• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سندھ میں پولیو وائرس: روک تھام کے اقدامات/ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

سندھ میں پولیو وائرس: روک تھام کے اقدامات/ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

پاکستان کے صوبہ سندھ میں حال ہی میں پولیو وائرس کا پہلا کیس سامنے آیا ہے، جس کے بعد اس برس پاکستان میں پولیو سے متاثر ہونے والے بچوں کی تعداد چار ہوگئی ہے۔ اس سے قبل بلوچستان میں تین کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔ پولیو ایک موذی مرض ہے جو بچوں کو اپنی لپیٹ میں لے کر زندگی بھر کے لیے معذور کردیتا ہے۔ اس کا کوئی علاج نہیں، سوائے اس تدبیر کے کہ پانچ سال تک کے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جائیں۔ آج کے اس کالم میں ہم پولیو کے تاریخی پس منظر، پاکستان کی موجودہ صورتحال اور انسداد پولیو کے اقدامات پر تفصیل سے بات کریں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پولیو جسے پولیو مائیلائٹس بھی کہا جاتا ہے، ایک وائرل بیماری ہے جو انسانی جسم کے مرکزی عصبی نظام کو متاثر کرتی ہے، اور بسا اوقات یہ معذوری کا باعث بھی بنتی ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں، پولیو دنیا بھر میں ایک بڑا طبی مسئلہ بن گیا تھا۔ 1950 کی دہائی میں ویکسین کی دریافت سے پہلے، یہ بیماری لاکھوں بچوں کو متاثر کرتی تھی۔ جوناس سالک اور البرٹ سبن کی ویکسین کی ایجاد نے پولیو کے خلاف لڑائی میں ایک انقلابی قدم رکھا اور اس کی بدولت دنیا کے بہت سے ممالک میں پولیو کا خاتمہ ممکن ہو سکا۔
پاکستان میں پولیو کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں پولیو ابھی تک مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکا۔ یہ بیماری ملک کے مختلف حصوں میں پھیلتی رہی ہے، خاص طور پر بلوچستان، خیبر پختونخوا، اور سندھ میں اس بیماری سے متاثرہ بچے موجود ہیں۔ حالیہ کیسز نے یہ ثابت کیا ہے کہ پولیو کے خلاف مہم کو مزید مضبوط اور موثر بنانا ہوگا۔
سندھ کے شہر شکار پور کی یوسی بھڑکن سے پولیو کے حالیہ کیس کی رپورٹ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ یہ کیس اس علاقے کا پہلا کیس نہیں ہے؛ چار سال قبل بھی یہاں سے پولیو کا ایک کیس سامنے آیا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیو وائرس یہاں مسلسل موجود ہے اور اس کے خاتمے کے لیے زیادہ محنت اور کوششوں کی ضرورت ہے۔
سیوریج کے پانی سے وائرس کی نگرانی ایک اہم پیش رفت ہے۔پاکستان میں سیوریج کے پانی سے حاصل ہونے والے نمونوں کا تجزیہ کیا جاتا ہے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ کس شہر کے کس علاقے میں پولیو وائرس موجود ہے۔ یہ طریقہ کار بہت مفید ثابت ہوا ہے کیونکہ اس سے وائرس کے پھیلاؤ کا جلد پتہ چل جاتا ہے اور فوری طور پر اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔
انسداد پولیو کے لیے مندرجہ ذیل سفارشات پر عمل کیا جائے:
قومی سطح پر انسداد پولیو مہم:نیشنل ایمرجنسی سینٹر کی جانب سے 3 جون سے ملک بھر کے 66 مختلف اضلاع میں خصوصی انسداد پولیو مہم شروع ہو چکی ہے۔ اس مہم کے تحت کراچی سمیت سندھ کے مختلف علاقوں میں 3 سے 9 جون تک پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جائیں گے۔
پولیو ورکرز اور سیکورٹی انتظامات:انسداد پولیو مہم میں 45 ہزار پولیو ورکرز گھر گھر جا کر بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائیں گے۔ اس مہم کے دوران 44 ہزار سیکورٹی اہلکار پولیو ورکرز کو تحفظ فراہم کریں گے تاکہ وہ بلا خوف و خطر اپنے فرائض انجام دے سکیں۔
بین الصوبائی اور بین الاقوامی اقدامات:صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عذر افضل پیچوہو کی زیر صدارت ایک اجلاس میں یہ ہدایت دی گئی کہ دوسرے صوبوں اور افغانستان سے آنے والے بچوں کو بھی ریلوے اسٹیشنوں اور بس اسٹاپ پر پولیو کے قطرے پلائے جائیں۔ یہ ایک اہم قدم ہے کیونکہ پولیو وائرس کا خاتمہ صرف قومی سطح پر نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر مشترکہ کوششوں سے ہی ممکن ہے۔
اس سلسلےل میں مندرجہ ذیل تجاویز ہیں جن پر عمل کرکے پولیو سے بچا جاسکتا ہے:
عوامی آگاہی میں اضافہ: عوام میں پولیو ویکسین کے فوائد اور اس کے متعلق غلط فہمیوں کے خاتمے کے لیے مسلسل آگاہی مہم چلائی جائے۔
بچوں کی مکمل ویکسینیشن: ہر بچے کو ویکسین دینے کے عمل کو یقینی بنایا جائے، خاص طور پر دور دراز علاقوں میں ویکسین کو یقینی بنایا جائے۔
سیکورٹی انتظامات: پولیو ورکرز کو تحفظ فراہم کرنا بے حد ضروری ہے تاکہ وہ بلا خوف و خطر اپنا کام کر سکیں۔
بین الاقوامی تعاون: افغانستان جیسے ہمسایہ ممالک کے ساتھ مشترکہ کوششوں کو بڑھایا جائے تاکہ پولیو کے خاتمے کی عالمی کوششوں کو تقویت مل سکے۔
سیوریج کے پانی کی نگرانی: سیوریج کے پانی سے پولیو وائرس کی موجودگی کا پتہ چلانے کے عمل کو مزید مؤثر بنایا جائے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ پولیو کا خاتمہ اس صورت میں ممکن ہے جب تمام متعلقہ ادارے اور عوام مل کر کام کریں۔ سندھ میں حالیہ کیس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ پولیو کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ اگر ہم پولیو کی ویکسینیشن مہمات کو کامیاب بنائیں اور عوام میں شعور بیدار کریں، تو ایک دن ضرور آئے گا جب پاکستان بھی پولیو فری ممالک کی صف میں شامل ہو جائے گا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
*رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ''کافرستان''، اردو سفرنامہ ''ہندوکش سے ہمالیہ تک''، افسانہ ''تلاش'' خودنوشت سوانح عمری ''چترال کہانی''، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، ورلڈ ریکارڈ سرٹیفیکیٹس، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔ کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں، اس واٹس ایپ نمبر 03365114595 اور rachitrali@gmail.com پر ان سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply