مردوں میں زنانہ پن کی وجوہات/عثمان انجم زوجان

اکثر و بیشتر مجھ سے زنانوں کے بارے پوچھا جاتا ہے کہ آخر مردوں کے زنانہ ہونے کے پیچھے کیا محرکات ہوتے ہیں؟

یار رہے کہ انسانی جسم میں زنانہ و مردانہ دونوں قسم کے ہارمونز یعنی ایسٹروجن اور ٹیسٹاسٹیرون ہوتے ہیں، مردوں میں عورتوں والے ہارمونز کی سطح بہت کم ہوتی ہے، لیکن اگر کسی وجہ سے کسی مرد میں زنانہ ہارمونز کی سطح بڑھ جائے تو پھر اس مرد میں زنانہ پن آ جاتا ہے، ایسے مردوں کے اندر زنانہ خواہشات بھی ابھر آتی  ہیں اور وہ عورتوں کے ساتھ ساتھ مردوں میں بھی دلچسپی لینا شروع کر دیتے ہیں۔

لڑکپن میں وہ لڑکے جنہیں لڑکوں کے بجائے لڑکیوں جیسا ماحول فراہم کیا جاتا ہے، ان لڑکوں میں لڑکیوں جیسی حرکات و سکنات پیدا ہونا شروع ہو جاتیں ہیں، آہستہ آہستہ وہ مردوں کی طرف راغب ہو جاتے ہیں، یہ ایک نفسیاتی عارضہ ہوتا ہے، ان میں سے کچھ مرد زنانے اقوے ہی رہتے ہیں اور کچھ مرد زنانے نربان ہو کر باقاعدہ خواجہ سراؤں کے کلچر کا حصہ بن جاتے ہیں۔

اقوے زنانے شادیاں بھی کرتے ہیں اور بچے بھی پیدا کرتے ہیں لیکن ان کی شادیاں زیادہ ناکام ہی رہتی  ہیں اور نربان چونکہ جنسی اعضاء سے محروم ہو جاتے ہیں جس وجہ سے وہ شادیاں نہیں کرتے اور گرو کی طرف سے اس کی وراثت میں حصے کا حق رکھتے ہیں جبکہ اقوے کو گرو کی وراثت میں سے کچھ نہیں ملتا، اس لیے کہ  اقوے شادیاں کر کے الگ سے اپنی زندگیاں گزارتے ہیں۔

ڈاکٹر سیّد حفیظ الرحمٰن کہتے ہیں کہ آج کل کے زیادہ تر لڑکے زنانے بننے کے لیے مختلف قسم کی ادوایات استعمال کرتے ہیں،جن میں کلکیریا، لائکو، پلس، پلاٹینا اور سلیشیا وغیرہ شامل ہیں، ان کے استعمال سے لڑکوں میں زنانہ عادات و خصائل نمایاں دکھائی دیتے ہیں، ایسے لڑکے لڑکیوں جیسی وضع و قطع، چال  ڈھال، پسند و ناپسند اور ادائیں رکھتے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل مجھے کسی نے شمع اختر انصاری کا ایک کتابچہ ذہنی معذوری بھیجا تھا، جس کے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں:

اللہ کریم نے کائنات کی ہر شے کو کسی نمونے کے بغیر اپنی قدرت کاملہ سے تخلیق فرمایا۔
قرآن پاک میں مذکور ہے!

اور اللہ ہے جو بڑی برکتوں والا اور ہر شے خوبصورت ڈھنگ سے بنانے والا ہے۔

لیکن انسانی تخلیق میں کوئی کمی رہ جاتی ہے یہ بھی حکم ربی ہے۔

یہ کمی کسی ذہنی یا جسمانی مسئلے کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے، جسے ذہنی معذوری یا جسمانی معذوری کانام دیاجاتا ہے۔

اسے ایک خوبصورت اصطلاح یعنی خصوصی افراد کا نام دیاگیاہے۔

ایشیا سے باہر مخنث اور ان کی زندگی پر کچھ معلومات جمع کی تھیں، اس وقت ان افراد پر بات کی گئی، جو جسم کی ادھوری حالت میں پیدا ہوتے ہیں اور ان کے متعلق اسلام میں واضح احکامات موجود ہیں، جینڈر ڈسفوریا کو ذہنی معذوری کا نام دیا گیا ہے، یہ ذہن کی وہ حالت ہے جو انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی پیدا ہوتی ہے، اور وقت گزرنے کے ساتھ واضح ہوتی ہے، ایک مکمل مردانہ جسم میں عورت کو قید محسوس کرنا یا مکمل زنانہ جسم میں مرد کو قید محسوس کرنا، ہم یہاں ان افراد کی بات نہیں کررہے جو جنسی لذتوں کے لیے اپنی جنس میں دلچسپی رکھتے ہیں ہمارا موضوع وہ افراد ہیں جن کے جنسی جذبات خوابیدہ ہی رہتے ہیں اور وہ ساری زندگی اپنے ذہنی اور جسمانی اختلاف کو قبول کرنے یا دوسروں سے قبول کروانے کی اذیتوں میں مبتلا رہتے ہیں۔

جس طرح بھوک پیاس اور نیند انسانی صحت کے لیے لازم ہیں مگر کچھ افراد بھوک نہ لگنے اور نیند نہ آنے کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں، عین اسی طرح کچھ افراد میں صنفی جذبات خوابیدہ ہی رہتے ہیں ان میں مونث، مذکر اور جینڈر ڈسفوریا افراد بھی شامل ہیں اور ہمارا موضوع وہ ہی افراد ہیں جو اس ذہنی معذوری کے ساتھ خاموش صنفی جذبات کے ساتھ زندگی گذار رہے ہیں۔

ہر وہ فرد جو اپنی جنس سے انکار کرے، جینڈر ڈسفوریا کا شکار نہیں ہوتا، اس میں سے بہت سے ہومو سیکچوئل، بائیو سیکچوئیل، لیزبینز اور گے بھی ہوسکتے ہیں، لہذا ان میں تفریق کر پانا مشکل ہے اور یہ بھی مشکل ہے کہ کس سے ہمدردی کی جائے کس سے استکراہ۔

شمع اختر انصاری نے اس کتابچہ میں چار ایسے کرداروں کے بارے لکھا، جنہوں نے اپنی زندگیاں اسی عارضہ کے ساتھ گزری، جن کے نام درج ذیل ہیں:

الف: نذیر بھا عرف نذیراں بی
ب: بھورا بھا عرف بشری خان
ج: منیر انکل
د: مما

ان کرداروں میں مجھے مما کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل لگا، کہ اس میں خواجہ سراؤں سے  جڑی  چند ایک باتوں کا انکشاف کیا گیا کہ کیسے زبردستی مردوں کو نربان کر دیا جاتا ہے، اس کردار کو اختصار کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے!

شبراتی

انتہائی بچپن میں انہیں اپنے بہن بھائیوں کی شدید نفرت اور مار پیٹ کاسامنا کرنا پڑا! والدہ کی حمایت و مدافعت کے باوجود معاملہ سنگین ہوتا گیا۔

شبراتی گھر سے باہر نکلنے کے بجائے اپنی والدہ کی کوٹھڑی میں قید ہوتے گئے۔

جب ان کا وجود گھر والوں کے لیے ناقابل برداشت ہوا تو والدہ نے انہیں بار بار گود مانگنے والے خواجہ سراؤں کے حوالے کردیا۔

خواجہ سراؤں کے ڈیرے پر انہیں محبت سے خوش آمدید کہا گیا، لیکن کچھ عرصے بعد ناچ گانے اور جنسی تعلقات کے لیے مجبور کیا جانے لگا، یہاں انہوں نے خصی کیے جانے کے عمل اور اس کے نتیجے میں تڑپ تڑپ کر جان دینے والوں کی تکلیف کئی بار دیکھی۔

شبراتی کی اذیت مزید بڑھ گئی، جب انہیں راضی کرنے کی کوششوں میں ناکامی کے بعد عمل جراحت کے لیے زبردستی کی جانے لگی تو وہ خواجہ سراؤں کے ڈیرے سے فرار ہوگئے، ان کے لیے اتنی بڑی دنیا میں دوسری کوئی جائے پناہ نہیں تھی، انہیں اسی گھر واپس آنا پڑا، جہاں کوئی اپنا نہیں تھا۔

julia rana solicitors london

اب یہاں میں یہ وضاحت کر دوں اور ہو سکتا ہے کہ کچھ کہیں کہ یہ کیا بات ہوئی، شمع اختر انصاری نے جن چار کرداروں کا ذکر کیا وہ حقیقی زنانے تھے جبکہ آج کل اکثریت مصنوعی زنانوں کی ہے، اسلام میں حقیقی زنانوں کے حقوق سے متعلق تمام تر احکامات موجود ہیں، دوسری طرف ایسے مرد جن میں جان بوجھ کر زنانے بن جاتے ہیں، ان کے بارے عبد اللہ بن عباس کی روایت کے مطابق اللہ کی لعنت فرمائی گئی ہے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”مردوں میں زنانہ پن کی وجوہات/عثمان انجم زوجان

Leave a Reply