اس کے حلق میں کانٹے چبھ رہے تھے۔ وہ گہری گہری سانسیں لے رہی تھی۔ چہرے پر پسینے کی بوندیں ایک دوسرے کے ساتھ باہم پیوست ہوکر چھوٹی چھوٹی باریک لکیروں میں ڈھل کر گردن کی طرف لپک رہی تھیں۔ کچن میں جاکر ادھر ادھر دیکھا اور تپائی پر رکھے کولر سے گلاس بھرا اور ایک ہی سانس میں پی گئی۔ ہتھیلی کی پشت سے ماتھے کا پسینہ صاف کیا اور تیزی سے اپنے کمرے میں گھس گئی۔
بستر پر لیٹے لیٹے ایک ہاتھ سرہانے رکھا اور دوسرا آنکھوں پر رکھ کر آنکھیں موندھ لیں ، اور اس منظر کو دوبارہ یاد کرنے لگی۔
روبینہ کا یہ معمول بن چکا تھا، جب بھائی اور بھابھی دروازہ بند کرکے اندر جاتے تو کچھ منٹ کے بعد وہ پاس والی کھڑکی سے جڑ جاتی۔ کھڑکی کی جھری سے اندر کا نظارہ مدھم روشنی میں صاف نظر آتا۔ وہ تب تک کھڑکی سے نہیں ہٹتی جب تک بھائی اور بھابھی بنا کپڑوں کے ایک دوسرے میں پیوست ہو کر سو نہیں جاتے۔
ابھی بھی روبینہ یہی سب کچھ دیکھ کر آئی تھی۔ آج کچھ زیادہ ہی خاص ہوا جس کی وجہ سے روبینہ کی حالت بے قابو ہورہی تھی۔ آج بھائی نے بھابھی کے جسم پر اپنے ہونٹوں سے وہاں وہاں بوسے ثبت کئے جہاں سوچتے ہی کراہیت آجاتی۔ اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ ایسی گندی جگہوں کو بھی چوما جا سکتا ہے۔
روبینہ نے دھیرے سے اپنی آنکھیں کھولیں، مگر جلد ہی اس کو احساس ہوا کہ آنکھوں کی نمی حلق تک اتر چکی ہے۔
زندگی کی پینتیس بہاریں دیکھنے کے باوجود بھی روبینہ کی قسمت میں یوں تنہا ، اکیلے کمرے میں سونا لکھا تھا۔ والد جاگیردار تھے اللہ نے ایک بیٹے اور بیٹی سے نوازا تھا۔ روایتی زمین داروں کی طرح حسب و نسب کے قائل تھے۔ سو بیٹی کو گھر بیٹھا کر رکھا کہ کوئی جوڑ کا رشتہ نہیں تھا جو ان کی پگڑی کے ہم پلہ ہوتا۔ ماں جب تک زندہ رہی شوہر کو قائل کرنے کی کوشش کرتی رہی بالآخر مایوس ہوکر وہ بھی مر گئی۔
بھائی کی شادی ساتھ والے گاؤں کے زمین دار کی اکلوتی بیٹی سے کروا دی گئی۔ بہو کیساتھ وارثت کی سینکڑوں ایکڑ زمین بھی گھر آئی۔
روبینہ اپنی تنہائیوں سے لڑتی رہی۔ اس کی زندگی میں بس واحد رنگینی اپنے بھائی کا کمرہ رہا یا جانوروں کا باڑہ جس میں کھلے عام جانور افزائش نسل کے سلسلے کو برقرار رکھے ہوئے تھے۔ کبھی سرشام وہ منڈیر پر بیٹھ کر دور کھیتوں میں نظریں دوڑاتی، کہ کون کیا کررہا ہے۔ فضل کریم کی بیوہ اپنی بھینسوں کیلئے چارہ کاٹ رہی ہوتی، چچا نورا اپنی بیٹیوں کیساتھ گھاس پھوس کی کٹائی کرتا۔۔ اور میرو پاگل حسب معمول ننگے پیر ایک جگہ سے دوسری جگہ بنا مقصد اپنا سفر جاری رکھتا۔ میرو پاگل کا گریبان اس نے کبھی بند نہیں دیکھا ہمیشہ بغیر بٹن کے گھومتا رہتا۔ نہ کسی سے بات کرتا نہ کسی کو نقصان پہنچاتا اس لئے بےضرر میرو کیساتھ جیسے لوگوں نے خاموش سمجھوتہ کرلیا تھا کہ نہ ہم تم کو تنگ کریں گے نہ تم ہمیں۔
بھائی کو دھڑکا لگا رہتا کہ پیٹھ پیچھے روبینہ اس کی عزت داغدار نہ کرلے اس لئے بیوی کو سختی سے تاکید تھی کہ گھر کے آس پاس نوکر نظر نہ آئے۔ بھابھی کی تیز چبھتی ہوئی نظریں ہمیشہ روبینہ پر مرکوز رہیں۔ وہ ہمیشہ ایک ہی بات کرتا
“ساجدہ اگر میری غیر موجودگی میں ایسا ویسا کچھ ہوا تو سب سے پہلے تیرا گلا کاٹوں گا”۔
ساجدہ کو ہمیشہ اپنے گلے پر تیز دھار چھری ہی محسوس ہوتی۔
روبینہ اپنے بستر سے اٹھی اور دوبارہ اپنے بھائی کے کمرے کی طرف لپکی کہ شاید کچھ اور دیکھنے کو مل جائے۔ مگر جھری سے بس یہی نظر آیا کہ بھابھی کے چوڑے کولہوں کے اوپر بھائی کی ٹانگ رکھی ہوئی تھی۔ بھائی نے بھابھی کو اپنے سینے سے لگا رکھا تھا۔ حسد کی ایک لہر اس کے اندر اٹھی۔
‘اس عورت سے زیادہ خوبصورت بدن تو میرے پاس ہے۔ سڈول سینہ، متناسب جسم اور گورا بدن، کیا یہ عورت اس قابل ہے کہ اس کی ان جگہوں چوما جائے۔۔۔
زیر لب وہ مسکرائی۔
‘اس عورت سے زیادہ تو میں خوبصورت ہوں۔”۔
گھر میں مکمل خاموشی تھی۔ بھابھی باورچی خانے سے باہر نکلی، روبینہ کے کمرے سے کچھ آوازیں آئیں۔ اس نے اپنا وہم سمجھا کہ شاید روبینہ اندر کوئی کام کررہی ہوگی۔ مگر اس کے جاتے قدم کچھ نامانوس آوازوں پر رک گئے۔ اس کو یقین ہوگیا کہ روبینہ کمرے میں اکیلی نہیں ہے۔ اس نے آہستگی سے دروازے کی جھری سے آنکھ لگائی اور اچھل گئی۔ روبینہ نیچے پڑی کراہ رہی تھی اور میرو پاگل وحشیانہ طریقے سے اس پر جھکا ہوا تھا۔ سفید بستر پر خون کے قطرے یہ بتانے کیلئے کافی تھے کہ روبینہ نے اپنے باپ کی عزت ابھی تک سنبھال رکھی ہوئی تھی۔
ساجدہ کو اپنے اندر حسد کی شدید لہر محسوس ہوئی کیونکہ دس سالہ شادی شدہ زندگی میں اس کے شوہر نے کبھی اتنی دیوانگی سے اس کے ساتھ ہم بستری نہیں کی تھی۔
اچانک روبینہ نے دروازے کی جھری کی طرف دیکھا۔ ساجدہ کے ساتھ اس کی آنکھیں چار ہوئیں۔۔۔روبینہ کی آنکھوں میں ایک غرور تھا۔

ساجدہ مسکراتے ہوئے واپس باورچی خانے کی طرف مڑ گئی.
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں