں سائے کی موجودگی ضروری ہے ، سائے سے جان چھڑانے کی کوشش انا کو مضبوط تر بنائے گی، نتیجہ صرف بربادی ہے، ویسے بھی انسانی جذبات، جیسے غصہ، حسد، لالچ، جنس وغیرہ سائے سے جڑے ہیں اور یہی خصلتیں بری ہونے کے باوجود انسان کیلئے محرک اور توانائی کا ذریعہ ہیں۔ فقط اتنا کہ سائے کے وجود کا اقرار کیا جائے اور اسے فیس کیا جائے چاہے انا کو کیسی ہی چوٹ کیوں نہ لگ رہی ہو، دوسری صورت سایہ شعور پہ حاوی ہوتے ہوئے کسی بھیانک تصویر کا خالق بن سکتا ہے۔
کسی معصوم بچے کو آپ منع کریں کہ کمرے میں گیند سے مت کھیلو، کیونکہ گیند لگنے سے آئینہ یا ٹی وی کی سکرین ٹوٹ سکتی ہے، اچانک چٹاخ کی آواز آتی ہے، آپ کچن سے کمرے کو بھاگتے ہیں ، دیکھتے ہیں کہ آئینہ چکنا چور ہو چکا، آپ چلاتے ہیں کہ میں نے منع بھی کیا تھا، دیکھا تم نے کیا کیا ؟ بچہ جواب میں کہتا ہے کہ یہ میں نے نہیں توڑا، وہ کسی بھی دوسرے پہ الزام تھوپ دے گا لیکن خوف کی وجہ سے جرم قبول نہیں کرے گا۔
بچہ جانتا تو ہے کہ یہ کام اسی نے کیا ہے، لیکن چونکہ خوفزدہ ہے اس لئے ذمہ داری قبول نہیں کر رہا، یہی وہ مقام ہے جہاں سایہ جنم لیتا ہے، بچہ اپنے من میں جانتا ہے کہ یہ اسی کا کیا دھرا ہے لیکن وہ صرف والدین کے سامنے ہی اسے قبول نہیں کرنا چاہتا، بلکہ اپنی ذات، اپنے شعور کو بھی دھوکہ دینا چاہتا ہے کیونکہ یہ حرکت اس کیلئے شرم کا باعث ہے، یہیں وہ ایک متوازی شخصیت، اپنے ہمزاد کو تخلیق کرتا ہے جو وقت کے ساتھ بڑھتا جاتا ہے، اب تمام ناکامیاں، غلط حرکتیں اور جذبات کے زیرِ اثر فیصلوں کو وہ آسانی سے اپنی اس متوازی شخصیت پہ ڈالتا جاتا ہے، یہی سایہ ہے جو ہماری ذات کا ناگزیر حصہ ہے، اس کے بغیر فرد ایک روبوٹ سے زیادہ کچھ نہیں، لیکن اس کے ہاتھوں یرغمال بننا انفرادی اور اجتماعی سطح پہ انتہائی خطرناک بھی ہے۔
قدیم یونانی اپنے جذبات کو اپنی شخصیت سے علیحدہ تصور کرتے تھے ، وہ سائے کو کچھ گنجائش دینے کے حق میں تھے، غصے کا دیوتا، نیند کی دیوی وغیرہ کی اصطلاحات یہیں سے سامنے آئیں، گویا کہ شخصیت اور جذبات دو مختلف وجود ہیں اور ان دونوں کی اپنی اپنی اہمیت ہے۔ہومر نے اپنی نظموں میں صرف اکیلیس کو ہی نہیں بلکہ دشمن ہونے کے باوجود ہیکٹر کو بھی شیرجوان بتایا ہے، ٹرائے کی جنگ کے دونوں فریقوں کی اچھائیاں اور برائیاں انہوں نے کھلے دل سے تسلیم کی ہیں۔ یہاں وہ شعور اور سائے دونوں کو برابر اہمیت دے رہے ہیں۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ ابراہیمی مذاہبِ نے انسان اور اس کے جذبات کو ایک ہی شخصیت میں پرویا، یعنی کہ یہ جذبات کوئی علیحدہ چیز نہیں بلکہ یہ بھی تم ہی ہو، اس کا مقصد انسان پر ذمہ داری کا ڈالنا اور اسے سمجھنا تھا، البتہ یہاں اعتدال کے لڑکھڑانے سے فرد سائے کو مارنے نکل پڑا جس کا نقصان یہ ہوا کہ انسانوں کے وہ افعال جو ہمیں اذیت دیتے ہیں، ان کا مشاہدہ اور تجزیہ کرنے کی بجائے فرد اب ان آئینہ دکھاتے لوگوں کو ہی مٹا ڈالنے کی خواہش پالتا ہے، سائے کو مارنے کی خواہش درحقیقت سائے کی غلامی ہے۔
آپ نے کئی بار دیکھا ہوگا کہ کسی بچے سے زیادتی کرنے کے بعد فرد سے جب پوچھا جاتا ہے کہ اس نے ایسی حرکت کیوں کی ؟ تو اس کا جواب ہوتا ہے کہ مجھے شیطان نے بہکا دیا تھا، اس لطیف موضوع پہ غور کرنے کی ضرورت ہے، یہ دراصل وہ شخص ہے جو تقوے کے جذبے تحت تمام غیر متقی لوگوں کو ناپسند کرتا ہے ، کیونکہ یہ غیر متقی اور عوامی شخص اسے اپنے وجود اور افعال سے یہ یاد دلاتا ہے کہ وہ تمام کمزوریاں اور کوتاہیاں جن پہ تم سیخ پا ہو، یہ سب تمہارے اندر بھی موجود ہیں، اس بھیانک حقیقت کو قبول کرنے کیلئے یہ متقی شخص تیار نہیں ، وہ اپنے سائے کو اپنا دشمن سمجھتا ہے اور لاشعوری طور پر اسے مارنے کی خواہش پالتا ہے ، شعور کا دامن تنگ ہوتا جاتا ہے، سایہ شعور پہ قبضہ کرتا جاتا ہے، اس کیفیت میں فرد کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب شعور کی جگہ اس کے سائے نے لیتے ہوئے اس کی شخصیت کے خونخوار پہلو کو دنیا کے سامنے ننگا کر دیا ہے، نفسیات کی باریکیوں سے ناواقف شخص، نالوں کے اتر جانے کے بعد یہاں اس سائے کی موجودگی کو محسوس کررہا ہے جس کا انکار وہ تمام عمر کرتا آیا، اگرچہ وضاحت کرنے سے قاصر ہے، اسی لئے شیطان کو مورد الزام ٹھہراتا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں