کیا موت کا خاتمہ ممکن ہے؟-زبیر حسین

موت کی روایتی تعریف کچھ یوں ہے۔ حرکت قلب بند ہونے سے دماغ اور جسم کے دیگر اعضا کو خون یا آکسیجن کی سپلائی رُک جائے تو موت واقع ہو جاتی ہے۔ موت کے بعد انسان کے جسم میں زندگی کی کوئی علامت نہیں ہوتی۔ دل نہیں دھڑکتا، سانس بند، اور آنکھوں کی پتلیاں ساکت۔ خیال رہے حرکت قلب بند ہونے کے چند سیکنڈ بعد دماغ اور جسم کے دیگر اعضا کام کرنا بند کر دیتے ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میں ہونے والی حالیہ پیش رفتوں کے نتیجے میں موت کی یہ روایتی تعریف بدل چکی ہے۔ موجودہ تعریف کی رو سے موت ایک پراسس یا عمل ہے جسے روکنا یا ریورس کرنا ممکن ہے۔ اب میڈیکل سائنس اس سٹیج پر پہنچ گئی ہے کہ موت کو وارد ہوئے کئی گھنٹے گزر جائیں تب بھی انسان کو موت کے منہ سے نکال سکتے ہیں۔ عام عقیدے کے برعکس موت حتمی نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں حرکت قلب بند ہو جائے، سانس کی آمدورفت رک جائے، اور دماغ کام کرنا چھوڑ دے تب بھی جسم میں زندگی کو بحال کرنا ممکن ہے۔ ایسے آلات اور تکنیک ایجاد اور دریافت ہو چکے ہیں جن کے ذریعے جسم کا درجہ حرارت کنٹرول کرکے دماغ اور جسم کے خلیات کو مرنے سے روک سکتے ہیں۔ ابھی ایسے آلات اور تکنیک امریکہ اور یورپ کے کچھ ہسپتالوں میں دستیاب ہیں۔ یہ ڈاکٹر سام پارنیا کی کتاب “موت کا خاتمہ” کا مختصر لب لباب ہے۔

ڈاکٹر پارنیا نے اپنی اس کتاب میں امریکہ اور یورپ کے ان جدید ہسپتالوں کے انتہائی نگہداشت کے شعبوں میں قریب المرگ یا “مردہ” مریضوں کے دل کی دھڑکن اور سانس کی بحالی کے سلسلے میں ہونے والی تحقیق کے نتائج پیش کئے ہیں۔ اس تحقیق کے چیدہ چیدہ نکات درج ذیل ہیں۔

اب ڈاکٹر نا  صرف موت کے پراسس کو ریورس کرنے کے قابل ہو گئے ہیں بلکہ زندگی، شعور، اور ذہن سے وابستہ اسراروں سے بھی پردہ اٹھنا شروع ہو گیا ہے۔ شعوریا روح سے متعلق وہ سوالات جو کبھی مذہب اور فلسفہ کے ڈومین میں تھے اب سائنسدان تحقیق کرکے ان کے جواب تلاش کر رہے ہیں۔

کیا جسم کی موت کے ساتھ ہی شعور بھی فنا ہو جاتا ہے؟
اگر نہیں تو موت کے دوران یا بعد شعور کہاں چلا جاتا ہے؟

موت کے منہ سے واپس آنے والے اگلی دنیا کے جو قصے سناتے ہیں اب انھیں خواب، افسانے، یا دماغ کی کرشمہ سازیاں قرار دے کر جھٹلانا ممکن نہیں رہا۔ کیوں؟

اوّل تو ان کے دماغ غیر فعال تھے۔ لہذا وہ خواب دیکھنے یا سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم تھے۔ دوم ہسپتال کے انتہائی نگہداشت کے کمرے کو اس طرح ترتیب دیا گیا تھا کہ اگر سٹریچر یا بستر پر دراز قریب المرگ مریض یا مردے کی آنکھیں کھلی بھی ہوں تب بھی وہ شیلف پر رکھی ہوئی کوئی چیز نہ دیکھ سکے۔ شیلف پر رکھی چیزوں کو دیکھنا صرف اس صورت میں ممکن تھا جب مریض کا شعور (روح) جسم سے نکل کر چھت پر پہنچ جائے۔ اس کے باوجود موت کے منہ سے واپس آنے والے کئی افراد نے انکشاف کیا کہ ان کا شعور جسم سے نکل کر اوپر سے ڈاکٹروں اور نرسوں کو اپنے مردہ جسم پر نہ صرف کام کرتے دیکھ رہا تھا بلکہ ان کے درمیان ہونے والی گفتگو بھی سن رہا تھا۔ انہوں نے شیلف پر پڑی اشیا کے نام بھی بتا دئیے۔ ڈاکٹروں اور نرسوں نے گفتگو کی تصدیق کر دی۔ یہ ایک حیران کن انکشاف تھا۔

اس تحقیق سے ثابت ہو گیا کہ شعور دماغ کی پیداوار نہیں ہے۔ یہ اپنا الگ وجود رکھتا ہے۔ نیز جسم سے الگ ہونے کے بعد بھی اس میں دیکھنے اور سننے کی صلاحیت موجود رہتی ہے۔ اس بات کی شہادت مل چکی ہے کہ شعور اور ذہن انسان کی موت کے کئی گھنٹے بعد بھی موجود رہتے ہیں۔ اس کے بعد یہ کہاں جاتے ہیں؟ جلد یا بدیر اس سوال کا جواب بھی مل جائے گا۔

ڈاکٹر سام پارنیا کے بقول میڈیکل کے شعبے میں نئی دریافتوں اور ایجادات کی بدولت نہ صرف انسانوں کو موت کے پنجے سے چھڑانا ممکن ہو گیا ہے بلکہ اس خیال یا تصور کو بھی تقویت ملی ہے کہ موت کے بعد بھی زندگی کا وجود ہے۔ دوسرے لفظوں میں موت زندگی کا اختتام نہیں، تسلسل ہے۔ آخری بات یہ کہ اس تحقیق کے نتیجے میں انسان کی عمر سینکڑوں سال بڑھانے اور آخرکار موت کا خاتمہ کر دینے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔

کیا آپ ڈاکٹر سام پارنیا سے اتفاق کرتے ہیں؟

کیا ہمارا دماغ ہمارے شعور، ذہن، اور خیالات کو جنم دیتا ہے یا ٹی وی کی طرح انھیں وصول کرتا ہے؟

کیا مستقبل میں موت کا خاتمہ ممکن ہے؟

اس دنیا کی زندگی کا تجربہ کرنے کے بعد آپ زندگی کا تسلسل چاہتے ہیں یا اختتام؟

julia rana solicitors

آپ کے خیال میں شعور کائنات کا محتاج ہے یا کائنات کا وجود شعور کا مرہون منت؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply