ایسی ویسی لڑکی/مسلم انصاری

“ہمارے” بیشتر دوستوں کو ایسی عورتوں سے پیار ہوا جو پہلے سے شادی شدہ تھیں، جو مطلقہ یا بیوہ تھیں، جن کے شوہر پردیس میں روز روز ڈوب رہے تھے یا جو اغوا کر لئے گئے تھے اور پھر کبھی لوٹ کر نہیں آنے والے تھے
عین اسی طرح دوسری جانب
“ہماری” دوستوں کو بھی ایسے مردوں سے پیار ہوا جو پہلے ہی کسی کھونٹے سے بندھے ہوئے تھے، جن کی بیویاں ان سے روٹھ گئیں تھیں، جو اپنے لئے روز مرہ کی زندگی سے کچھ وقت نکالنا چاہتے تھے، جن کی بیویاں علیل تھیں، بستر مرگ پر تھیں یا مر چکی تھیں، جو روزگار اور معاش کے نام پر دوسرے شہروں میں جا بسے تھے اور پھر کبھی لوٹ کر واپس نہیں آنا چاہتے تھے
ہر خنک شام، ہم محافل میں ایسی خبروں کے بارے میں بات کرتے، ہنستے، بتاتے کہ اس ماہ “شیری” جس کا نام سفیان تھا، وہ بستی سے غفورے کی بیگم بھگا کر لے گیا ہے، ایسے ہی جیسے پچھلے سال سونو یعنی سونیا برادری کے ایک شادی شدہ مرد کے ساتھ شہر کو چل پڑی تھی!
یہ فہرست طویل ہے، گر اس میں ایک جانب بوٹے، منّے، شاپر، ٹیٹو اور گھمڑے کا نام شامل ہے تو دوسری جانب فوزی، چینی، بیتو، شدّو، چمکیلی اور روبی کے نام تھے، پر یہ سبھی نام عرفی ہیں جو پیدائش کے کچھ ہی دن بعد کسی کے منہ سے نکلتے اور ساری عمر جونک کی مانند جسم و جاں سے چمٹے رہتے، پھر مر کر بھی یہی خبر آتی “سیمی مر گئی!”
یا “بِلّا فوت ہوگیا ہے!”
بھاگے ہوئے بیشتر جوڑے گم ہو جاتے، برسوں بعد کوئی اڑتی خبر اس قصبے کا رخ کرلیتی تو پتہ چلتا، ان میں سے ایک مر گیا ہے، فلاں جوڑے کے یہاں اب تین بچے ہیں، فلاں نے اپنی بیوی شہر جا کر چھوڑ دی، فلاں اب سکھی اور خوب امیر ہے، ایسا بھی ہوتا کہ کسی جوڑے کی کبھی کوئی خبر نہ آتی اور سب اسے بھلا دینے میں عافیت سمجھتے
خال خال ایسا بھی ہو جاتا کہ چھوڑا ہوا شوہر بھگوڑے جوڑے کو شہر میں جا لیتا اور دونوں کو مار کر خود کا بھی قلع قمع کرلیتا (ایسا بس دو بار ہی ہوا)
اس سب کے باوجود لوٹ کر آنے والے جوڑے کی کوئی فہرست نہیں ہے!
قصبے میں “ہجرت” جدی پشتی لفظ ہے، یہ ان جوڑوں کی وجہ سے عدم سے وجود میں نہیں آیا تھا، پہلے پہل مرد روزی اور تعلیم کے نام پر شہروں کی سمت جاتے، پھر وہاں آباد ہو جاتے تو موسم سرما، عید اور گرما کی چھٹیوں میں اپنے بچوں کے ساتھ بستی میں لوٹتے، کچھ دن ایسے لوگوں کے آنے سے چہل پہل بڑھ جاتی، پھل زیادہ بکتے، ہم دیہاتی بچوں کو طرز طرز کے کھلونے ملتے، شادیاں ہوتیں اور پیسہ لٹایا جاتا پھر وہ لوگ واپس لوٹ جاتے بالکل ایسے، جیسے کبھی آئے ہی نہ تھے!
جب ہم دسویں کے امتحان سے گزرے، اس برس ان شہری لڑکوں میں سے ایک ہماری عمر کو پہنچ چکا تھا، ان چھٹیوں میں وہ ہمیں روز پتلون میں دکھا
“پتلون” ہماری تعلیمی وردی اور اس کا روز مرہ کا لباس تھا، ہم اسے پہچانتے تھے، یہ وہی تھا جس کی آبائی کوٹھی نہر کنارے سال بھر بند پڑی رہتی، سچ پوچھیں تو ہمیں اس سے رغبت تھی، ہم اس کے گرد حلقہ لگا کر بیٹھتے، اسے سنتے، جیسے اس کا کام سال بھر شہروں کی کہانیاں جمع کرنا اور پھر ایک روز ہمیں سونپ دینا ہو، اسے نظر کی عینک لگی تھی پھر بھی وہ زمین سے جڑے لوگوں کے دکھ دیکھ سکتا تھا، قصبے کی دائی کے بقول، شہری بابوؤں کو کھیت کھلیان کی عورتیں نہیں جمتیں، پر ہم جانتے تھے، اس کے دل میں ایک چھید تھا، جس سوراخ سے ان کے اندر ہوا جاتی تھی، اس ہوا سے وہ لہلہانے لگتا، اور سوراخ بھی وہ تھا جو فقط اسی بستی میں آکر کُھلتا تھا!
ہمیں اس پر ناز ہوتا اگر وہ ہم میں سے کسی کی شادی شدہ بہن کو، چل پڑی ریت کے باعث، اپنے ساتھ بھگا کر لے جاتا، ہماری بہن کے ساتھ گھر بساتا اور خوشی کی زندگی جیتا، کیونکہ ہم دوستوں میں سے ہر ایک اپنی اپنی بہن کی گھریلو زندگی سے واقف تھا، ظاہر ہے (ہر بھائی اپنی بہن کی اچھی زندگی کا خواہاں ہے)
پر مشترکہ طور پر ہم سبھی لڑکوں کو افسوس کرنا پڑتا جب وہ شہر کو لوٹ جاتا اور کسی کو ساتھ لیکر نہیں جاتا، اس سے برا یہ تھا کہ اس نے کبھی کسی بیوہ، مطلقہ، شادی شدہ اور نام کرلی گئی لڑکی/عورت کے بارے میں بات تک نہ کی
یہ پھوٹ ہم میں وہی لایا تھا، یہ ریت توڑنے والا وہی اکلوتا فرد تھا جو تواتر سے کنواریوں کی بات کرتے ہوئے سنجیدہ ہو جاتا
ہم اسے چھیڑتے ہوئے کہتے کہ “عورت میں محنت کم ہے وہ سبھی کچھ خود جانتی ہوتی ہے” وہ کہتا “جنسِ مؤنث میں اس سے کہیں زیادہ کچھ ہے”
ہم اسے کہتے مجبور کرتے کہ وہ قائل ہوجائے، اس بات پر کہ، شادی کی بعد بھی اصل محبت مل سکتی ہے!
ایسی اور بہت سی بے تکی اور واہیات باتیں، جنہیں اب ہم سوچ کر فقط مسکراتے ہیں، شاید توبہ تائب بھی ہو چکے ہیں!
پھر بھی ہم سال بھر اٹکل لگاتے کہ یہاں بستی میں اسے کون سی بھائی ہوگی؟ ہم نے پَوروں تک پر نام گنے، مگر وہ کوئی اوپری شے میں الجھا ہوا تھا، اس کا زخم ہم پر نہیں کُھلا، نہ ہی اس نے کُھلنے دیا، یہ چالاکی شہر سے ہی ملتی ہے وگرنہ ہم سبھی دوست ایک دوسرے کے سامنے ننگے تھے
اس کی باتیں بڑی لذیذ اور گہری ہوتیں، ہم سمجھ نہیں پاتے تھے مگر تجسس ہمارے کانوں کو اس کے لبوں تک کھینچ لے جاتا
ایک برس اس نے ہمیں ایسی باتیں بتائیں جو سراسر نئی تھیں، جن کے سننے کے بعد ہم سب نے دل میں ارمان محسوس کیا کہ کاش ہمارے پاس بھی وہی شہری تعلیم ہوتی جو اسے ملی ہے
اس نے بتایا :
“کیا تم ایسی لڑکی کے بارے میں جانتے ہو؟
جس کے پَر کٹے ہوئے ہیں اور وہ روز گھر کی کھڑکی سے جھانکتی ہوئی پائی جاتی ہے، اس کا گھر مٹیالا ہے، بالکل ایسے ہی جیسے کسی خاکروب کی جھونپڑی میں بچھی چارپائی کے نیچے رکھے مٹی کے برتن کا رنگ!
جس جس کھڑکی سے وہ جھانکتی ہے وہاں سے باہر کا سارا منظر رکا ہوا دکھتا ہے، جیسے شام ڈھلے ٹرین کی کچھ بوگیاں ویرانے میں انجن کے خراب ہونے کے باعث رکی ہوتی ہیں، اس لڑکی کی آنکھیں پتھرائی ہوئی ہیں، مانو پچھلے سال جب وہ گاؤں کے کسی گھروندے میں بیٹھی ہوئی تھی تب اس کے گال پھولے ہوئے تھے، اور اب اس کی نبض کلائی کی ہڈیوں کے پیچھے ہے، اس کے چہرے میں گھڑے ہیں، گہرے گھڑے، سرحدی علاقوں میں بنی کھائیوں جیسے، اس کی آنکھوں کے نیچے ہلکی سیاہی ہے، جیسے کوئی پرانا جلایا ہوا کھیت ہو پھر اس پر تیز ہوا چل جائے!
بشمول خدوخال کے اس کی ہر شئی اندر دھنسی ہوئی ہے
جیسے کسی عورت کا لگاتار تیسرا حمل نویں مہینے میں ضائع ہوگیا ہو، حالانکہ وہ لڑکی ابھی کنواری ہے!
اس کی منڈیر پہ بیٹھے سارے پرند اڑ گئے تھے اور اب اس کے پالے، سنبھالے ہوئے سبھی کبوتر اور خرگوش بھی مر چکے ہیں!”
اتنی قصہ گوئی کے بعد وہ پھر سے شہر کو لوٹ گیا اور ہماری آنکھوں سے نیند کی فاختائیں پُھر ہوگئیں، ہمیں پتہ تک نہ تھا ہمارے بیچ اس قدر دکھ اور یاسیت پنپتی ہے، ہمیں حیرت کے دھچکے لگے جب ہم نے جانا کہ اسی بستی میں کہیں ایسی کنواری بھی زندہ ہے جس کے شب و روز مردہ ہیں، ہم نے قصبہ چھان مارا، نگر نگر ایسی یاسیت تلاشی جس کی خوشبو وہ شہری بابو ہم میں پھونک گیا تھا، وہ نہیں ملی، پر سال بھر کی اس کھوج میں ہمیں سبھی کنواریوں کے گھر پتے مل گئے، ہم میں سے کسی دوست نے اس برس شادی شدہ عورتوں کا تعاقب نہیں کیا، نا ہم نہر کنارے کپڑے دھونے والیوں کو چھپ چھپ کر دیکھ پائے، نہ ہی ہم میں سے کسی لڑکے نے تنہا بیوہ کے گھر چاندنی رات میں قدغن لگایا، حقیقت میں یہ کنواریوں سے رغبت کی ہماری پہلی سیکھ تھی جو وہ ایک سال کے لئے ہم میں چھوڑ گیا تھا!
جیسی لڑکی کے بارے میں اس نے خبر دی تھی، ہم نے مان لیا کہ اسی لڑکی کے بارے میں، جب جب ہم نے اکیلے میں سوچتے ہیں وہ چڑچڑی ہوجاتی ہوگی، ہمارے لئے اس کا چڑچڑا ہوجانا محبت اور پیار کا وہ مقام تھا جو ساری جنسی تسکین سے بہت اوپر ہے، ہمیں تو اس کے پسندیدہ رنگ سے انس بھی ہوگیا جو ہم جانتے بھی نہ تھے
ہم دوست سوچتے
“اس کے کپڑے پرانے ہونگے، مگر وہ انہیں بھی تہ لگا کر رکھتی ہوگی، جیسے کسی نصابی کاپی میں کچھ لکیریں مار کر صفحے کو موڑ کر تکون بنادیا جاتا ہے اور پھر ہر ایک وہ صفحہ کھول کر دیکھتا ہے، ہمیں لگتا کہ وہ بھی روز تہ لگے کپڑے کھول کھول دیکھتی ہے، پھر ان میں سے ایک پہن لیتی ہے!”
ہم سارے دوست مل کر اس کے دیکھے ہوئے خوابوں کی بات کرتے، ہم میں سے ایک کہتا :
“گرمیوں کی ایک شب وہ چھت پر سورہی تھی، اس نے ایک ایسا خواب دیکھا جس نے اسے مایوس کردیا، گرمیوں کے دن گزر گئے ہیں مگر وہ اب بھی اسی طرح مایوس ہے”
دوسرا کہتا :
“اسے بچے عزیز ہیں، پرانی تصویریں اس کے سرہانے دھری رہتی ہیں، خندہ پیشانی اس کے گالوں جیسی ہے، راتوں میں جب تک سب سو نہیں جاتے وہ خود سونے کا ناٹک کرتی ہے، پھر ایک موم بتی سے کئی کئی خطوط لکھتی ہے!”
مہینوں کو دنوں کے پرندے اپنی چونچوں میں بھر کر اڑ گئے، ایک بار پھر سے وہ موسم آیا جب شہری بابو قصبے میں اترتا تھا، اس بار ہم اس کی آمد سے پہلے لاری اڈے پر کھڑے تھے، وہ ہمیں دیکھتے ہی مسکرایا اور گلے ملتے ہوئے کہنے لگا
(ہاں پتہ ہے وہ تمہیں نہیں ملی!)
بڑی منت سماجت کے بعد ایک کڑکتی دوپہر وہ ہمیں تالاب کنارے لے کر بیٹھ گیا اور اس لڑکی کے بارے میں (جس سے ہم سب کو بیک وقت محبت ہوگئی تھی) مزید بتانے لگا، اس نے ہم سے کچھ باتیں کیں پھر ایک عجیب دکھ کا اظہار کیا اور کہنے لگا :
“گزرے سال کے عین وسط میں ایک روز اس نے مجھ سے کال پر بات کرنے کی حامی بھر لی، جب ہم نے گفتگو کا سلسلہ شروع کیا تب مجھے اس کی ہنسی کی آواز آئی پھر اس نے کال کاٹ دی، جب میں نے اس کا سبب پوچھا تو وہ بولی (مجھے لگا دوسری جانب کوئی اجنبی ہے)
اس دن سے میں سوچتا ہوں کہ کال کی اُس جانب جہاں میں تھا وہاں سے کون بات کررہا تھا؟
پھر بھی وہ اکثر گفتگو کرتی ہے اور اس کی بیشتر باتیں رسمی ہیں، جیسے ہم لاعلاج مریض سے کہتے ہوں
“آپ جلد ٹھیک ہوجائیں گے”
بھلا اتنے تعارف سے ہمارا پیٹ کب بھرتا تھا
ہم نے اسے اور کریدا، اس نے مزید بتایا کہ :
“پچھلے سال اور اس سے پچھلے سال اور اسی طرح لگاتار کئی پچھلے سالوں سے اسے کسی نے کہا ہے کہ اس کی شادی ہونے والی ہے! اور وہ اسی دن سے خود کو شادی شدہ تصور کررہی ہے، بِن بیاہی باتوں پر چڑ جاتی ہے، شیشہ نہیں دیکھتی، کچن کے برتن دھوتی رہتی ہے، گھر کے تمام افراد کے بعد اکیلے بیٹھ کر کھانا کھاتی ہے، مرے ہوئے اور بچھڑے ہوئے لوگوں کو یاد کرتی ہے، پھر روتی ہے، اس سب کے بعد وہ سو جاتی ہے، پھر اسے سوتے سوتے خیال آتا ہے کہ اٹھنے کا وقت ہوگیا ہے، وہ اٹھ جاتی ہے، یہ سارے وہی کام ہیں جو ایک شادی شدہ عورت کے زمرے میں ہیں، حالانکہ ابھی تو اس کے بچپن کی گڑیا بھی کنواری ہے!
اس کے بچپن سے یاد آیا
بچپن میں وہ اچھی بھلی بچی تھی، خوبصورت تھی!
اب وہ بھلی اور بچی رہ گئی ہے، مگر اسے اچھی نہیں سمجھا جاتا!”
یہاں تک سننے کے بعد ہمارے صبر کا بندھ ٹوٹ گیا
ہم نے شہری بابو کا ہاتھ پکڑا اور اس سے کہا، ہمیں وہاں لے چلو جہاں وہ ہے!
وہ مسکرایا اور ہمارے آگے آگے چلنے لگا، سہ پہر ڈوب کر شام نکال لائی، ہم پیدل چلتے ہوئے بستی کی خارجی فصیل تلک آ پہنچے، پر وہ چلتا رہا، پھر قصبے سے بہت دور ہمیں جھگیوں سے اٹھتا ہوا دھواں دکھائی دیا، وہ رک گیا اور مڑ کر کہنے لگا :
“ایک نہیں! یہاں ایسی بہت سی کنواریاں ہیں!
تم اپنی اپنی محبت کے لئے ان سے میں سے کوئی بھی چن سکتے ہو!”
تھوڑی بہت غیر متوقع تلخ کلامی کے بعد، جب ہم میں سے ایک کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوا، تب اس نے شہری بابو کا گریبان پکڑتے ہوئے چلّا کر کہا :
یہ نیچ ذات اور کمّی طبقے کے لوگ ہیں، گر ہم ٹاٹ بھی پہنتے ہوں پھر بھی ایسا پیوند ہمارے لباس میں نہیں جچتا، قریب دو سال سے تم نے ہمیں خوابوں میں الجھائے رکھا اور آج کوڑے کے ڈھیر سے گلاب چننے کا کہتے ہو؟ یہاں وہ لڑکیاں ہیں جو چند روپوں سکوں کے عوض ہمارے جاگیرداروں کی راتیں گرم رکھتی ہیں، یہ لڑکیاں، ان کی مائیں، ان کی ماؤں کی مائیں سالہا سال سے یہی کچھ ہیں، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں! اگر اتنی ہی ہمدردی تمہیں ان سے ہے تو یہ کُترا ہوا لباس تم کیوں نہیں پہن لیتے؟ یہاں سب ایسی ویسی لڑکیاں ہیں!
“ایسی ویسی” سمجھتے بھی ہو؟؟
چلو، یہاں سے واپس چلو! تمہارے دماغ میں کوئی مرض حلول کر گیا ہے!”
ہم پلٹنے لگے تو شہری کی آواز نے ہمارے پیر روک لئے!
اس نے ہمیں صدا دی اور کہا : “میری بہن سے شادی کرلو، وہ بھی ان جھونپڑیوں میں کہیں رہتی ہے!”
وقت بند ہوگیا، لمحے ٹھٹھر کر مر گئے
مانو ہمارے سروں کو کوئی ہتھوڑوں سے کوٹ گیا ہو!
وہ سچ کہ رہا تھا، پھر جس بند پڑی کہانی کا منہ اس نے کھولا، اس کے مطابق، اس کے باپ نے صدیوں سے بسی اس جھونپڑ پٹی کی عورتوں میں سے ایک کے ساتھ، پیسوں کے عوض اپنی کچھ راتیں روشن کی تھیں، جب وہ عورت حاملہ ہوئی، اس کا باپ اپنی اصل عورت کو لے کر شہر میں روپوش ہوگیا!
(بدنامی کا ڈر بھی ہجرت کی وجہ ہوتی ہے)
اس رات اس شہری نے ہمیں دو سچ اور بتائے
پہلا یہ کہ، کنواریاں، چاہے کیسے بھی پیدا ہوئی ہوں، خواب ضرور دیکھتی ہیں!
دوسرا، دنیا میں ہر مرض کا ایک عالمی دن ہے، جیسے ملیریا کا 25 اپریل اور کینسر کا 4 فروری، پر جب اس کا کینسر تشخیص ہوا تب 24 دسمبر تھا، بیماریاں اپنے عالمی مقررہ دنوں پر ہرگز نہیں لگتیں، وہ ضرور جھگی نشینوں میں سے ایک سے بیاہ رچا لیتا، جس کی وہ باتیں بتاتا ہے، جو اس کی محبت ہے، پر اُس وقت، جب اس کے پاس کچھ بھی وقت باقی ہوتا!
رہے نام خدائی کا!
13 ستمبر 2021، ہم دوستوں نے شہر سے لائے گئے اس شہری کے جسم کو، نہر کنارے بند پڑی اسی کی کوٹھی کے صحن میں دفنا دیا، پر تب تلک ہم میں سے دو لڑکے جھگیوں سے اپنی اپنی کنواریاں چن چکے تھے، اس سب سے بھی کہیں خوبصورت یہ ہے کہ جب میں اسے قبر میں اتار کر باہر نکلا، تب اس کی بہن میرے کاندھے سے لگ کر، پھوٹ پھوٹ کر رو دی!!
ختم شد

Facebook Comments

مسلم انصاری
مسلم انصاری کا تعلق کراچی سے ہے انہوں نے درسِ نظامی(ایم اے اسلامیات) کےبعد فیڈرل اردو یونیورسٹی سے ایم اے کی تعلیم حاصل کی۔ ان کی پہلی کتاب بعنوان خاموش دریچے مکتبہ علم و عرفان لاہور نے مجموعہ نظم و نثر کے طور پر شائع کی۔جبکہ ان کی دوسری اور فکشن کی پہلی کتاب بنام "کابوس"بھی منظر عام پر آچکی ہے۔ مسلم انصاری ان دنوں کراچی میں ایکسپریس نیوز میں اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply