26 مئی24 20ء کو پاکستان شو بزنس انڈسٹری کا شاندار اور تابناک باب بند ہو گیا۔ عالمی شہرت یافتہ اداکار و صدا کار طلعت حسین وارثی اس جہانِ فانی سے رُخصت ہوگئے۔ وہ علیل تھے اور خرابیء صحت کے باعث ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہوسکے۔ ایک خوبصورت انسان اور ایک نفیس ادکار جسے شو بزنس کے مختلف شعبوں میں اعلیٰ اور معیاری پرفار منس کے لئے مدتوں یاد رکھا جائے گا۔ اُن کا شمار پاکستان کے اُن چند اعلیٰ پائے کے اداکار میں ہوتا تھا ، جنہوں نے اپنے فن ِ اداکاری سے پاکستان کو ایک پہچان دی۔
طلعت حسین 1940 ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک تعلیم یافتہ اور روشن خیال خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ اُن کے والد ایک سرکاری آفیسر تھے، جن کا نام الطاف حسین وارثی تھا۔ اُن کی والدہ شائستہ بیگم جو کہ ریڈیو براڈ کاسٹر تھیں۔ جب اُن کے والد کی تعیناتی راول پنڈی میں ہوئی تو پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے قبل ہی وہ یہاں منتقل ہوگئے۔ اُن کی ابتدائی تعلیم راول پنڈی ہی میں مکمل ہوئی۔ پاکستان بن جانے کے بعد ، ریڈیو پاکستان کے قیام پر طلعت صاحب کی والدہ ریڈیو پاکستان کے ساتھ وابستہ ہوگئیں۔
طلعت صاحب کو بچپن ہی سے فن اور آرٹ سے دل چسپی تھی۔ اُن کی والدہ کی خواہش تھی کہ وہ سول سروسز کا امتحان دیں۔ مگر آپ اداکار بننا چاہتے تھے۔ اُس دور میں ریڈیو پر اسکول براڈ کاسٹ کا آغاز ہوا۔ اس پروگرام میں طلعت حسین نے بھی حصہ لینے کے لئے امتحان دیا۔ اُن کی والدہ نے اس پروگرام کے پروڈیوسر سے کہا کہ وہ ان کے بیٹے کو اس امتحان میں فیل کردیں۔ کیونکہ اُن کی والدہ نہیں چاہتی تھیں کہ اُن کا بیٹا اس شعبہ میں آئے۔ لیکن خُدا کا کرنا یہ ہوا کہ طلعت صاحب نے اس امتحان میں ٹاپ کیا۔ جب اُن کی نانی جان نے ریڈیو پر اپنے نواسے کی آواز سُنی تو انہوں نے کہا لو آج طلعت بھی بھانڈ اور میراثی بن گیا۔
طلعت حسین نے ریڈیو کی مصروفیات کے ساتھ ساتھ اپنی پڑھائی بھی جاری رکھی۔ بعد ازاں اسٹوڈیو نائن کے ساتھ وابستہ ہوگئے۔1964ء میں جب ٹیلی ویژن پاکستان میں آیا تو طلعت صاحب ٹی وی کے ساتھ منسلک ہوگئے۔انہوں نے پاکستان ٹیلی ویژن ، لاہور سنیٹر سے اپنے فنی کئیریر کا آغاز کیا۔ اُس وقت کی مختلف ٹی وی سیریز میں شاندار کام کیا اور شہرت اور کامیابی سمیٹی۔
1972 ء طلعت حسین ، رخشندہ حسین کے ساتھ رشتہء ازدواج میں بندھ گئے۔ شادی کے بعد اداکاری میں باقاعدہ تعلیم و تربیت کے لئے لند ن جانے کا فیصلہ کیا۔ 70 کی دہائی میں وہ انگلنیڈ چلے گئے۔ وہاں جاکر لندن آرٹ اینڈ میوزک اور ڈرامیٹک آرٹس کے متعلق باقاعدہ تعلیم حاصل کی ۔ اسی ادارے سے اپنی تعلیم مکمل کرنے پر گولڈ میڈل بھی حاصل کیا۔دیارِ غیرمیں قیام کے دوران مختلف ڈراموں میں کام کیا۔ پردیس میں رہتے ہوئے اپنے روزمرہ اخراجات کے لئے جز وقتی کام بھی کرتے رہے۔ 1997ء میں لند ن میں بننے والا ڈرامہ، ‘‘ٹریفک ’’ میں کام کیا۔ اس کے علاوہ لندن میں قیام کے دور مختلف ٹی وی ٹاک شوز، ڈرامہ اور فلموں میں کام کیا۔ جب طلعت حسین پاکستان آئے تو یہاں آکر ڈرامہ انڈسٹری سے منسلک ہوگئے۔
ڈرامہ سیریز، ‘‘ پرچھائیاں’’ (1976) ، میں طلعت صاحب نے ایک منفی کردار ادا کیا۔ ڈرامہ سیریل، ‘‘ کشکول’’ (1993) اور پھر ڈرامہ سیریل ‘‘ ہوائیں’’(1997) میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ ڈرامہ سیریل، ‘‘آنسو’’ میں طلعت حسین کی اداکاری ناقابل فراموش تھی۔یہ ڈرامہ انگلینڈ میں پکچرائز ہوا اور اس ڈرامہ کہ خا ص بات یہ تھی کہ یہ پہلا پاکستانی ڈرامہ تھا جو ڈیجیٹل کیمرہ میں عکس بند کیا گیا۔ اس کے علاوہ ڈرامہ ‘‘ستارہ اور مہر ونساء’’ میں طلعت صاحب نے کمال کی اداکاری کی۔
طلعت حسین نے چھوٹی اسکرین کے علاوہ سلور اسکرین پر بھی اپنی باکمال اداکاری سے خود کو منوایا۔پاکستان فلم انڈسٹری کے چاکلیٹی ہیرو وحید مراد کی ڈائریکشن پروڈکشن میں بننے والی فلم، ‘‘اشارہ ’’ بحیثیت ِ اداکار اُن کی پہلی فلم تھی۔ فلم، ‘‘ چراغ جلتا رہا ’’ ( 1962ء)میں اداکار کی حیثیت سے کام کیا۔ پڑوسی ملک ہندوستان میں ڈائریکٹر پروڈیوسر ساون کمارکی ہندی فلم ، ‘‘ سوتن کی بیٹی ’’ میں بھی ایک وکیل کا کردار ادا کیا اور کیا خوب کام کیا ۔اس فلم میں اُن کے ساتھ جیہ پرادھا، ریکھا اور جیتندر بھی تھے۔ یہ فلم ہٹ ہوئی اور طلعت صاحب کا کام بھی بہت پسند کیا گیا۔ 2016ء میں ریلیز ہونے والی پاکستانی فلم ، ‘‘ ایکٹر اِن لاء’’، ‘‘ چھپن چھپائی’’ اور آخری فلم، ‘‘پراجیکٹ غازی’’ (2017ء) میں اپنی شاندار اداکاری کے جوہر دیکھائے ۔ اُن کی ٹی وی اور فلم اسکرین کے لئے فنی خدمات ہمیشہ یاد گار رکھی جائیں گی۔ 2012 ء میں طلعت صاحب ‘‘ناپا’’ (National Academy of Performing Arts- NAPA)
ساتھ وابستہ ہوگئے، جہاں انہوں نے اداکاری کی تربیت دینے کے فرائض انجام دئیے۔ اس کے علاوہ پیمرا (Pakistan Electronic Media Regulatory Authority -PEMRA)) سے بھی منسلک رہے۔
طلعت حسین نے اداکاری کے ساتھ ساتھ صدا کار کی حیثیت سے بھی شہر ت پائی۔ مزامیر کے اُردو ورژن کی آڈیو ریکارڈنگ میں اُن کا ساتھ معروف شاعرہ آئرین فرحت نے دیا۔ اُردو مزامیر کی یہ ریکارڈنگ ایک تابناک سرمایہ ہے۔ 1979 ء مشہورِ زمانہ فلم ، ‘‘ دی جیزز’’ میں حضرتِ یسوع مسیح کی آواز کی اُردو ڈبنگ کے لئے طلعت حسین کا انتخاب کیا گیا ۔ اور انہوں نے واقعی اپنی خوب صورت آواز سے اس فلم کے دیکھنے والے اور اُردو زبان بولنے اور سمجھنے والے ناظرین کو اپنا کو گرویدہ بنا لیا۔ اس کے علاوہ طلعت صاحب کو ایک اور شاندار اعزاز حا صل ہے کہ 80 کی دہائی میں شالیمار ریکارڈنگ کمپنی نے قرآنِ مجید کا اُردو ترجمہ ، طلعت حسین کی آواز میں ریکارڈ کیا۔
حکومتِ پاکستان نے 1982 ء میں طلعت حسین کو پرائڈ اف پرفارمنس ایوارڈ سے نوازا۔ اس کے علاوہ ‘‘ لکس اسٹائل ایوارڈ’’، ‘‘ انڈس ڈرامہ ایوارڈ’’ کے علاوہ بھی کئی اعزازات طلعت صاحب نے اپنی فنی خدمات کے عوض اپنے نام کئے۔ ہما میر نے طلعت حسین کی زندگی پر ایک کتاب ، ‘‘ یہ ہے طلعت حسین’’ کے عنوان سے تحریر کی۔ 1998 ء میں قائد اعظم پر بننے والی برٹش فلم ‘‘جناح’’ میں بھی طلت حسین صاحب نے اداکاری کی۔
طلعت حسین کی نجی زندگی ایک کامیاب زندگی تھی۔ انہوں نے ڈاکٹر رخشندہ حسین سے شادی کی جو یونیورسٹی آف کراچی میں سائیکالوجی کی پرو فیسرہیں ۔اُن کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ بڑی بیٹی تعزیل ، جس نے ٹی ڈراموں میں کام کیا ۔ لیکن شادی کے بعد ٹی وی کو خیر باد کہہ دیا۔ چھوٹی بیٹی روحینہ نے بھی ٹی وی سیریل میں کام کیا اور بعد ازاں بیرون ِ ملک منتقل ہوگئیں۔ طلعت صاحب کا اکلوتا بیٹا ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرتا ہے اور فلم پروڈکشن کی طرف رحجان رکھتا ہے۔
طلعت حسین بہت نفیس ،باکمال منجھے ہوئے فنکار تھے۔وہ کئی دہائیوں تک فن اور شہرت کی بلندیوں پر رہے۔انہوں نے پاکستان کے علاوہ ہندوستان میں بھی اپنے فن کا لوہا منوایا۔اُن کی زندگی کے آخری ایام بیماری ، تنہائی اور گمنامی میں گذرے۔یہ ایک المیہ ہے کہ پاکستانی شو بز کے زیادہ تر سینئر اداکار اور فن کار طبقہ کی زندگی کے آخری دن مفلسی ، گمنامی اور بغیر کسی سرکاری سرپرستی کے گذرتے ہیں تاوقتِ وہ موت سے ہمکنار ہوجائیں ۔ طلعت حسین کے ایک قریبی دوست اور مداح نے اُن کے بارے میں بتایا کہ، ‘‘ طلعت حسین ایک با تہذیب اور تعلیم یافتہ انسان تھے۔ وہ کردار کے اخلاص کو جانتے اور سمجھتے تھے۔’’ اس میں کوئی شک نہیں کہ طلعت حسین ایک انمول اداکار تھے ، جو اپنے کردار میں حقیقت سے قریب ترین اداکاری سے ایک سماں باندھ دیتے تھے۔طلعت حسین نے اپنے کئیریر میں بطور اداکار ایسے ایسے کردار نبھائے کہ اُن کے مداح اُن کی اعلیٰ پائے کی اداکاری کے معترف ہوگئے۔ ہندوستانی معروف اداکار دلیپ کمار بھی اُن کی اداکاری سے بہت متا ثر تھے۔طلعت حسین پاکستان شو بزنس انڈسٹری کا بہت بڑا نام ، آج ماضی کا حصہ بن گیا۔ جسم ہمیشہ کے لیے فنا ہو جائے گا ،خاک میں مل جائے گا لیکن ان کے اداکاری اور ان کا نام صدیوں یاد رکھا جائے گا ۔ اُن کی آخری رسومات میں شدید گرم موسم کے باعث فنکار برادری کے کم لوگ شریک ہوئے۔ مسجد ِعائشہ میں اُن کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور تدفین ڈیفنس، کراچی کے قبرستان میں کی گئی۔

اُن کی فنی زندگی اور خدمات کو قلم بند کرتے ہوئے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک اعلیٰ پائے کے ورسٹائل اور Legendary شخصیت تھے، جو برسوں تک اپنے مداحوں کے دل میں زندہ رہیں گے۔ ہم انہیں اُن کے شاندار اور ہمیشہ یاد رکھے جانے والے فنی کیرئیر پر خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں